"KDC" (space) message & send to 7575

سول انتظامیہ کے تحت بلدیاتی الیکشن؟

بلدیاتی انتخابات، جن کا انعقاد ایک آئینی ضرورت ہے‘ سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود پیپلز پارٹی اور بعد ازاں موجودہ دورِ حکومت میں بھی ملتوی ہوتے رہے۔ تاہم اب دو صوبوں کی طرف سے دی گئی تاریخوں پر عدالتِ عظمیٰ کے حکم سے انتخابات کرانے کے لئے الیکشن کمشن نے 6نومبرکو شیڈول جاری کیا۔ 7نومبر کو اس کے حوالہ سے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی۔ جس کا مقصد بلدیاتی انتخابات کے لئے مزید مہلت حاصل کرنا تھا۔ پارلیمنٹ کے ارکان بلاشبہ یہ اختیار رکھتے ہیں کہ وہ قانون سازی کے ذریعے کسی بھی مشکل کا حل نکال سکتے ہیں؛ تاہم اس قرارداد سے دو آئینی اداروں کے آمنے سامنے آنے یا آئینی تقاضوں سے انحراف کرنے یا عدالتی احکامات نظر انداز کرنے کا تاثر پیدا ہوا تو سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے لئے ماتحت عدلیہ کے افسروں کو بطور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران فراہم کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کی استدعا مسترد کر دی۔ سندھ حکومت نے 27نومبر کو بلدیاتی انتخابات کرانے سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ سندھ حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ مقررہ تاریخ پر انتخابات کرانا ممکن نہیں کیونکہ سندھ میں نئی حلقہ بندیوں پر اب بھی کام جاری ہے۔ لہٰذا دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں بھی بلدیاتی انتخابات کے لئے سات دسمبر کی تاریخ مقرر کی جائے۔ عدالت عظمیٰ نے استدعامنظور کر لی۔ صوبوں میں حلقہ بندیوں میں کسی حد تک من مانی کارفرما نظر آتی ہے۔50کروڑبیلٹ پیپرز کی چھپائی سمیت بہت سے کام مختصر وقت میں روبہ عمل لانے ہیں۔ اس سب کے باوجود عجلت میں الیکشن کا ہو جانا اس سے بہتر ہے کہ فی الحال منعقد نہ ہوں۔ اس ضمن میں کئی امور پر سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مختلف صوبوں میں علیحدہ علیحدہ نظاموں کا اختیار کیا جانا۔ بلاشبہ امریکہ کی مختلف ریاستیں مقامی حکومتوں سمیت کئی معاملوں میں ایک دوسرے سے مختلف نظام رکھتی ہیں ۔ تاہم وہاں اس صورتِ حال کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ مگر ہمارے ہاں طویل عرصے تک یکساں نظام اچھی طرح سے چلتا رہا ہے۔ اس لئے الگ الگ خانوں میں تقسیم کی کوئی مضبوط وجہ نظر نہیں آتی۔ اسی طرح جب ملکی نظام کی دوہری سطحوں پر سیاسی بنیادوں پر الیکشن کا انعقاد ہوتا ہے اور جماعتی بنیادوں پر حکومتیں تشکیل پاتی ہیں تو نچلی سطحوں پر آمرانہ حکومتوں کا غیر جماعتی طریق کار اختیار کیا کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ جس میں منتخب ارکان کی منڈی لگنے اور خریدو فروخت کے غالب امکانات ہوتے ہیں۔ یہ بات سیاسی حکومتوں کے وقار اور شان کے منافی ہے۔ 2001ء میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے قانون کے تحت جو 35سے زیادہ محکمے اضلاع کے حوالہ کئے گئے تھے‘ ان کے واپس لئے جانے سے بلدیاتی ادارے عملاً بے اختیار ہو گئے ہیں۔ جب کہ صوبے آئین کے تحت انتظامی، مالیاتی اور سیاسی اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل کرنے کے پابند ہیں۔ لہٰذا پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے ارباب اختیار جمہوری نظام کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کے لئے نیم دلانہ کیفیت سے نکلیں اور آئین کے آرٹیکل 140-Aکے مطابق اختیارات بلدیاتی اداروں کو تفویض کردیں۔ ایک حکومتی شخصیت کو ایک کمشنر نے بے بسی سے بتایا کہ مقامی ایم این اے اور ایم پی اے نقشہ لے کر نمودار ہوتے ہیں اور خود ہی لکیر لگا کر بتا دیتے ہیں کہ حلقہ بندیاں یوں کر دی جائیں۔ ایک آفیسر نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ راجن پور کے سب سے پرانے علاقے داجل اور کوٹ مٹھن شریف ہیں۔ آبادی سب سے زیادہ ہے۔ علاقے کی حدود کافی بڑی ہیں۔ مگر ان وجوہ کو نظر انداز کر کے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کے حلقے میں آنے کی وجہ سے ایک ایسا علاقہ فاضل پور‘ جو یونین سے بھی کم ہے اسے میونسپل کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ صرف جنوبی پنجاب کے تین ڈویژنوں کی اطلاعات ہیں۔ اگر ایسی صورت حال پورے صوبے میں ہے تو کس حد تک افسوسناک ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد سرکاری افسران کو بھی جرأت سے کام لیتے ہوئے ناجائز احکامات کورد کر دینا چاہیے۔ حکمرانوں کو بھی اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ عوامی غیظ و غضب خطرناک ہوتا ہے۔ سول انتظامیہ کی زیر نگرانی لوکل گورنمنٹ الیکشن غیر جانبدار نہیں ہوں گے بلکہ انتظامیہ کی ملی بھگت پر مبنی مضحکہ انتخابات قرار پائیں گے۔ اگر عام انتخابات فوج اور عدلیہ کی نگرانی میں کرائے جاسکتے تھے تو بلدیاتی الیکشن کیوں سول انتظامیہ کی نگرانی میں کرائے جارہے ہیں؟ خدشہ ہے کہ اس سے حکمران صوبائی حکومتیں مرضی کے نتائج حاصل کر سکیں گی۔ چونکہ سپریم کورٹ نے نئے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے ماتحت عدلیہ کے ججوں کی خدمات بطور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران، ریٹرننگ افسران اور اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران دینے کے بارے میں الیکشن کمیشن کی استدعا اس بناء پر مسترد کر دی کہ 11مئی 2013ء کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات میں ماتحت عدلیہ کی کارکردگی پر چند سیاسی جماعتوں نے شدید تنقید کی تھی۔ اِسی طرح لوکل گورنمنٹ الیکشن کے انعقاد سے قبل حلقہ بندیوں کا تعین اور ووٹروں کی فہرستوں کی ازسرنو تیاری بھی ضروری ہے۔ صوبائی حکومتوں کی نااہلی، بلدیاتی انتخابات کے لئے قوانین، ایکٹ بنانے میں تاخیر اور قومی اسمبلی کی متفقہ قرارداد کی منظوری کے بعد بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں تاخیر پر الیکشن کمیشن آئین سے انحراف کی زد میں نہیں آئے گا۔ حکومت پنجاب کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے حوالہ سے کاغذاتِ نامزدگی میں ختم نبوت کا کالم مبینہ طور پر حذف کرنے کی الیکشن کمیشن کو مکمل انکوائری کرانی چاہیے۔ ماضی میں بھی الیکشن کمیشن ایسی غلطیوں کا مرتکب ہوتا رہا اور 1979ء میں اس وقت کے سیکرٹری الیکشن کمیشن سے ایسی سنگین غلطی کسی انتظامی غفلت سے ہو گئی تو اس وقت تمام مذہبی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کا (مارشل لاء دور میں) گھیرائو کر لیا تھا۔ اب ہماری مذہبی جماعتیں بھی مصلحت کا شکار ہو چکی ہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین سے ناراضگی نہیں لینا چاہتیں؛ لہٰذا مولانا فضل الرحمن نے وزیراعلیٰ پنجاب سے فون پر بات کرنا ہی کافی سمجھا۔ اس سے پیشتر بھی 10مارچ2013ء کو پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے ایک ہفتہ قبل ہی تعلیمی نصاب سے اسلام، احادیث، نظریہ اقبال اور دیگر اسلامی تاریخ کے حوالے حذف کرا دئیے گئے تھے تاکہ مغربی ممالک اور امریکہ کو مسلم لیگ (ن) کے سیکولر رجحان کا یقین آجائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں