"KDC" (space) message & send to 7575

ملک کا مستقبل

حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے پہلے امریکی تھنک ٹینکس کے حوالے سے نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں خبریں شائع ہونا شروع ہو گئی تھیں کہ پاکستان بڑی تیزی سے ایک ناکام ریاست بننے جارہا ہے اور 2015ء تک دنیا کے نقشے پر موجودہ پاکستان کی ریاست کا جغرافیہ نظر نہیں آئے گا۔ آج پاکستان انتظامی اور معاشی ابتری کے دور سے گزر رہا ہے اورامریکی دانشور اس کے خاتمے کی تاریخیں دے رہے ہیں۔ پاکستان کو تباہی کے راستے پر ڈالنے والا امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے مقاصد پورے ہوجانے کے بعد دنیا کے اہم ترین محل وقوع پر واقع اس ریاست کی جغرافیائی ہیئت تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔وہ صوبہ خیبر پختون خوا کے علاوہ بلوچستان اور کراچی کو ،جو وسطی ایشیاء ،مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے دہانے پر ہیں، علیحدہ ریاستیں بنانے کے خواہش مند ہیں۔ دہشت گردی اور امن و امان کی ناگفتہ بہ صورت حال کی وجہ سے پاکستانی معیشت تباہی کے دہانے پہ پہنچ چکی ہے اور امریکی سازش کے تانے بانے سے پاکستانی ریاست اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو بھی اسی تناظرمیںدیکھنے کی ضرورت ہے۔اگر آج متحدہ پاکستان موجود ہوتا تو پاکستان کے محلِ وقوع کی اہمیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے تقریباًچالیس کروڑ عوام کا بوجھ اٹھانا پڑتا جب کہ موجودہ پاکستان میں تقریباً بیس کروڑ عوام کے بوجھ اور مخالفت کو ڈیل کرنا پڑرہا ہے۔ محل وقوع کی اہمیت کے اعتبار سے خیبر پختون خوا ، بلوچستان اور کراچی کو علیحدہ علیحدہ ریاستوں کی شکل میں ڈیل کرنا امریکہ کے لیے زیادہ آسان ہے۔ 2014ء میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کا امکان ہے کیونکہ حامد کرزئی کا مستقل ٹھکانا امریکہ ہی ہو گا۔اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ان حالات میں وزیرستان پاکستان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور پاکستان کی فیڈریشن کو نقصان پہنچے گا ؛کیونکہ افغانستان اور پاکستان کے طالبان کے مقاصد ایک ہی ہیں۔ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد افغان طالبان اور پاکستان طالبان دونوں کا آپس میں اتحاد ثابت ہو گیا ہے۔ تحریکِ طالبان کا امیر ملا فضل اللہ افغانستان میں موجود ہے اور وہ افغان طالبان اور افغان انٹیلی جنس کے ساتھ ہے۔ پاکستان کی فیڈریشن کو نقصان پہنچانے کے لیے افغان اور پاکستان طالبان یکجا ہو چکے ہیں اور پاکستان کے سیاستدان بے حسی، بزدلی ، دوغلے پن ، مفادپرستی اور کرپشن کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ خوف اور دہشت کا یہ عالم ہے کہ میاں نوازشریف ، آصف علی زرداری، اسفند یار ولی خان اور بلاول زرداری میں سے کوئی بھی اپنا سرمایہ پاکستان منتقل کرنے کو تیار نہیں ۔ اگرحالات اسی ڈگر پر رہتے ہیں توافغانستان میں طالبان کی حکومت آنے پر وزیرستان پاکستان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور اِس کے ساتھ ہی بلوچستان اور کراچی بھی علیحدگی کا راستہ اختیار کر لیں گے ، اس طرح دشمنوں کا خواب پورا ہوجائے گا۔ طالبان کے خلاف بھرپور کارروائی کی نوبت آجائے تو پھر تمام معاملات افواج پاکستان کی کمان میں آجائیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 4اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کو مرثیہ نہیں بنایا۔ جنرل ضیاء الحق کے سانحہ کے بعد پیپلز پارٹی نے مفاہمت کی پالیسی برقرار رکھی ۔محترمہ بے نظیر بھٹو 1988ء کے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ضیاء الحق کو اپنا صدر تسلیم کرنے کو تیار تھیں۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے جانشین غلام اسحاق خان کو بھی اپنی پارٹی کے ووٹوں سے صدر منتخب کرایا۔اس کے برعکس میاں نوازشریف کارگل اور 12اکتوبر 1999ء کے خوف کے اسیر ہو چکے ہیں۔ طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو مضبوط اعصاب کی حامل اعلیٰ قیادت کی ضرورت ہے ۔ پاکستانی قوم اِس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ جیل اور جلا وطنی سے شریف برادران کی سوچ تبدیل ہوچکی ہوگی لیکن 11مئی 2013ء کے مینڈیٹ سے ان کی طبیعت کا شاہانہ پن لوٹ آیا ہے اور سب ہی سابق صدر زرداری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے مخصوص دوستوں اورخوشامدیوں کو اہم عہدوں سے نوازنے لگے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ حکمران شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ انہیں قومی اداروں پر اعتماد ہے نہ بیورو کریسی پر اور نہ اپنی پارٹی پر۔ اسحاق ڈار ، خواجہ سعد رفیق، عابد شیر علی سمیت چند ایک کے سوا انہیں ہر کوئی سازش کرتا نظر آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ وہ نیشنل سکیورٹی اور خارجہ پالیسی بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔حالانکہ انہیں خارجہ پالیسی کی سمت معلوم ہے نہ نیشنل سکیورٹی کی باریکیوںکاادراک ۔ اگر کارگل سانحہ پر کمشن تشکیل دیا جائے تو محترم نواز شریف کے بارے میں ایسے ایسے انکشافات سامنے آئیں گے کہ پاکستان میں سیاسی نظام میں بھونچال آجائے گا۔ امن مذاکرات کے شدید مخالف اور حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا پاکستان سے بدلہ لینے کی نیت رکھنے والے ملا فضل اللہ کے پاکستانی طالبان کا امیر منتخب ہونے کے بعد بات چیت کے ذریعے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کی حکومتی کوششیں مزید مشکلات کا شکار ہوگئی ہیں۔ ان حالات میں ملک اور قوم کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے وزارتِ خارجہ اور وزارتِ دفاع میں بہتر قیادت کو سامنے لانا ہو گا جو ملکی اور بین الاقوامی امور کے بہترین ماہر ہوں اورجو قوم کو اسی طرح ولولہ اور جوش و خروش سے ہمکنار کریں جس طرح فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو متحد کر دیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں