"KDC" (space) message & send to 7575

پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ اور امکانات

سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف 1973ء کے آئین کی رو سے انکوائری کے لئے جو قانون حرکت میں آئے گا اسے 'High Treason Act 1973‘کا نام دیا جاتا ہے جو پورے پاکستان کا احاطہ کرتا ہے۔ مذکورہ قانون کسی شخص کو بڑے پیمانے پر سزا کے لئے ایک بار ہی حرکت میں آتا ہے۔ اس کے تحت 23مارچ1956ء سے لے کر اب تک آئین کو سبوتاژ کرنے والا کوئی بھی شخص سزائے موت یا عمر قید کا حقدار ہو گا۔یہ دلیل وزن نہیں رکھتی کیونکہ 1956ء اور 1962ء کے آئین میں آرٹیکل 6کا کوئی ذکر موجود نہ تھا۔ اس قانون کے تحت سزا پانے والے کی کسی عدالت میں اپیل نہیں ہو سکے گی۔ ماسوائے اس کے کہ اس شخص کی درخواست سننے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہو گا۔ 18ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں مذکورہ قانون مزید وسعت اختیار کر گیا ہے۔ ترمیم شدہ آئین کے آرٹیکل 277-AAکی رو سے جو شخص آئین کو معطل کرے، آئین سے تجاوز کرے یا اس کے خلاف سازش کرے یا اس میں مرضی کے مطابق ردو بدل کرے یا اسے طاقت کے لئے استعمال کرے ، ایسا شخص سخت ترین سزا، عمر قید یا سزائے موت کا مستحق ٹھہرے گا۔ مذکورہ غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات میں کسی طرح کی معاونت کرنے والا شخص بھی اسی سزا کا حقدار ہو گا۔ آئین میں آرٹیکل 6کو شامل کئے جانے سے سابق صدر پرویز مشرف کا ٹرائل یقینی طور پر بہت اہمیت کا حامل ہو گا۔ وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے ذریعے آرٹیکل 6کے مقدمے کے لئے الزامات عائد کر سکتی ہے۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد 30دن کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکے گی۔ خصوصی عدالت میں عوام کے ملاحظہ کے لئے کھلی سماعت ہوگی ۔ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف تحقیقات کرنے والی ایف آئی اے کی ٹیم نے جو شواہد وفاقی حکومت کو بھجوائے حکومت نے ان کی روشنی میں فیصلہ کیا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پرویز مشرف کو مجرم ثابت کرے۔ آرٹیکل 6کے بغور مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پرویز مشرف کے ساتھ 3نومبر2007ء کے اقدامات میں ان کے معاون اور دست راست کون تھے۔ 
سابق صدر پرویز مشرف نے 3نومبر2007ء کو آئین کے آرٹیکل 232کے تحت اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے آئین کے مخصوص آرٹیکلز کو التوا میں ڈال دیا تھا اور اب سپیشل کورٹ کو اس امر کا جائزہ لینا ہو گا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے آئین کے آرٹیکل 232کو کن وجوہ کی بناء پر نافذ کیا۔ پرویز مشرف نے 3نومبر2007ء کو جو ایمرجنسی نافذ کی‘ اس میں ان کی معاونت کرنے والوں میں بعض اہم شخصیات شامل تھیں۔ مجوزہ عدالت کو ان سب کے جوابات طلب کرنا پڑیں گے۔ 
جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی سے پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام کے لرزہ براندام ہونے کا خطرہ اس لیے ہے کہ 3نومبر کی ایمرجنسی کے تحت ہی پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہو ا کیونکہ 15نومبر2007ء کو قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو گئیں۔ نگران سیٹ اَپ نے بھی اسی ایمرجنسی کے تحت کاروبار حکومت چلایا۔ پاکستان کے چیف جسٹس کے عہدے کے لئے جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے 3نومبر2007ء کی رات آٹھ بجے حلف اٹھایا‘ جبکہ جسٹس فقیر کھوکھر، جسٹس نواز عباسی، جسٹس جاوید بٹر اور دیگر ججوں نے بھی حلف اٹھایا۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل جسٹس عبدالقیوم ، وزیراعظم شوکت عزیز اور 25کے لگ بھگ وفاقی سیکرٹری اور کئی ممالک کے سفیر حضرات اور میں بھی اس تقریب میں شامل تھا۔ اِسی ایمرجنسی کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 22نومبر2007ء کو قومی انتخابات کے لئے الیکشن شیڈول جاری کیا تھا‘ جس کے تحت 27نومبر2007ء تک پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے تقریباً پندرہ ہزار سے زائد امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کاغذاتِ نامزدگی داخل کروائے تھے۔ اس ایمرجنسی کے دوران ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے چاروں صوبائی ہائی کورٹس کے معزز چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے 1200کے لگ بھگ ریٹرننگ آفیسران کا تقرر کیا تھا۔ بادی النظر میں 3نومبر2007ء کی محدود ایمرجنسی کے بارے میں تحقیقات شروع ہوتی ہے اور اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے آرٹیکل 6کے تحت کارروائی ہوتی ہے تو پھر 3نومبر2007ء کے بعد ہونے والی تقرریوں سمیت18فروری 2008ء کے انتخابات بھی غیر آئینی تصور ہونے چاہئیں۔ جسٹس عبدالحمید ڈوگر بطور چیف جسٹس آف پاکستان 23مارچ 2009ء تک اپنے عہدے پر فائز رہے اور 24مارچ2009ء کو موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے فرائض سنبھالے تھے اور انہوں نے اپنے فرائض سنبھالنے کے پہلے ہی دن جسٹس حامد علی مرزا سے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کا حلف لیا تھا۔
جوں جوں 3نومبر2007ء کی ایمرجنسی کی طرف پیش قدمی بڑھے گی توں توں اہم شخصیات کے بیانات لینا انصاف کے تقاضے کے عین مطابق ہو گا۔
سابق صدر پرویز مشرف اندرونی بیرونی سازشوں میں گھر چکے تھے۔ ان کے خلاف 6اکتوبر2007ء کے صدارتی الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئینی درخواست پر کیس زیرِ سماعت تھا‘ حالانکہ پاکستان کے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر نے سابق صدر پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی منظور کرتے ہوئے اہم فیصلہ لکھا تھا جس میں انہوں نے قاضی حسین احمد بنام صدر پرویز مشرف کے کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کا حوالہ دیا تھا جس کی رو سے صدر مملکت کو انتخاب میں آرٹیکل 62سے استثنیٰ قرار دے دیا گیا تھا‘ اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے 6اکتوبر کے صدارتی الیکشن کے حوالے سے حکم جاری کیا تھا کہ صدر مملکت کا انتخاب کروالیں لیکن اس کا سرکاری گزٹ نوٹی فیکیشن جاری نہ کیا جائے۔ لہٰذا سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے تحت مشروط طور پر صدر کا انتخاب عمل میں لایا گیا تھا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے نادان دوستوں کے گھیرائو میں آکر بلا وجہ 3نومبر2007ء کو ایمرجنسی نافذ کر دی۔ حالانکہ صدارتی الیکشن کے حوالے سے ان کے نااہل ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے‘ کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے ایک فیصلے میں ان کو تحفظ دے چکی ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کی 3نومبر کی ایمرجنسی کی پارلیمنٹ نے (7نومبر 2007ء کو) توثیق کر دی تھی اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی صدرِ مملکت کے انتخاب کو آئینی قرار دے دیا تھا‘ جس کی بنیاد پر چیف الیکشن کمشنر نے کیبنٹ سیکرٹری حکومت پاکستان کو صدارتی انتخاب کا رزلٹ آئین کے صدارتی شیڈول IIکے تحت بھجوایا تھا اور رولز آف بزنس کے تحت میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان تمام دستاویزات بھجوا دی تھیں‘ جس کے تحت پرویز مشرف نے بطور صدر مملکت غالباً نومبر کے دوسرے ہفتے میں حلف اٹھایا تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں