"KDC" (space) message & send to 7575

قانون مؤثر بہ ماضی نہیں ہو سکتا! (1)

ایک خبر کے مطابق سابق وفاقی سیکرٹری قانون جسٹس (ر) یاسمین عباسی نے چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس صدر مملکت کو بھیج دیا ہے اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایمرجنسی کے خلاف فیصلے کے وقت سپریم کورٹ میں جج موجود نہیں تھے‘ بعد میں ان سے دستخط کرائے گئے۔ یہی مؤقف اور دلائل سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے بھی اپنے دفاع میں پیش کئے تھے۔ لہٰذا خصوصی عدالت میں سابق صدر کے وکلا یہی نکات پیش کریں گے کہ کیس کی سماعت کو آگے بڑھانے سے پیشتر اس ایمرجنسی کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اصل حقائق کا فیصلہ کیا جائے۔
حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف 3 نومبر 2007ء کے اقدامات (جب انہوں نے ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے ساتھیوں کو معطل کر دیا تھا) کی پاداش میں آرٹیکل 6 کے تحت آئین سے غداری کا مقدمہ قائم کر دیا ہے۔ حکومت کی درخواست پر سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت کے لئے ہائی کورٹ کے تین جج صاحبان پر مشتمل ایک خصوصی عدالت تشکیل دے دی ہے۔ ملک کے ممتاز قانون دان اکرم شیخ حکومتِ پاکستان کی جانب سے کیس کی پیروی کریں گے۔ اس مقدمے کی اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے یہ قدم اس وقت اٹھایا ہے جب ملک کی دو مقتدر شخصیات کو اس کیس میں مختلف حوالوں سے دلچسپی ہو سکتی ہے۔ ان میں سے ایک شخصیت چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری ہیں جو 3 نومبر2007ء کو جنرل پرویز مشرف کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کی زد میں آئے تھے۔ دوسری اہم شخصیت 29 نومبر کو ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی ہیں‘ جو 3 نومبر 2007ء کو وائس چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ جب جنرل پرویز مشرف دوسری بار صدر منتخب ہوئے تو جنرل کیانی کو ایمرجنسی سے بہت فائدہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے اس بینچ کو‘ جو ان کے صدارتی الیکشن کے حوالے سے سماعت کر رہا تھا‘ تحریری طور پر غالباً وسیم سجاد کے ذریعے یقین دہانی کرائی تھی کہ جنرل پرویز مشرف صدارتی حلف سے پیشتر آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ صدر پرویز مشرف نے کس اہم شخصیت کے مشورے پر سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا۔ یہ اہم راز اس مقدمے کی کارروائی کے دوران منظر عام پر آنے سے ایک نیا طوفان بپا ہونے کا اندیشہ ہے۔
اس کیس میں کچھ معمولی نوعیت کی خامیاں بھی ہیں۔ بنچ میں موجود جج مسٹر فیصل عرب نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے انہی دنوں ان کا نام الیکشن کمیشن پاکستان کے معزز رکن کے لئے بھی بھجوایا گیا تھا۔ اس وقت کے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس کرامت جعفری کے متبادل کے طور پر یہ نام بھجوایا تھا جبکہ جسٹس یاور علی، جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے کے برادرِ نسبتی ہیں۔ جسٹس رمدے کے ہونہار صاحبزادے ان دنوں پنجاب حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل ہیں۔ جسٹس رمدے بھی ان جج صاحبان میں شامل ہیں جنہیں جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس کے ساتھ معطل کر دیا تھا۔ وہ محترم چیف جسٹس کے قریبی رفقا میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ یہ معروضات اس کیس کو شک و شبہات کی لپیٹ میں اس طرح لے آئیں گی جس طرح مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمۂ قتل کی سماعت کرنے والے بنچ میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس مشتاق حسین، جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ، جسٹس کرم الٰہی چوہان اور سپریم کورٹ میں چیف جسٹس انوارالحق کی موجودگی کے باعث سارا کیس شکوک و شبہات کے غبار میں اَٹا ہوا دکھائی دیتا تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے اس ٹرائل میں وفاقی حکومت کے لئے یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہو گا کہ 3 نومبر 2007ء کو 
ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے صدر پرویز مشرف نے آئین کے آرٹیکل 232 کے تحت جو اختیارات استعمال کئے اور ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ صدر پرویز مشرف کو آئین میں ترامیم کرنے کے جو اختیارات تفویض کر چکی تھی‘ اس سے آئین سے انحراف کی زد میں صدر پرویز مشرف آتے ہیں یا نہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دفاع کے وکلا اس اہم فیصلہ کو بھی زیر بحث لائیں گے۔ درحقیقت آرٹیکل 6 کے تحت مقدمے کی ایسی کوئی تاریخی مثال نہیں ملتی کہ صرف ایک شخص کو ملزم نامزد کیا جائے جبکہ اس کے معاونین کو‘ جنہوں نے ایمرجنسی کے نفاذ میں اُس کا ساتھ دیا‘ علیحدہ رکھا جائے۔
وزیر اعظم نواز شریف کو دیگر معاملات کو بھی پس پردہ ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا۔ انہیں جنرل پرویز مشرف نے 10 دسمبر 2000ء کو اہم عالمی شخصیات کی خصوصی درخواست پر ہی جدہ بھجوایا تھا اور اس دوران کم و بیش ایک عشرہ تک وہ سعودی عرب کی مہمان نوازی سے یوگنڈا کے معزول صدر عیدی امین کی طرح لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس کے بعد سعودی حکمرانوں کی یہ بات بھی جنرل پرویز مشرف نے تسلیم کر لی تھی کہ نواز شریف کو 24 نومبر 2007ء کو پاکستان واپس آ کر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔ اس معاملہ کی تہہ میں 
جانے کے لئے اہم واقعات پر مبنی چشم کشا انتخابی سیاست پر بعد میں تفصیل سے قارئین کو آگاہ کروں گا۔
میڈیا کے دانشوروں کو آئین اور قانون کا علم نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت لاعلم ہو۔ قانون تو اندھا ہوتا ہے لیکن قانون بنانے اور اسے نافذ کرنے والوں کو آئین کے آرٹیکل 6 کی صحیح تشریح معلوم ہونی چاہیے۔ سابق صدر پرویز مشرف کیس میں تو یہی ظاہر ہو رہا ہے۔ انہوں نے دو دفعہ آئین معطل کیا۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس طرح انہوں نے دفعہ 6 کی خلاف ورزی کی‘ جسے آئین سے غداری قرار دیا جاتا ہے۔ قانون کے تحت اس جرم کی سزا موت ہو سکتی ہے۔ ہمارے دانشوروں اور سیاسی رہنمائوں کو آئین میں شامل آرٹیکل 6 کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اسی حوالے سے آئین کے آرٹیکل 6(1)، (2) اور (3) کا بھی عمیق نظروں سے مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ ملکی تاریخ میں آئین دو دفعہ منسوخ کیا گیا۔ پہلی دفعہ صدر سکندر مرزا نے اکتوبر1958ء میں آئین منسوخ کیا جو 23 مارچ 1956ء کو طویل جدوجہد کے بعد نافذ کیا گیا تھا۔ دوسری دفعہ جنرل یحییٰ خان نے 25 مارچ 1969ء کو آئین منسوخ کر دیا تھا۔ جنرل یحییٰ خان کی اقتدار سے محرومی کے بعد سپریم کورٹ کے جسٹس حمودالرحمن نے ان کو مناسب قرار دیا تھا۔ اس کے بعد جنرل ضیاالحق نے 5 جولائی 1977ء کو آئین منسوخ نہیں کیا بلکہ شریف الدین پیرزادہ، جسٹس مشتاق حسین، اے کے بروہی کے مشورے سے صرف معطل کیا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں