"KDC" (space) message & send to 7575

قانون مؤثر بہ ماضی نہیں ہو سکتا! (2)

جنرل پرویز مشرف نے بھی 12 اکتوبر 1999ء کو آئین معطل کیا تھا۔ منسوخ کی بجائے آئین معطل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آرٹیکل 6 کے تحت یہ جرم نہیں بنتا تھا۔ یہ گنجائش آئین بنانے والوں سے دانستہ یا پھر آئین ساز کمیٹی کے ارکان سے اوجھل ہو گئی تھی یا پھر بے دھیانی میں چھوڑ دی گئی تھی۔ جس سے آرمی چیف کے قانونی ماہرین نے استفادہ کیا۔ اس طرح جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف قانونی اور آئینی طور پر آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے بادی النظر میں نظر نہیں آتے۔
اب آئین کی 18ویں ترمیم میں کی گئی تبدیلیاں دیکھیں اور اسی حوالے سے آئین کے آرٹیکل 6(1)، (2-A)، (2) اور (3) کا گہری نظر سے اصل آئین کے آرٹیکل سے موازنہ کریں۔ 18ویں ترمیم کے تحت آئین کی معطلی کو بھی جرم میں شامل کر لیا گیا ہے۔ قانون کو جاننے والے بخوبی علم ہیں کہ جس وقت کوئی جرم سرزد ہو تو اس کی سزا اس وقت نافذ قانون کے تحت ہی دی جا سکتی ہے۔ بعد میں بننے والا قانون مؤثر بہ ماضی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے میری ناقص رائے میں سابق صدر پرویز مشرف کو کسی صورت مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر اب کوئی فرد آئین معطل کرے تو اُسے غداری کا مجرم ضرور قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اب اگر آرمی چیف کو ملک کے اندرونی امن و امان اور قومی وحدت کو شدید خطرات لاحق ہونے کی بنا پر ملک کا نظم و نسق سنبھالنا پڑے اور اس سلسلے میں آئین کو پسِ پشت ڈالنا مقصود ہو تو پھر وہ آئین کو معطل کرنے کی بجائے اسے منسوخ کرنا بہتر سمجھے گا کیونکہ ایک کے بعد ایک آئین میں اس قدر پیوند کاری ہو چکی ہے کہ اب 1973ء کا آئین عملاً ترمیمی آئین کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مارشل لاء لگا تو اسے ختم کرنے سے پہلے ملک میں اسی انداز کے انتخابات کرانے پڑیں گے جیسے جنرل ضیاالحق نے 3 فروری 1985ء کو کرائے تھے اور نئی آئین ساز اسمبلی سے نیا آئین مرتب کر کے اس کو نافذ کرنا پڑے گا اور اس میں آرٹیکل 6 قسم کا کوئی آرٹیکل شامل نہیں ہو گا۔ منسوخ شدہ آئین کی خلاف ورزی نئے آئین کے تحت جرم نہیں ہو گی۔ اٹھارہویں ترمیم شدہ آرٹیکل 6 میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ کوئی عدالت ایسی کارروائی کی توثیق نہیں کرے گی جو آرٹیکل 6 کے تحت آتی ہو۔ اس طرح یقینی بنا دیا گیا ہے کہ کبھی ملک بچانے کے لئے مارشل لا نافذ کرنا پڑا تو آئین معطل نہیں بلکہ منسوخ ہی ہو گا۔ اب اٹھارہویں ترمیم کے تحت آرٹیکل 270-AA کے ذریعے آئین کی معطلی کے دوران کئے گئے تمام اقدامات کو آئینی تحفظ حاصل ہو گا یعنی اس دوران ملک میں قومی انتخابات اور اس کے نتیجہ میں قائم کی گئی حکومتیں، وزیر اعظم اور صدر سے حلف لینے کے تمام اقدامات آئینی تصور کئے جائیں گے۔ گویا 31 مارچ 2008ء کو صدر پرویز مشرف نے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کا جو حلف لیا تھا وہ بھی آئینی تصور کیا جائے گا‘ اور نگران سیٹ اپ میں نگران وزیر اعظم محمد میاں سومرو کی سفارش پر آرمی چیف کا جو تقرر کیا گیا وہ بھی آئینی سمجھا جائے گا۔ 
یہ کہنے کا بھی جواز نہیں کہ جسٹس عبدالحمید ڈوگر قانونی طور پر چیف جسٹس نہیں تھے۔ انہیں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے 16مارچ 2009ء کے ججوں کی بحالی کے لانگ مارچ کے دوران اپنے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت برطرف نہیں کیا تھا بلکہ وہ 65 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد آئین کے تحت 22 مارچ کو ریٹائر ہوئے تھے۔ یہ فیصلہ کہ جسٹس عبدالحمید ڈوگر چیف جسٹس نہیں تھے‘ بادی النظر میں کئی سوالات کو جنم دیتا ہے کیونکہ جس بینچ نے یہ فیصلہ کیا تھا اس میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دوسرے جج صاحبان بھی شامل تھے۔ میری ناقص رائے میں جج ایسا فیصلہ عمومی طور پر نہیں کرتے جس کا فائدہ ان کو پہنچے۔ جن دانشوروں کا کہنا ہے کہ 3 نومبر 2007ء کو نافذ کی جانے والی ایمرجنسی کے فیصلے کی توثیق اُس وقت کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر والی سپریم کورٹ سے ضروری تھی‘ انہیں معلوم نہیں کہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلوں کی پارلیمنٹ سے توثیق کے بارے میں آئین میں کوئی آرٹیکل موجود نہیں ہے‘ نہ ہی اُس کے فیصلہ کو پارلیمنٹ منسوخ کر سکتی ہے کیونکہ یہ آئین کے تحت عدالتِ کے اختیارات میں مداخلت تصور کی جاتی ہے۔
16 مارچ 2009ء کو لانگ مارچ کے نتیجے میں‘ جس کی قیادت نواز شریف کر رہے تھے‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مداخلت سے ججوں کی بحالی بھی بادی النظر میں آئین کے مطابق نہیں ہوئی تھی۔ جج مقرر کرنے اور سپریم جوڈیشل کے ذریعہ ہٹانے کا طریقہ بھی آئین کے آرٹیکل 209 میں درج ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے ذریعے سبکدوشی کا طریقہ واضح طور پر آئین میں درج ہے لیکن ججوں کو بحال کرنے کا کوئی طریقہ نہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بحالی کے ایگزیکٹو آرڈر میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ اسے آئین کے کس آرٹیکل کے تحت جاری کیا گیا ہے۔ آئینی اور قانونی طریقہ یہ ہے کہ وزیراعظم‘ ہر ایگزیکٹو آرڈر کی ابتدا ہی میں واضح کرتا ہے کہ وہ یہ آرڈر آئین کے فلاں آرٹیکل کے تحت حاصل اختیار کے تحت جاری کر رہا ہے؛ چنانچہ جب صدر آصف علی زرداری نے مذکورہ ایگزیکٹو آرڈر منسوخ کرنے کی بات کی تو رات گئے اس امکان کے خلاف حکم دے دیا گیا۔ یہ معمولی سی بات بھی نظر انداز کر دی گئی کہ کوئی عدالت محض مفروضہ یا خدشہ کی بنا پر حکم جاری نہیں کر سکتی صرف حکومت کے کسی حکم کے جاری ہونے کے بعد ہی اس کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے‘ وہ بھی حکومت کا مؤقف سننے کے بعد۔ جب عدالت عظمیٰ نے ہنگامی حالات کی توثیق کر دی تھی تو اس کے تحت جاری کردہ حکومت کے احکامات کی بھی توثیق ہو گئی تھی۔ (ختم) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں