"KDC" (space) message & send to 7575

پاکستان کی معاشی مشکلات

پاکستان کی موجودہ ابتر معاشی اور مالیاتی صورتِ حال کی وجوہ بڑی واضح ہیں۔ اس میں ماضی کی غلط پالیسیوں، بدامنی، دہشت گردی، سرکاری مشینری اور اعلیٰ حکومتی سطح تک پھیلی ہوئی کرپشن، معیشت کی بحالی کے مؤثر اور سنجیدہ اقدامات کے فقدان اور چوبیس گھنٹے نوٹ چھاپ کر اور بڑے پیمانے پر قرض لے کر ملک چلانے کی ناعاقبت اندیشانہ حکمتِ عملی کا بڑا حصہ ہے۔تھائی لینڈ میں بھی اسی قسم کے حالات تھے‘ جب حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آنے پر مظاہرین نے احتجاج کو وسعت دیتے ہوئے وزارتِ دفاع، وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ سمیت کئی سرکاری محکموں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اِسی دوران اپوزیشن کارکن سرکاری نشریاتی اِدارے کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ حتیٰ کہ خاتون وزیراعظم ینگ لک کو نیشنل پولیس ہیڈ کوارٹر سے بھاگ کر جان بچانی پڑی۔ دراصل تھائی لینڈ میں حقیقی عوام دوست اپوزیشن جماعتیں ملک میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں جب کہ پاکستان میں نام نہاد میثاقِ جمہوریت کے نام پر فرینڈلی اپوزیشن کا کردار گزشتہ سات سال سے رائج ہے۔ وزیراعظم نے دو ہفتے پہلے تھائی لینڈ کا دورہ کرتے ہوئے خاتون وزیراعظم کی اقتصادی، اصلاحات کو پاکستان کے لئے بھی مثالی اور قابلِ تقلید قرار دیا تھا۔ ہماری اقتصادی پالیسی جس انداز میں آگے بڑھ رہی ہے، اندیشہ ہے کہ پاکستان کے عوام تھائی لینڈ کے عوام کی طرح نظامِ سیاست کو ہی نہ تلپٹ کر دیں۔
ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو کر تین ارب بیس کروڑ ڈالر کی خطرناک سطح تک پہنچ گئے ہیں۔ اگر یہ رقم بالکل ختم ہو گئی تو ہم مالی لین دین میں دنیا سے الگ تھلگ ہو جائیں گے۔ بیرونی تجارت رک جائے گی۔ دوسرے ملکوں کو سفر کی سہولتیں نایاب ہو جائیں گی۔ ہمارے ہوائی جہازوں کو ملک سے باہر تیل نہیں ملے گا۔ اس طرح ملک دیوالیہ ہو جانے کے قریب تر ہونے سے بہت سے نقصانات ہوں گے۔ قیمت فروخت، قیمت خرید سے جتنی زیادہ ہو گی اتنا ہی منافع زیادہ ہو گا۔ اسی طرح برآمدات ، درآمدات سے جتنی زیادہ ہوں گی اتنا ہی زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھیں گے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ برآمدات 15ارب ڈالر کی ہو رہی ہیں اور درآمدات 25ارب ڈالر کے کنارے پر پہنچی ہوئی ہیں۔ ہماری تاریخ میں برآمدات کبھی آٹھ ارب ڈالر سے زیادہ نہیں تھیں۔ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں زرمبادلہ کے ذخائر18ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے۔ 31مارچ2008ء میں زرداری حکومت کے آتے ہی ذخائر چھ ماہ میں ہی ایک تہائی سے بھی کم رہ گئے۔ اس طرح عالمی مالیاتی فنڈ کے سامنے دامن پھیلانے کا جواز پیدا کیا گیا ۔ اس وقت صدر پرویز مشرف برائے نام صدر تھے۔ تب انہوں نے وفاقی حکومت کو خبردار کرنا شروع کر دیا تھا۔ کراچی کے بزنس مینوں کا اجلاس طلب کر کے ملک کے ذخائر کی کمی کی گھنٹی بجائی تو آصف علی زرداری نے نوازشریف کی ججوں کی بحالی کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر پرویز مشرف کے خلاف مواخذہ کی تحریک شروع کرا دی۔ نوازشریف بھی پرویز مشرف کی دشمنی میں آصف علی زرداری کے ہم رکاب ہوگئے۔ برآمدات بڑھانے اور درآمدات کم کرنے پر نہ صدر زرداری کی حکومت نے توجہ دی اور نہ ہی موجودہ حکومت دے رہی ہے۔ دوسرے ذرائع ناکافی ہیں۔ بیرون ممالک کام کرنے والے‘ گھروں کو سالانہ 10ارب ڈالر بھیجتے ہیں۔ یہ رقم ہر ماہ آتی ہے یک مشت نہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری سے زرمبادلہ آتا ہے۔ لیکن اس کے لئے حالات سازگار نہیں بنائے جارہے۔ ایسے حالات میں مزید زرمبادلہ کیسے آئے گا۔ تین صورتیں ہیں جو حکومت کو بڑی آسان دکھائی دیں گی۔ اول‘ سٹیٹ بنک بازار سے ڈالر خرید ے، یہ تو اس وقت عام ہو رہا ہے۔ اس سے ایک تو ضرورت کے مطابق ڈالر نہیں مل رہے اور دوسرے ڈالر کی قیمت بڑھتی جارہی ہے۔ صرف ایک ارب ڈالر ملیں گے تو موجودہ شرح کے حساب سے 110ارب روپے دینے ہوں گے۔ دوئم ، بینکوں میں غیر ملکی کرنسی کھاتوں میں جمع رقوم جو پانچ ارب ڈالر کے قریب ہیں‘ 28مئی 1998ء کی طرز پر ضبط کر لی جائیں ۔ (ایٹمی دھماکہ کے وقت کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز کی پالیسی کے عین مطابق) اور کھاتہ داروں کو اس کے عوض میں 500ارب روپے سے زیادہ کے نوٹ چھاپ کر دے دئیے جائیں۔ یہ کام نوازشریف نے 28مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکہ کے ساتھ ہی کیا تھا۔ اس وقت ضرورت کم تھی اور رقوم بھی آج سے دگنی تھیں۔ لیکن اس کا نقصان آج بھی عوام کو یاد ہے۔ آج اگر کھاتہ داروں نے اس ڈر اور خوف سے اپنے اکائونٹس خالی کر دئیے تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ سوئم، بیرون ممالک پاکستانیوں سے اپیل کی جائے کہ اپنی رقوم فوراً ارسال کریں۔ لیکن اب بیرون ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کو اپنی حکومت پر ویسا اعتماد نہیں رہا۔ اب تارکین وطن پوچھیں گے کہ حکمران اپنے اربوں ڈالر کے باہر رکھے ذخائر کیوں ملک میں نہیں لاتے۔ ان حالات میں کیا ایٹمی طاقت سے لیس یہ ملک دیوالیہ ہونے کی طرف نہیں بڑھ رہا؟ 
سیاسی حکومتیں ہر اہم فیصلہ ملتوی کرتی رہتی ہیں لیکن اب زرمبادلہ کا بحران ٹالا نہیں جاسکتا۔ لہٰذا قوم کو اب خود ہی سوچنا ہو گا کہ نئے سال کے آغاز میں ملک کس حال میں ہو گا۔ ہمارے میڈیا کو عوام کو آگاہ کرنا چاہیے کہ ایشیاء میں دوسرے نمبر پر چاول کی منڈی کہلانے والے کندھ کوٹ پر کاروباری غلبہ ہندو بزنس مینوں کا تھا جو بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان سے تنگ آ کر اپنا سرمایہ فلپائن اور ملائشیا منتقل کر رہے ہیں۔کندھ کوٹ میں جنگجو گروپوں‘ قبائلی جنگوں اور جدید اسلحہ کی بھرمار ہے یہاں کے قبائلی جھگڑوں اور قتل و غارت سے شہر کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ کندھ کوٹ کے قریبی قصبہ تیغانی گائوں کو جدید اور مہلک اسلحہ کی فروخت کے حوالے سے باڑہ کہا جاتا ہے۔ جب کہ مبینہ طور پر ایک متحارب قبیلے کے گائوں میں کراچی سے مسروقہ کاریں پہنچا کر چھپائی جاتی ہیں۔ کندھ کوٹ میں ایک ہندو فیملی کی نوجوان طالبہ کو جو کراچی میں کسی کالج میں زیر تعلیم تھی‘ مردان کی ایک بااثر فیملی کے نوجوان بیوروکریٹ نے اغواء کر لیا۔ لڑکی کے والدین نے لڑکی کی واپسی کے لئے تحریک انصاف کے ذریعے عمران خان تک رسائی کی۔ لیکن اب ان کو بتایا جارہا ہے کہ لڑکی ان کو واپس نہیں مل سکتی کہ وہ مسلمان ہو گئی ہے۔ قتل ہونے والے ٹیلی ویژن کے کیمرہ مین منیر سانگی کے کیس میں انصاف نہ ملنے پر اُس کی بیوہ کراچی سپریم کورٹ رجسٹری کے مین گیٹ پر خودسوزی کے لیے پہنچ گئی تھی۔ ہمارے کسی سرکاری اور نجی ٹی وی چینل نے ادھر کا رخ نہیں کیا۔ وڈیروں، پیروں اور سرداروں کے کاری قرار دی جانے والی عورتوں کی قسمت اور نیلامی کے فیصلے کرنے کے لیے عدالتیں الگ ہیں۔ قبائلی خونی تنازعات ، کاروکاری، قتل اور پھر جرگے کندھ کوٹ کی سیاسی اقتصادیات یعنی پولیٹیکل اکانومی ہے۔ کراچی کی طرح کندھ کوٹ میں بھی تیسری لعنت بھتہ خوری ہے۔ جس کا سب سے آسان ٹارگٹ ہندو ہیں۔ کئی وڈیروں، سرداروں، جاگیرداروں اور کئی قوم پرستوں کا باورچی خانہ‘ اقلیتی لوگوں سے بھتہ کی وصولی پر چلتا ہے۔ ان مجرمانہ سرگرمیوں میں بڑی بڑی سیاسی شخصیتوں کے نام شامل ہیں۔ یہ بھتہ جزیہ کے نام پر لاکھوں اور کروڑوں میں وصول کیا جاتا ہے۔ حکومت ہوش کے ناخن لے۔ مسائل بہت گمبھیر ہو چکے ہیں اور وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں