"KDC" (space) message & send to 7575

272حلقوں کی جانچ پڑتال

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پارلیمانی لیڈروں کے نام خط میں پیش کش کی ہے کہ وہ انگوٹھا نشانات کی تصدیق اور چیئرمین نادرا طارق ملک کی برطرفی پر مشترکہ اجلاس بلانے کو تیار ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے انگوٹھوں کے نشانات پر مقناطیسی سیاہی سے ووٹوں کی تصدیق پر جاری بحث کو ختم کرنے اور مستقل حل ڈھونڈنے کے لئے پارلیمانی رہنمائوں کو مشترکہ اجلاس بلانے کی پیش کش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی اِدارے سے انگوٹھوں کی تصدیق کے لئے تیار ہیں۔ موجودہ حکومت مقناطیسی روشنائی مہیا کرنے کی ذمہ دار نہیں ہے۔ چوہدری نثار علی خان کا موقف اصولی طور پر کسی حد تک درست ہے۔ حیرانی اس امر کی ہے کہ طارق ملک کی برطرفی پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز دی جارہی ہے۔ طارق ملک کو قواعد و ضوابط کے برخلاف ان کے عہدے سے سبکدوش کیا گیا ہے‘ لیکن یہ قومی اہمیت کا مسئلہ نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے۔ 
دراصل نادرا اپنی بین الاقوامی ٹیکنالوجی سے لیس قوم کے اعتماد پر پورا اترتا ہوا نظر آیا۔ نادرا نے الیکشن سے پیشتر ہی خبردار کر دیا تھا کہ وہ اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر ملک میں عام انتخابات کے موقع پر انگوٹھوں کی جانچ پڑتال کے ذریعے بے ضابطگیوں اور جعل سازی کو بے نقاب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 
وزیرداخلہ کا متعدد فورمز پر حکومت کی جانب سے صفائی دینے اور پارلیمانی رہنمائوں کو خط لکھنے سے لگتا ہے کہ حکومت پسپائی اختیار کر رہی ہے۔ 272حلقوں کے انگوٹھے چیک کرنا قوم سے مذاق کے مترادف ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 225کے تحت الیکشن نتائج کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا‘ ماسوائے ان کے جن کے کیسز، الیکشن ٹربیونلز میں زیرِ سماعت ہیں۔ 
11مئی 2013ء کے انتخابات میں ریٹرننگ افسران نے آرٹیکل 62اور 63کی تضحیک کی۔ صادق اور امین کی شرط کا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مذاق اڑایا گیا اور الیکشن کے دوران بعض ریٹرننگ افسران نے پورے الیکشن کو مشکوک بنا دیا۔ الیکشن ٹربیونلز کی ہدایت پر چند قومی و صوبائی حلقوں کے انگوٹھوں کی جانچ پڑتال کے دوران انکشاف ہوا کہ انتخابات میں ہیرا پھیری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ نادرا کے چیئرمین طارق ملک نے اپنی مہارت سے جب اس حیران کن بدانتظامی پر ہاتھ ڈالا تو حکومتی ایوان لرز گئے اور یہ بھی انکشاف ہوا کہ ایک ہی انگوٹھے کے نشانات درجنوں بیلٹ پیپرز پر ثبت کیے گئے تو حکومتی حلقوں کا خوف بڑھتا چلا گیا۔ اسی لئے نادرا کے چیئرمین سے جان چھڑانے اور ان سے استعفیٰ لینے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بادی النظر میں بد نیتی پر مبنی ہے۔
الیکشن ٹربیونلز کے ہاں400کے لگ بھگ انتخابی عذرداریاں زیر سماعت ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق 110کے لگ بھگ قومی اسمبلی کے ارکان کے بارے میں جعل سازیوں کے کیسز ہیں۔ ان حلقوں کے بارے نادرا نے غیر جانبداری سے فیصلہ کر دیا تو پاکستان کا موجودہ پارلیمانی نظام بحران میں مبتلا ہو جائے گا۔
7مارچ 1977ء کے انتخابات کو اس وقت کی متحدہ اپوزیشن نے مسترد کر دیا تو وزیراعظم بھٹو نے ملک گیر ہڑتال کے اثر کو ختم کرنے کے لئے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سجاد احمد جان کو عوامی نمائندگی ایکٹ76کی دفعہ 103-Aکے تحت خصوصی اختیارات تفویض کر دئیے کہ الیکشن کمیشن ان حلقوں کی جعل سازی کا جائزہ لینے کے لئے فنگرپرنٹس کے ماہرین کی خدمات حاصل کرے۔ لہٰذا فنگر پرنٹس کے ماہرین سے 15 حلقوں کے انگوٹھوں کی جانچ کروائی گئی۔ ماہرین نے ان حلقوں میں ہزاروں کی تعداد میں جعلی انگوٹھوں کی نشاندہی کی اور اِسی بنا پر الیکشن کمیشن نے ان حلقوں کے نتائج کالعدم قرار دے دئیے۔ اِسی بنا پر جب الیکشن کمیشن نے کوئٹہ ، پشین سے منتخب ہونے والے یحییٰ بختیار‘ جو حکومت کے اٹارنی جنرل تھے‘ کو نااہل قرار دیا تو مسٹر بھٹو نے اپنے نادان دوست کو محفوظ راستہ دینے کے لئے الیکشن کمیشن کے اختیارات واپس لے لیے۔ اسی فیصلہ پر ملک بھر میں جلائو گھیرائو شروع ہو گیا اور ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا‘ حتیٰ کہ 5جولائی 1974ء کی گھڑی آن پہنچی اور مسٹر بھٹو کو آگ اور خون کے دریا سے گزرنا پڑا۔ 
وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ چار حلقوں کی بجائے 272حلقوں کی میں انگوٹھوں کے نشان کی جانچ پڑتال کرائی جائے تو 70فیصد ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکے گی‘ کیونکہ انتخابات میں مقناطیسی سیاہی استعمال ہی نہیں کی گئی جس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن اور نگران حکومت پر تھی۔ چوہدری صاحب کا مؤقف درست ہے ۔ لہٰذا سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) فخرالدین جی ابراہیم اور ان کی ٹیم ہی اس پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتی ہے۔ 
چیئرمین نادرا کی بے جواز برطرفی سے ملکی معاملات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ الیکشن ٹربیونل نے لاہور کے حلقہ 118کے بارے میں حکم نامہ جاری کیا تھا جہاں سے پاکستا ن مسلم لیگ (ن) کے ملک ریاض کامیاب ہوئے تھے۔ اس حلقے میں الیکشن عذرداری کے سائل کی جانب سے انگوٹھوں کی چھان بین کے لئے قواعد و ضوابط کے مطابق فیس بھی وصول ہو گئی تھی۔ الیکشن ٹربیونل نے تحقیقات نادرا کے ذمے لگا دی تھی اور یہ بھی منظر دیکھنے میں آیا کہ ملک ریاض فلمی سٹائل میں سلطان راہی کا روپ دھار کر نادرا کے دفتر گئے اور انہوں نے خود نادرا کے چیئرمین طارق ملک سے کہا کہ اگر انہیں دو لاکھ غلط ووٹ حاصل ہو گئے ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور ہے۔ چیئرمین نادرا نے دو ٹوک 
الفاظ میں ملک ریاض کو نادرا کے دفتر سے نکال دیا۔ جس کے بعد پلان بنایا گیا کہ پہلے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے آڈٹ کرایا جائے، اوراس کی روشنی میں اگر نادرا کے چیئرمین نے حکومت کی مرضی سے انتخابی نتائج نہ دئیے تو انہیں برطرف کر دیا جائے۔ یہ بھی خبر ہے کہ پنجاب کے ایک وزیر نے چیئرمین نادرا کو فون کیا اور دھمکی آمیز لہجے میں فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق کرنے کو کہا‘ جس پر چیئرمین نادرا نے جواب دیا کہ وہ ان معاملات میں کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں الیکشن ٹربیونل کی طرف سے جو حکم ملتا ہے وہ اس پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔ 
چیئرمین طارق ملک کو اسی انداز میں ان کے عہدے سے سبکدوش کیا گیا جس طرح 12اکتوبر1999ء کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو سری لنکا سے کراچی آتے ہوئے‘ جب وہ ہوائی جہاز میں تھے‘ ریٹائر کیا گیا اور لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کو جن کا تعلق لاہور سے تھا اور میاں فیملی سے تعلق داری بھی تھی آرمی چیف مقرر کر دیا گیا‘ جس پر کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد کو پیش قدمی کرنا پڑی۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کے دونوں نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے طارق ملک کے مؤقف کو وقتی طور پر تسلیم کر لیا اور فریقین کونوٹس جاری کر دئیے۔ دراصل الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کی روشنی میں اگر سردار ایاز صادق کو اپنی نشست سے محروم ہونا پڑتا ہے تو قومی اسمبلی کی ساکھ مجروح ہو جانے کا خدشہ ہوگا اور اس سے نوازشریف کی حکومت کو بہت بڑا نقصان پہنچنے کا احتمال ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں