"KDC" (space) message & send to 7575

افتخار محمد چودھری کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا جائے!

چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری کا کردار بدلنے والا ہے۔ وہ پھر عوامی اہمیت اختیار کرنے والے ہیں۔ ملک صدارتی نظامِ حکومت کی طرف رواں دواں ہے۔ کسی وقت بھی اس کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا ایک انتہائی سنجیدہ دانشور گروپ ملک میں صدارتی نظامِ حکومت کے بارے میں گہری سوچ بچار کر رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا ایک غیرمطبوعہ نوٹ بھی ان حلقوں میں زیر بحث ہے۔ پاکستان کا ایک بااثر حلقہ بھی سوچ رہا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔ یہ فریقین کے لیے فراموش کر دینے والا واقعہ نہیں ہے۔ اب چونکہ فیصلہ کرنے والی شخصیت منظر سے غائب ہو گئی ہے، لہٰذا نئے عزم اور نئے دلائل کے ساتھ سپریم کورٹ میں اس طرز کی آئینی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ چودھری اعتزاز احسن بھی صدارتی انتخابات کو چیلنج کرنے کا اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہیں، غالباً وہ آصف علی زرداری کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان نے اپنی غلطی تسلیم کر لی تھی اور کشادہ ظرفی سے کہہ دیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے۔ بظاہر 2014ء ڈاکٹر طاہرالقادری کا سال ہے اور غالب امکان ہے کہ آئندہ انتخاب صدارتی ہو گا۔ ایک نئی پارٹی وجود میں آنے والی ہے۔ نئے اتحاد بھی وجود میں آئیں گے۔ مہنگائی کا عفریت ڈاکٹر طاہرالقادری کی طاقت بن جائے گا۔ اندرونی حلقوں میں سرگوشیاں ہو رہی ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک بنے گا جو اپوزیشن کا ساتھ دے گا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کا بھی اہم سیاسی کردار نظر آرہا ہے۔ ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے حوالے سے جو مقدمات سامنے آ رہے ہیں ان میں وہ اسی طرح کامیابی حاصل کر سکتے ہیں جس طرح بنگلہ دیش کے سابق حکمران جنرل (ر) ارشاد محمد حسین نے ایام اسیری میں بنگلہ دیش کی 300 نشستوں والی پارلیمنٹ میں 100 سے زیادہ نشستیں حاصل کر کے بین الاقوامی رائے عامہ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔
جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری اپنے 23 سالہ عدالتی کیریئر کو احساس طمانیت کے ساتھ خیرباد کہہ گئے۔ بطور چیف جسٹس انہوں نے ایسے بے شمار مخالفین پیدا کئے جو اقتدار کی مسند پر فائز تھے۔ چیف جسٹس کے ناقدین کم ہیں‘ نہ ان کے پاس کردار کشی کرنے کے لیے دلائل کی کمی ہے۔ ایک ایسے ملک میں‘ جہاں حکومتیں براہِ راست یا بالواسطہ کرپشن، لاقانونیت اور خراب حکمرانی میں ملوث ہوں یا ان خرابیوں پر قابو پانے میں ناکام رہیں تو وہاں عدالتی فعالیت اور ازخود نوٹس لینا ملک اور عوام کے لیے انتہائی مناسب بلکہ ضروری ہو جاتا ہے۔ جہاں عام آدمی طاقتور مافیا گروپ کے خلاف شکایت نہ کر سکتا ہو‘ وہاں عدالت کا سووموٹو اس کے لیے نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ پاکستان میں یہی صورتحال ہے۔ سابق حکومت میں جب بھی ازخود نوٹس لیا گیا، اس کے حکومتی اہلکاروں نے تضحیک آمیز طریقے سے اس پر تنقید کی جس کی وجہ سے چیف جسٹس اور دوسرے ججوں کی حوصلہ شکنی ہوئی مگر وہ اپنے عدالتی موقف پر ڈٹے رہے۔ تنقید کرنے والے گروپ خصوصاً حکومتی اہلکار اور چند بیوروکریٹ دراصل خاص نظریات اور ذہن کی نمائندگی کرتے ہیں اور ایسے سیاستدانوں کی ترجمانی کرتے ہیں جن کی خواہش ہے کہ اختیارات و معاملات حکومتی کنٹرول میں رہیں، وہ کسی کو جواب دہ نہ ہوں اور من مانی کرتے رہیں۔ چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری ایک عام چیف جسٹس نہ تھے، انہوں نے عوامی تحریک کے نتیجے میں بحالی کے بعد ایک منتخب جج کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے بلاخوف و خطر فیصلے دے کر عوامی توقعات پوری کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
کسی بھی شخص کی کارکردگی اس کی بیلنس شیٹ کے بغیر نامکمل ہو گی۔ چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری کو اپنی کچھ توانائی ماتحت عدالتوں کی اصلاح پر خرچ کرنی چاہیے تھی۔ 25 مارچ 2009ء کو اپنے عہدے پر بحال ہونے کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں زیادہ وقت دینا شروع کر دیا تھا اور ان لاکھوں افراد کی توقعات پر پورا اترنے کی مثال قائم کی جنہوں نے ان کی بحالی کے لیے جدوجہد کی تھی۔ انہوں نے کراچی اور کوئٹہ جیسے حساس علاقوں میں، جہاں امن و امان کی صورتحال نازک تھی، انتہائی اہم مقدمات میں طویل دورانیے کی سماعتیں کیں۔ 
افتخار محمد چودھری کا شمار ان چیف جسٹس صاحبان میں ہوتا ہے جنہیں اپنے عہدے پر کام کرنے کے لیے قدرے زیادہ وقت ملا۔ سابق چیف جسٹس عبدالحلیم صدیقی، جسٹس اے آر کارنیلیس، جسٹس حمودالرحمٰن، جسٹس محمد منیر، جسٹس سر عبدالرشید اور جسٹس ارشاد حسن خان نے اس عہدے پر پانچ سے آٹھ سال تک کام کیا‘ لیکن اتنی بڑی تعداد میں انتہائی اہم مقدمات کا فیصلہ دینے کے حوالے سے کوئی چیف جسٹس ان کا ہم پلہ نہ تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ایسے مقدمات کے بھی فیصلے دیے جن میں پاکستان کے وزیر اعظم، چیئرمین نیب اور دوسرے اہم افراد شامل تھے۔
افتخار محمد چودھری پاکستان کے طویل ترین مدت تک رہنے والے چیف جسٹس بن جاتے اگر سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے غلط فہمی اور نادیدہ خفیہ ہاتھوں کی سازش کے نتیجے میں انہیں غیرفعال نہ کیا جاتا۔ انہوں نے یہ عہدہ 30جون 2005ء کو سنبھالا تھا، غیرفعال ہونے کے باعث ان کی مدتِ ملازمت میں تعطل پیدا ہوا۔ انہیں 9مارچ 2007ء کو غیرفعال کیا گیا مگر 20جولائی 2007ء کو سپریم جوڈیشیل کمیشن کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے نے انہیں بحال کر دیا۔ 3نومبر 2007ء کو ملک بھر میں ایمرجنسی پلس کے نفاذ کے بعد انہیں دوبارہ معطل کر دیا گیا اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھا لیا؛ تاہم لانگ مارچ کے نتیجے میں 2009ء میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مداخلت پر انہیں دوبارہ بحال کر دیا گیا۔ انہوں نے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرمنٹ کے بعد 25مارچ 2009ء کو اپنا عہدہ پھر سنبھال لیا۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو کچھ اہم فیصلے کرنے ہوں گے، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کئی اہم قومی مقدمات اور محفوظ فیصلے اپنے جانشین کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ ان میں اہم فیصلہ خواتین کی مخصوص نشستوں کا بھی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے انٹرا پارٹی الیکشن اور آرٹیکل (1)63 کے تحت پارلیمانی پارٹیوں کے رہنمائوں کو اپنے ارکان پارلیمنٹ کے خلاف نااہل قرار دینے کے آمرانہ اختیارات، میمو گیٹ کیس‘ جس میں موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ مدعی تھے، ریکوڈک کیس جس سے حکومت پاکستان اور بلوچستان کے اربوں ڈالر وابستہ ہیں، اوگرا کیس، غیرقانونی اور سیاسی تقرریوں کے کیس شامل ہیں۔
میری تجویز یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ان کی قومی خدمات اور ان پر کروڑوں عوام کے اعتماد کے پیشِ نظر چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا جائے۔ ان کی موجودگی میں بلدیاتی انتخابات، مردم شماری اور آئندہ قومی انتخابات اس طرح صاف و شفاف اور منصفانہ کرائے جا سکیں گے جو قوم کی آرزو ہے۔ پاکستا ن میں عوام کے ووٹوں سے حقیقی قیادت سامنے آجائے گی۔ سپریم کورٹ کی جوڈیشیل پالیسی کے تحت یہ پابندی کہ وہ دو سال تک کسی بھی عہدے کے حصول کی کوشش نہ کریں، اس پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس (ر) ارشاد حسن خان کو بھی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا، اس روایت کو زندہ کیا جا سکتا ہے۔ 
(ادارے کا زیرِ نظر تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں