"KDC" (space) message & send to 7575

مشکلات کاامکان

سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کے پورے دور میں ان کے حوالے سے یہ تاثر پیدا اور مستحکم ہوتا رہاکہ وہ اپنی ذات کی تشہیر کے لیے میڈیا میں اِن رہنے کا فن جانتے ہیںاوران کی جانب سے حکومت اورریاستی اداروں کے معاملات پرازخود نوٹس لینے کا مقصد اپنی ذات کواُجاگرکرنا ہوتا تھا۔اگرچہ جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری نے کرپشن اورحکومتی اداروں میں متعدد بے ضابطگیوں کا بجا طور پر نوٹس لے کرانہیںدور کرنے کی بھی کوشش کی جس سے آئندہ ایوانِ اقتدار میں موجود خرابیوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی اوروہ عدالتی تاریخ میںجوڈیشل ایکٹوازم کے قائدکے طور پریادرکھے جائیں گے؛البتہ مقدمات کی سماعت کے دوران عدالتی کارروائی کی میڈیا پرجس اندازسے تشہیر ہوتی رہی اس سے نظام عدل کایہ تشخص ضرور متاثر ہوا کہ'جج نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں‘۔جسٹس(ر) افتخارمحمد چودھری کے دور میں ازخود نوٹس کے حوالے سے جو تاثر قائم ہوا، وہ اب چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے لیے بڑاچیلنج ہوگااوریقیناًانہوں نے اسی چیزکے پیش نظر فل کورٹ ریفرنس میں باورکرایا تھا کہ غیر اہم معاملات پردائرکی جانے والی درخواستوںاورازخودنوٹس لینے کے عدالتی اختیارات کوذاتی مفاد میں استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔انہوں نے یہ بھی واضح پیغام دیا کہ تمام ریاستی ادارے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کرکام کریں۔اس تناظرمیںانہیں ایک ٹیلی ویژن چینل کی جانب سے فل کورٹ ریفرنس کی لائیو کوریج کے معاملے میںازخودنوٹس لینے کے اختیارات کے تحت شروع کی گئی کارروائی کوبہرصورت منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا تاکہ عدلیہ کی غیر جانبداری پرکسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔
یہ صورتحال لمحۂ فکریہ اورکوئی ٹھوس اورقابل عمل ضابطۂ اخلاق وضع کرنے کی متقاضی ہے۔اس ضمن میں یہ امرقابل توجہ ہے کہ جب کسی دوسرے سرکاری ادارے کی بڑی شخصیت کے ریٹائر ہونے پراس کی کامرانیوںکے ڈنکے نہیں بجائے جاتے توچیف جسٹس آف پاکستان کی آئینی مدت پوری ہونے پران کی ریٹائرمنٹ کا زورشورسے پروگرام کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ بلا شبہ عدلیہ بحالی تحریک میں پورے میڈیا نے سول سوسائٹی کے اہم کردارکو اجاگرکرکے سابق چیف جسٹس کاساتھ دیا اوران کے جلوسوں کوبلا امتیاز کوریج دی۔ لیکن ان کی اپنے منصب پربحالی کے بعد سپریم کورٹ کے رولزاورصحافتی اقدارواخلاقیات کاتقاضایہ تھا کہ ان کی ذات کوعدل کے معاملات سے خلط ملط نہ ہونے دیا جاتا۔ بدقسمتی سے ایسا ہوا، اس لیے اب عدلیہ اور میڈیا دونوںکواپنی غلطیوں سے رجوع کرنا چاہیے جو اپنے اپنے رولزاورکوڈ آف کنڈکٹ پر سختی سے عمل درآمد سے ہی ممکن ہے۔
فل کورٹ ریفرنس کی لائیو کوریج کی انکوائری ایڈیشنل رجسٹرار محمد علی کر رہے ہیں۔وہ انتہائی ذہین، محنتی،دیانتداراور سپریم کورٹ آف پاکستان کااثاثہ ہیں۔ان کی تربیت مرحوم جسٹس نعیم الدین احمد نے کی تھی جوتقریباً ساڑھے پانچ سال چیف الیکشن کمشنر بھی رہے۔جناب محمد علی کی غیرجانبداررپورٹ سامنے آنے پرسابق چیف جسٹس کی شخصیت کے بارے میں سوالات پیدا ہونے کوخارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
30جون 2005ء کو جسٹس افتخار محمد چوہدری نے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھایا توانہوں نے حلف کی تقریبات سے فارغ ہوتے ہی محمد علی سمیت درجنوںافسروں کو گھربھیج دیااور وہ کئی مہینے گھربیٹھے تنخواہ وصول کرتے رہے،اس عرصے کے دوران انہیں سپریم کورٹ میں آنے کی بھی اجازت 
نہ دی گئی اورعدالت عظمیٰ کے درجنوں افسروںکی Integerity پر شکوک و شبہات کے بادل چھائے رہے۔اب جناب محمد علی کی نگرانی میں جو تحقیقاتی کمیشن بناہے،اس کی طرف سے غیرجانبدارانہ رپورٹ آنے کا امکان ہے۔اگرچہ فل کورٹ ریفرنس کی لائیو کوریج کرنے والے گروپ کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اسے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اعزاز میں منعقدہونے والے فل کورٹ ریفرنس کی لائیو کوریج کی اجازت نہیںملی تھی بلکہ یہ ان کے نمائندے کی ذاتی کاوش تھی؛ تاہم یہ لائیوکوریج بذات خود اس کے دعوے کی نفی کر رہی تھی کیونکہ سپریم کورٹ کی بلڈنگ میں کسی بھی عدالتی کارروائی بشمول فل کورٹ ریفرنس کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاکی جانب سے براہ راست کوریج سپریم کورٹ کے رول 125کے تحت عائدکی گئی پابندی کے باعث ممنوع ہے، لہٰذاکسی ایک ٹیلی ویژن چینل کے خصوصی نمائندے کا کیمرے اوراس کے سٹاف سمیت چیف جسٹس کے کمرہ عدالت میں پہنچنا اورعدالتِ عظمیٰ کے تمام فاضل ججوں کی موجودگی میں ریفرنس کی کارروائی کی کوریج کرنا سپریم کورٹ کی انتظامیہ سے پیشگی اجازت اور خصوصی انتظام کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی ۔واضح رہے کہ ریفرنس 
کی کارروائی کے دوران دوسرے تمام ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات کے نمائندے سپریم کورٹ کی بلڈنگ کے باہر موجود تھے اورریفرنس کی لائیو کوریج کے لیے تمام ٹیلی ویژن چینلزکی گاڑیاں عدالت عظمیٰ کے احاطے کے باہراجازت ملنے کی منتظر تھیں،مگرصرف ایک نمائندے کو سپریم کورٹ کے اندر جانے کی اجازت ملی۔ یہ اجازت اطلاعات تک رسائی کے قانونی حق کے منافی، آزادی صحافت پر قدغن لگانے کے مترادف اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔ 
جب بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کی متفقہ سفارشات کی روشنی میں اکرم شیخ ایڈووکیٹ الیکشن شیڈول میں تبدیلی کے لیے الیکشن کمیشن کی مجبوریاںسپریم کورٹ میں بڑے مضبوط دلائل کے ساتھ اپناموقف میں بیان کر رہے تھے،تب جسٹس افتخارمحمدچودھری نے الیکشن کمیشن کے موقف کو مسترد کر دیا تھا؛حالانکہ اس وقت قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی ہی تھے۔ اِسی طرح صدارتی الیکشن کے شیڈول میں تبدیلی کر کے بھی بادی النظر میں آئین کے آرٹیکل 48,42,41کو مدِ نظر نہیں رکھا گیا اورچیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کو مستعفی ہونا پڑا۔ 
ملک اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ تمام قومی اداروں کو ہر قدم احتیاط سے اٹھانا ہوگا۔ ماضی میں جو ہو گیا سو ہو گیا‘ مستقبل کو ماضی کی غلطیوں سے پاک رکھنے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں