"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات اور قوم کا مستقبل

پاکستان میں جمہوریت کا سفر کبھی بھی ہموار نہیں رہا۔ جمہوری عمل اور شہری آزادیوں کی جدوجہد خاصی کٹھن اور مشکل رہی ہے۔ اس عمل کے لئے سیاسی کارکنوں، صحافیوں، دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے تکالیف اور مصائب برداشت کئے لیکن کسی نے غیر جانبداری کے ساتھ یہ جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی کہ پاکستان میں جمہوریت کے ثمرات اس ملک کے کمزور طبقات تک کیوں نہ پہنچ سکے؟پاکستان کی بقاء جمہوریت میں مضمر ہے۔ 65سالہ تاریخ میں جمہوریت کو کئی بار پٹڑی سے اُتارا جا چکا ہے۔ 
قیامِ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں سازشوں کے باعث جمہوری حکومتیں زوال پذیر ہوتی رہیں۔ اس میں پنجاب کے طاقتور نواب مشتاق گورمانی مرحوم، کھوسے، قریشی، گدی نشین اور سندھ میں کھوڑوشامل ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائدِ ملت لیاقت علی خان بھی ایسی ہی سازشوں کی لپیٹ میں آ کر شہید ہوئے۔ جمہوریت کا راستہ ہمیشہ مشکل راستہ ہوتا ہے۔ جمہوری اِدارے استوار کرنے کے لئے قوم نے گراں قدر قیمت ادا کی اور صبروتحمل سے کام لیتی رہی۔ انصاف اور مساوات کسی بھی جمہوری نظام کی بنیادیں ہوتی ہیں۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم 1956ء سے پاکستان میں نافذ کیا گیا لیکن بااثر حکمرانوں نے عوام کی سطح پر اختیارات تقسیم کرنے کی ہر حکمت عملی ناکام بنا دی۔ بنیادی جمہوریتوں کے نظام کی بدولت دیہات میں خصوصی طور پر ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا۔ دیہی اور شہری آبادی میں یکساں سہولتیں فراہم ہو رہی تھیں کہ بھٹو نے اس سارے نظام کو لپیٹ دیا۔ 1979ء کے بعد یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تو نام نہاد جمہوری رہنمائوں نے 1988ء سے 2000ء تک اِس سسٹم کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔ 2001ء اور 2005ء میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کامیابی سے چلا‘ جسے بین الاقوامی سطح پر بھی سراہاگیا لیکن 18فروری 2008ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد‘ آنے والے حکمرانوں نے اسے لپیٹ دیا۔ اگست 2009ء میں بلدیات کے انتخابات کرانا آئینی ذمہ داری تھی۔ دانیال عزیز نے لوکل گورنمنٹ کے نظام کی بحالی کے لئے پانچ سال تک جدوجہد کی لیکن ان کے نیک ارادوں کو زرداری ، شریف برادران، الطاف حسین ، ولی خان خاندان، اور بلوچستان کے سرداروں نے ناکام بنا دیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کوششوں اور جرأت مندانہ فیصلوں نے ایک دفعہ پھر لوکل گورنمنٹ سسٹم کے احیا کی امید پیدا کردی ہے۔ پوری قوم بلدیاتی الیکشن چاہتی ہے تاکہ روز مرہ زندگی کے معاملات عوام کے ہاتھوں میں آ جائیں۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے صوبائی حکمران ،نالیوں، گندے نالوں کی تعمیر ، مرمت اور صفائی تک کا اختیار اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ اس سوچ کے ہوتے ملک کی تقدیر بدلنے کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے؟ بلدیاتی الیکشن ہونے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ انتخابی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں‘ مگر سیاستدان الیکشن رکوانے یا مؤخر کرانے کے لئے طرح طرح کی چالیں چل رہے ہیں۔ بیانات میں منافقت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ اگر بلدیاتی انتخابات رک گئے تو ملک میں قانونی اور آئینی بحران آجائے گا۔ سیاسی اجارہ داروں کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ اگر بلدیاتی انتخابات نہ ہوئے تو یہ قوم سے دھوکا ہو گا۔بلدیاتی نظام بالواسطہ اور بلاواسطہ ملک و قوم کے مستقبل سے تعلق رکھتا ہے؛ چنانچہ پاکستان کی پارلیمانی جماعتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے طرز عمل کا مظاہرہ نہ کریں جس کے عوام کے مفاد پر منفی اثرات نہ پڑیں۔ بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ پر واضح کر دیا ہے کہ سوائے بلوچستان کے‘ دیگر تین صوبوں میں سپریم کورٹ کی مقرر کردہ تاریخ میں انتخابات کرانا ان کے لئے ممکن نہیں ہے۔ جب کہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں حلقہ بندیوں کے حوالہ سے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو شدید تحفظات ہیں۔ پنجاب کے تمام اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے حوالہ سے ہونے والی نئی حلقہ بندیاں تشکیل پا گئی ہیں ۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن، میونسپل کارپوریشن، ضلع کونسلوں اور میونسپل کمیٹیوں کی نشستوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے وزراء ، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور بااثر سیاسی گھرانوں 
کے افراد نے بلدیاتی سیاست پر بالادستی حاصل کرنے کے لئے اپنی مرضی کے مطابق حلقہ بندیاں کروائیں، جبکہ پنجاب کی حلقہ بندیاں‘ برادری ازم کے فارمولے کے تحت کرائی گئیں اور اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لئے یونین کونسل کے بنیادی ڈھانچہ کو ہی تبدیل کر دیا گیا۔ مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے بعض یونین کونسلیں 22ہزار تک کی آبادی پر بنائی جارہی ہیں اور کسی جگہ اپنے حامیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے 14ہزار کی آبادی پر بھی حلقے بنائے گئے۔ جیسا کہ توقع تھی تحریک انصاف، جماعتِ اسلامی، مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی نے من مانی حلقہ بندیوں کو انتخاب سے پہلے دھاندلی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ اُن کا اعتراض یہ ہے کہ حلقہ بندیوں کی تشکیل کرتے وقت قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ ضلعی انتظامیہ نے مسلم لیگ (ن) کے اراکین کے گھروں میں بیٹھ کر حلقہ بندیاں فائنل کیں اور مخالفین کو حلقہ بندیوں پر اعتراضات داخل کرانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ عید الاضحی کی تعطیلات کے باعث اپوزیشن جماعتیں حلقہ بندیوں پر اعتراضات داخل نہ کرا سکیں۔ آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق پنجاب لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2013ء آئین سے متصادم ہے۔ اس قانون کے تحت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد غیر آئینی ہوگا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کو حکومت کو کسی صورت میں بلدیاتی انتخابات میں فری ہینڈ نہیں دینا چاہیے اور حلقہ 
بندیوں کے نوٹی فیکیشن کو کالعدم قرار دینے کے لئے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنا چاہیے۔ آئین کے آرٹیکل 140-A میں بلدیاتی اداروں کو سیاسی و مالی اور انتظامی خود مختاری دی گئی ہے۔ مگر حکومت نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات سلب کر کے وزیراعلیٰ کو اختیارات سپرد کر دئیے ہیں جو آئین سے انحراف ہے۔ بلدیہ عظمیٰ لاہور میں یونین کونسلوں کی تعداد 150سے بڑھا کر 263کر دی گئی ہے۔ اس طرح لاہور ملک کی سب سے بڑی میٹرو پولیٹن کارپوریشن بن گئی ہے۔ مگر لاہور میں ایل ڈی اے‘ واسا، ٹیپا، پی ایچ اے، فوڈ، ٹرانسپورٹ، پارکنگ، ایس ڈبلیو ایم، رنگ روڈ، ایجوکیشن اور ہیلتھ، سٹڈیز اتھارٹیاں بنا دی گئی ہیں۔ ان اتھارٹیوں کے وجود کے باعث منتخب بلدیاتی اداروں کے اختیارات اعلیٰ آفیسروں کو منتقل ہوگئے ہیں۔ اس طرح لاہور شہر کا لارڈ میئرکا عہدہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے عہد میں لاہور کارپوریشن کے چیئرمین چوہدری محمد حسین کی مانند نمائشی عہدہ رہ گیا ہے؛ یوں بلدیاتی اداروں کی خود مختاری ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ مذکورہ ترمیمی بل کے تحت تشکیل پانے والے بلدیاتی ادارے بیوروکریسی اور صوبائی حکومت کے تابع کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔ جو بلدیاتی نظام کی روح کے منافی ہوگا۔ بلدیاتی انتخابات کی نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ، بورے والا، وہاڑی، بہاولنگر اور رحیم یار خان میں مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے حلقہ بندیوں پر پیدا ہونے والے کارکنوں کے اختلافات کو دور کرنے کے لئے حمزہ شہباز کو ٹاسک دے دیا ہے‘ جن کی سفارشات کی روشنی میں پارٹی قیادت‘ امیدواروں کی نامزدگیوں کا فیصلہ کرے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں