"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی انگوٹھوں کی تصدیق

11مئی 2013ء کے انتخابات کو بے قاعدگیوں سے بچانے کے لیے عملی اقدامات بظاہر نیک نیتی سے نہیں کیے گئے۔ جوڈیشل افسروںکا تقرر تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے کیا گیا،لیکن الیکشن کے بعد بیشترسیاسی جماعتوں نے شکوہ کیا کہ ان افسروں نے آئین و قانون کے مطابق کام نہیں کیا۔چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب بھی حکومت اور اپوزیشن کی اتفاقِ رائے سے ہوا، لیکن وہ بھی قوم کے اعتماد پر پورے نہیں اترے۔ الیکشن کمیشن اورنادرا کی باہمی مشاورت سے پہلی بار مقناطیسی سیاہی استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا تاکہ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق آسان بنا کرجعلی ووٹوں کا کھوج لگایاجا سکے۔ان انتظامات کے باوجود مختلف حلقوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر انتخابی دھاندلیوں کی شکایات منظرعام پرآئیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ٹیسٹ کیس کے طور پرقومی اسمبلی کے چارحلقوں کے ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی جانچ پڑتال کا مطالبہ کیا تاکہ حقائق سامنے آجائیں، لیکن وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان فرماتے ہیں کہ انتخابات میں مقناطیسی سیاہی تواستعمال ہی نہیں ہوئی،اس لیے انگوٹھوں کے نشانات سے یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر تحقیقات کرانی ہے تو تمام 272 حلقوں کے نتائج کا تجزیہ کرایا جائے۔بادی النظر میں ان کا موقف آئین اورقانون کے منافی ہے۔الیکشن ٹربیونلز کے پاس 396انتخابی عذرداریاں زیر سماعت ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق الیکشن ٹربیونلزنے قومی اسمبلی کے لگ بھگ 110 ارکان کے بارے میں جعل سازیوں کے کیسزکے فیصلے کرنے ہیں۔اگر ان حلقوں کے ریکارڈکے بارے میں نادرا نے غیر جانبدارانہ فیصلہ کر دیا تو پاکستان کا موجودہ پارلیمانی نظام انتخابی بحران کی لپیٹ میں آجائے گا۔
7مارچ 1977ء کے انتخابات کو اس وقت کی متحدہ اپوزیشن نے مسترد کر دیا تو وزیراعظم بھٹو نے ملک گیر ہڑتال کااثر ختم کرنے کے لیے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سجاد احمد جان کو عوامی نمائندگی کے ایکٹ76کی دفعہ 103-Aکے تحت خصوصی اختیارات تفویض کر دیے کہ الیکشن کمیشن ان حلقوں میں جعل سازی کا جائزہ لینے کے لیے فنگرپرنٹس کے ماہرین کی خدمات حاصل کرے؛چنانچہ الیکشن کمیشن نے فنگر پرنٹس کے سرکاری ٹیکنوکریٹس سے پندرہ حلقوں کے ووٹروں کے انگوٹھوں کی جانچ پڑتال کرائی،ان ماہرین نے مینوئل طریقے سے ہزاروں جعلی انگوٹھوں کی نشاندہی کی اورالیکشن کمیشن نے ان حلقوں کے نتائج کالعدم قرار دے دیے۔بلوچستان کے حلقہ پشین سے منتخب ہونے والے یحییٰ بختیارکو‘ جو اس وقت اٹارنی جنرل بھی تھے، نااہل کرنے کی نوبت آئی تو وزیراعظم نے الیکشن کمیشن سے یہ اختیارات واپس لے لیے‘ جس کے بعد ملک بھر میں احتجاجی تحریک شروع ہو گئی، ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا اور 5جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگ گیا۔ صرف دوبرس بعد ذوالفقار علی بھٹو جان سے بھی گئے ۔
اگر وزیرداخلہ کی تجویز کے مطابق چار کے بجائے 272حلقوں کی جانچ پڑتال کی گئی توتمام حلقوں کے 70فیصد ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکے گی کیونکہ انتخابات میں مقناطیسی سیاہی استعمال ہی نہیں کی گئی جس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی تھی۔اگر چودھری نثار علی خان کا موقف درست ہے توسابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) فخرالدین جی ابراہیم اور ان کی ٹیم اس پر اپنی رائے کا اظہارکر سکتی ہے۔ دراصل نادرا قوم کے اعتماد پر پورا اترتا ہوا نظر آیا،اس نے الیکشن سے پہلے خبردارکر دیا تھا کہ وہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے انگوٹھوں کے نشانات کی جانچ پڑتال کے ذریعے بے ضابطگیوں کو بے نقاب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن ،سول سوسائٹی، میڈیا اور سیاستدان بھی نادراپراعتماد کرتے ہیں۔الیکشن ٹربیونلزکے زیرسماعت تقریباً 400 انتخابی عذرداریوںکو تیزی سے نمٹانے کے لیے فنگر پرنٹس کے سرکاری ماہرین عام سٹمپ پیڈ کے استعمال سے نگوٹھوں کے نشانات کی اُسی طرح صحیح جانچ پڑتال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس طرح انہوں نے مارچ1977ء کے انتخابات کے بعد کی تھی۔ 
وزیرداخلہ کا متعدد فورمز پر حکومت کی جانب سے صفائی دینااور پارلیمانی رہنمائوں کو خط لکھنا ظاہرکرتا ہے کہ حکومت پسپائی اختیارکر رہی ہے۔ 272 حلقوں کے انگوٹھے چیک کرانے کی بات قوم سے مذاق کرنے کے مترادف ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 225کے تحت الیکشن نتائج کوکسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتاسوائے ان کیسزکے جو الیکشن ٹربیونلز میں زیر سماعت ہیں۔ 
مئی 2013ء کے انتخابات میں ریٹرننگ افسروں نے انتخابی امیدواروں کے آئین کے آرٹیکل62اور63 پرپورااترنے کی شرط کے سلسلے میں بھی اپنی ذمہ داریاں درست طریقے سے انجام نہیں دیں، صادق اورامین کی شرط کا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مذاق اڑایا گیا۔ اس طرح ریٹرننگ افسروں نے پور ے انتخابی عمل کومشکوک بنا دیا۔الیکشن ٹربیونلزکی ہدایت پرچند قومی وصوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کے انگوٹھوں کے نشانات کی پڑتال سے انکشاف ہوا کہ الیکشن میں ہیرا پھیری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
نادرا کے چیئرمین طارق ملک نے اس میگا بدانتطامی پر ہاتھ ڈالا توحکومتی ایوان لرزگئے، یہ بھی انکشاف ہوا کہ ایک ہی انگوٹھے کے نشانات درجنوں بیلٹ پیپرزپرثبت ہوئے۔ خود سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے انتخابات کے آزادانہ اورغیر جانبدارانہ ہونے کو مشکوک قرار دیا۔یہی وجہ ہے کہ نادرا کے چیئرمین طارق ملک کی طرف سے انتخابات میں ہونے والی جعل سازیوں کی نشان دہی کرنے اور مزید کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کرنے پر ان سے استعفیٰ لینے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بادی النظر میں بد نیتی پر مبنی ہے۔
نادرا نے موقف اختیار کیا کہ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے لیے جن حلقوں سے درخواستیں آئی ہیں ان کے ووٹروں کے 60فیصد انگوٹھوں کے نشانات قابل شناخت نہیں۔علاوہ ازیں ہر فہرست میں ایک ایک شخص نے چالیس چالیس مرتبہ انگوٹھے لگا کر ووٹ ڈالے ہیں۔ اُدھرالیکشن کمیشن نے وفاقی وزیرداخلہ کا سرکاری موقف مسترد کر دیا۔ کمیشن کے سیکرٹری اشتیاق احمد خان کا کہناہے کہ عام انتخابات میں ملک بھر میں مقناطیسی سیاہی استعمال ہوئی،ریٹرننگ افسروں کی طرف سے اسے پہچاننے کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ صوبائی الیکشن کمشنرز نے تمام ریٹرننگ افسروں کو مقناطیسی سیاہی پہنچائی جس کا ریکارڈ موجود ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مقناطیسی سیاہی میں لوہے اور چاندی کے ذرات استعمال کیے گئے اورانتخابات میں اس سیاہی کے پونے 
پانچ لاکھ پیڈ استعمال ہوئے،جہاں مقناطیسی سیاہی استعمال نہیں ہوئی اس کے ذمہ دار ریٹرننگ افسرہیں۔
محسوس یہ ہوتا ہے کہ چودھری نثار علی خان الیکشن ٹیکنالوجی سے بخوبی واقف نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے تمام انتظامات قدرے بہترکیے لیکن انہیں بعض ریٹرننگ افسروں نے ناکام بنا دیا۔ جن حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی شناخت نہیں ہو رہی،ان حلقوں کے ریٹرننگ افسروں اور پریذائیڈنگ افسروں کے خلاف ایف آئی آر درج کراکے عوامی نمائندگی کے ایکٹ 76کی شق 79,78,77کے تحت تحقیقات ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم کی منظوری سے نادرا کو تین ماہ کے لیے الیکشن کمیشن کی تحویل میں دینا آئین کے آرٹیکل 220کی خلاف ورزی ہے۔الیکشن کمیشن کسی بھی ادارے کی خدمات حاصل کر سکتا ہے لیکن حکومت اسے کسی قسم کے اختیارات تقویض نہیں کر سکتی۔ الیکشن کمیشن نے مقناطیسی سیاہی نادرا کی سفارش پر تیار کرائی تھی۔ قاعدے کے مطابق ریٹرننگ افسر اپنی موجودگی میں الیکشن کے دوران استعمال ہونے والی سٹیشنری،بیلٹ پیپرز، انتخابی فہرستوں کے سیٹ، خفیہ مہریں،خفیہ کوڈمارک،انمٹ سیاہی کے پیکٹ اور مقناطیسی پیڈ انتخابی عملے کو مہیاکرتے ہیں۔ پولنگ عملے کاتقرر صوبائی حکومتیں کرتی ہیں،لہٰذا بظاہرعملے کے توسط سے مقناطیسی پیڈ تبدیل کر ادیے گئے۔
الیکشن کمیشن نے نادرا کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے سے معذرت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ آئین الیکشن کمیشن کو ایسا اختیار نہیں دیتا کہ وہ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے معاملے میں نادرا کا انتظامی کنٹرول سنبھال لے۔الیکشن کمیشن انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے معاملہ پر فریق نہیں بن سکتا۔بہرحال قوم کی نظریں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے پر لگی ہوئی ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں