"KDC" (space) message & send to 7575

ارکان پارلیمنٹ کے غیر ملکی اثاثے

سینیٹ اورقومی وصوبائی اسمبلیوں کے ان ارکان کونااہل قراردیاجاسکتاہے جن کے ٹیکس گوشواروں میں تضادات ہیں اورجوٹیکسوں کے نادہندگان بھی ہیں۔الیکشن کمیشن کسی شخص یا اِدارے کی جانب سے باقاعدہ درخواست دینے پر ان کے خلاف عوامی نمائندگی کے ایکٹ 76کی شق 78کے تحت کارروائی کرسکتا ہے۔ ٹیکس کسی بھی ملک کا نظم و نسق چلانے اور تعمیر و ترقی کے منصوبوں کی تکمیل کا ناگزیر ذریعہ ہوتے ہیں۔ مہذب معاشروں میں ٹیکسوں کی ادائیگی قومی فریضہ سمجھی جاتی ہے۔ جو لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے انہیں قانون کے مطابق سزا تو ملتی ہی ہے، معاشرے میں بھی انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ پاکستان میں بھی حکومت پارلیمنٹ کی منظوری سے ٹیکس عائد کرتی ہے اور پارلیمنٹ کے ارکان کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنے مثالی کردار سے دوسرے لوگوں کو ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب دیں۔انتخابات میں حصہ لینے والاہرامیدوار ایک عہد نامے پردستخط کرتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ اس کی فراہم کردہ معلومات کسی بھی وقت غلط قرارپائیں تواس کاانتخاب کالعدم قراردیا جاسکتا ہے۔ان معلومات میں ٹیکس بھی شامل ہیں۔
یہ انکشاف حیرت انگیزاور افسوس ناک ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی قابل لحاظ تعداد کے ٹیکس گوشواروں میں تضادات پائے گئے ہیں،کسی نے اپنی آمدنی صحیح نہیں بتائی۔ کسی کی آمدنی زیادہ ہے مگرٹیکس کم جمع کرائے، کسی کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر ہی نہیں ہے، کسی نے دعویٰ کیا کہ اس نے ٹیکس ادا کر دیا ہے۔ایف بی آر نے اس طرح کے دعوے مسترد کر دیے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے رکن منتخب ہونے والے 47 فیصد سیاستدانوں نے انکم 
ٹیکس ادا نہیں کیا۔ان کا تعلق حکومت اور اپوزیشن میں شامل تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں سے ہے۔آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے پندرہ ارکان اورکئی معروف شخصیات بھی نادہندگان میں شامل ہیں۔ 12فیصد ارکان اسمبلی کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر نہیں ہے۔90ارکان اسمبلی نے کاغذاتِ نامزدگی میں جو معلومات فراہم کیں ایف بی آرکے ریکارڈ کے مطابق ان میں بے قاعدگیاں پائی گئیں۔پنجاب اسمبلی کے 169، سندھ اسمبلی کے کم ازکم 50اورخیبر پختون خوا اسمبلی کے 81ارکان نے ٹیکس ادا نہیں کیا۔بلوچستان اسمبلی کے 56فیصد ارکان ٹیکس نادہندہ ہیںجن میں آٹھ صوبائی وزیر بھی شامل ہیں۔ٹیکس ادا نہ کرنے والے ہمارے منتخب نمائندوں میں سے بعض اہم قومی مناصب پرفائز ہیں لیکن وہ قومی خزانے میں اپنا حصہ ڈالنے سے گریزاں ہیں۔
یہ وتیرہ ارکان اسمبلی یا سیاستدانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ معاشرے کے تمام طبقوں کے صاحب حیثیت افراد ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔الیکشن کمیشن قانونی طور پرارکان اسمبلی کے گوشواروں کی تحقیقات نہیں کر سکتا، یہ معاملہ عدالت میں اٹھایا جاسکتا ہے اور غلط بیانی ثابت ہونے پر متعلقہ رکن کو نااہلی کے علاوہ تین سال قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ حکومتی اداروں نے الیکشن کمیشن کوارکان اسمبلی کے خلاف از خود کارروائی کرنے اور ان کے گوشواروں کی ازخود تحقیقات کرنے کے قانونی اختیارات سے محروم رکھا ہوا ہے۔ شکایت کنندہ کو متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں پیش ہوکر ثبوت فراہم کرنا ہوتا ہے۔ 
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عوامی نمائندگی کے ایکٹ 76کی شق 42-Aاور سینیٹ ایکٹ 74کی شق 25-Aکے تحت 1174ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کے اثاثہ جات کے منقولہ و غیر منقولہ اثاثہ جات کی تفصیلات اپنی سرکاری ویب سائٹ پر جاری کر دی ہیں۔ الیکشن کمیشن کا یہ قدم درست اور دانشمندانہ ہے کہ اس طرح ان ارکان کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی اور دستخط شدہ دستاویزات عوام کی دہلیز پر پہنچا دی گئی ہیں۔پاکستان کے کروڑوں عوام یہ جان پائیں گے کہ ان کے منتخب ارکانِ پارلیمنٹ نے درست گوشوارے جمع نہیں کرائے۔ پاکستان کا کوئی بھی شہری عوامی نمائندگی ایکٹ کی مذکورہ شقوں کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج یا اعلیٰ عدالت میں یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ 11مئی 2013ء کے عام انتخابات میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 19اورعوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت منتخب ارکان کے گوشوارے حقائق پر مبنی نہیں۔ اس لیے غلط گوشوارے جمع کروانے والے ارکان کو نااہل قرار دیا جائے۔ایسا کرنااس لئے ممکن ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر عام شہریوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بارکونسل اور انٹرنیشنل ٹرانسپیرنسی کوقومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے اثاثہ جات کے تصدیق شدہ ریکارڈ تک رسائی دے دی ہے۔ اس سے پاکستان کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو گیا کیونکہ47فیصد ارکان کو نااہلی کا سامناکرنے کا امکان ہے۔ ہمارے بااثر سیاستدانوں نے گوشواروں میں اپنی غیر ملکی جائیدادوں، بنک اکائونٹس، سرمایہ کاری اورمحلات کا ذکر نہیں کیا؛ حالانکہ ان کی جائیدادیں دبئی، لندن، سپین، آسٹریلیا، ملائیشیا، سنگاپور اور امریکہ میں موجود ہیں۔ بعض سیاستدانوں کے صاحبزادگان نے بھارت میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اوران کا اربوں ڈالر پر پھیلا ہوا سرمایہ غیر ملکوں میں موجود ہے۔ارکان اسمبلی کے لیے شریکِ حیات اوراولاد کی جائیدادوں کی تفصیل بتانا ضروری ہوتا ہے لیکن انہوں نے الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں ان کا ذکرتک نہیں کیا۔ انتخابی امیدواروں کی فراہم کردہ معلومات، ٹیکسوں کی ادائیگی سمیت کسی بھی معاملے میں شفافیت کی عدم موجودگی یا کسی بھی حلقے کی جانب سے حقائق پر پردہ ڈالنے کے عمل کو بہت سے ملکوں میں جمہوریت پر حملہ اور عوام کے حقوق پر ڈاکہ تصور کیا جاتا ہے۔ اِسی بنا پر انتخابی عمل میں حصہ لینے والا ہر امیدواراس بات کا تحریری عہد نامہ دیتا ہے کہ فراہم کردہ معلومات کسی بھی وقت غلط قرار پائیں تواس کا انتخاب کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ جعلی ڈگریاں پیش کرنے یا دوہری قومیت کے حوالے سے غلط معلومات فراہم کرنے والے قومی و صوبائی اسمبلی کے کئی ارکان کو حقائق سامنے آنے کے بعد ناہلی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو بعدمیں بھی ہرسال گوشوارے جمع کرانے پڑتے ہیں۔ان گوشواروں کی صحت کے حوالے سے جب سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو الیکشن کمیشن کا موقف یہ ہوتا ہے کہ وہ ازخود تحقیقات نہیں کر سکتا۔اگرکسی کو اس سلسلے میں شکایات ہیں تو وہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 82، 42-Aکے تحت عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ 2005-2006ء میں اس وقت قومی احتساب بیورو کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل منیر حفیظ اوروائس چیئرمین حسن وسیم افضل اور ڈائریکٹر جنرل نے مجھ سے ملاقات کی تھی اور انہوں نے تجویز پیش کی تھی کہ الیکشن کمیشن منتخب نمائندوں کورول ماڈل بنانے کے لیے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کی ذمہ داری قومی احتساب بیورو کے سپرد کرنے کی غرض سے قانون سازی کرائے۔ بعدازاں نیب کے اعلیٰ حکام نے ایک قانونی مسودہ بھی مجھے پیش کیاجوالیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں موجود ہے۔الیکشن کمیشن نے نیب کی تجویزکردہ سفارشات کو پارلیمانی امورکی وزارت کو بھجوا دیا جس میں الیکشن کمیشن کو ازخود تحقیقات کرنے یا حکومت کے کسی ادارے کے ذریعے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرانے کے لیے قانون سازی کرنے کی سفارش کی گئی۔ قومی انتخابات کے انعقاد سے پیشتر بھی نیب کے چیئرمین ایڈمرل فصیح بخاری نے چیف الیکشن کمشنرکو اِسی طرح کی تجویز پیش کی تھی۔
ارکان پارلیمنٹ میں سے اکثر بااثر سیاستدانوں کے اثاثے غیر ممالک میں موجود ہیں جن میں منقولہ اور غیر منقولہ اربوں کھربوں روپے کی جائیداد شامل ہے۔ انہوں نے حقائق چھپائے ہیں اور الیکشن میں پیش کردہ اثاثوں میں ان کا ذکر کہیں بھی نظر نہیں آ رہا ؛حالانکہ 2007ء تک جو اثاثے وزیراعظم شوکت عزیز نے داخل کرائے تھے ان میں انہوں نے اپنے غیر ملکی اکائونٹس کا واضح طور پر ذکر کیا تھا۔ اب کوئی بھی فرد یا غیر سرکاری ادارہ عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں