"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی عذرداریاں: بحران پیدا ہونے کا خدشہ

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں اندیشہ ظاہرکیا ہے کہ 396 انتخابی عذرداریوں کے فیصلوں میں تاخیر، انگوٹھوں کے نشانات اور چیئرمین نادرا کی برطرفی کے معاملات کو ایک دوسرے سے جوڑ کر ملک میں وسط مدتی انتخابات کے لیے فضا ہموار کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت انگوٹھوں کی تصدیق کے معاملے پر اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے اپنے اس موقف کو بھی دہرایا کہ مقناطیسی سیاہی کا دنیا میں کوئی تصور نہیں، الیکشن کمیشن سیاہی کے معاملے میں ذمہ داروں کا تعین کرے تو حکومت ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کو تیار ہے۔ وزیر داخلہ نے انتخابی عذرداریوں کے معاملے پر بھی اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی۔ اس کے علاوہ ملک میں انتخابات کو صاف و شفاف اور آزادانہ و غیرجانبدارانہ بنانے کا موثر طریق کار وضع کرنے کے لیے بھی اپوزیشن سے تعاون طلب کیا اور تحریکِ انصاف کو پیشکش کی کہ وہ اس ضمن میں قومی اسمبلی میں بل پیش کرے، حکومت اسے منظور کرانے میں تعاون کرے گی۔ چودھری نثار علی خان کی جانب سے حکومتی موقف بیان کرنے کے بعد ملک کے سیاسی حلقوں میں ہلچل اور بحران سا پیدا ہو گیا ہے کیونکہ مبصرین کے مطابق اس بیان سے حکومت کی وکٹ گرتی نظر آرہی ہے۔ ادھر اپوزیشن کے بعض حلقے عوامی اجتماعات میں از سرنو انتخابات کی باتیں کر رہے ہیں اور اس کے جواز کے طور پر وہ جن اسباب کی نشاندہی کر رہے ہیں ان میں الیکشن ٹربیونلز کی جانب سے انتخابی عذرداریوں کا مقررہ مدت کے اندر فیصلے نہ کرنا بھی شامل ہے۔ ایسی صورت حال ماضی میں بھی پیدا ہوتی رہی ہے۔ اکثر ایسا ہوا کہ انتخابی عذرداریوں کی سماعت میں سالہا سال لگ گئے‘ پھر بھی فیصلہ نہ ہو سکا، یہاں تک کہ اگلے انتخابات کا شیڈول جاری ہو گیا۔ اس بار تاخیر کا کوئی جواز نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن نے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 58-52 کے تحت ریٹائرڈ ججوں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے انہیں چار ماہ کے اندر الیکشن کے معاملات نمٹانے کی ہدایت کر دی ہے۔ ماضی میں الیکشن ٹربیونلز کے معزز ججوں کا تعلق حاضر سروس ججوں سے ہوتا تھا‘ جنہیں الیکشن ٹربیونلز کے کیسز کی سماعت کرنے کے ساتھ ساتھ عدالتی ذمہ داریاں بھی پوری کرنا ہوتی تھیں لیکن اس بار ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل الیکشن ٹربیونلز قائم ہونے کے بعد چار ماہ گزرنے کے باوجود انتخابی عذرداریوں کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اس پر الیکشن کمیشن براہِ راست تنقید کی زد میں آرہا ہے‘ حالانکہ قانون میں کوئی ابہام یا سقم نہیں۔ اس وقت تقریباً 35 الیکشن ٹربیونلز 396 انتخابی عذرداریوں کی سماعت کر رہے ہیں، ان کا بوجھ کم کرنے کے لیے مزید 15 الیکشن ٹربیونلز تشکیل دیے جانے چاہئیں تھے تاکہ ہر الیکشن ٹربیونل کو چار انتخابی عذرداریوںکی سماعت کرنی پڑتی اور انہیں مقررہ مدت میں نمٹا لیا جاتا۔
جمہوری ملکوں میں مڈٹرم انتخابات اس وقت کرائے جاتے ہیں جب برسر اقتدار پارٹی پارلیمنٹ میں اکثریت کی حمایت کھو بیٹھے یا ایسے حالات پیدا ہو جائیں جن پر حکومت قابو نہ پا سکے یا کوئی غیرمعمولی بحران پیدا ہو جائے جسے حل کرنے کے لیے وزیر اعظم خود فیصلہ کرے کہ عوام سے دوبارہ مینڈیٹ حاصل کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ 11مئی 2013ء کے انتخابات میں لاکھوں جعلی ووٹ بھگتانے کے شواہد سامنے آئے تو تحریکِ انصاف نے چار حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کا مطالبہ کیا، داد رسی کے لیے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے جذباتی انداز میں مطالبہ کرنے پر انہیں سپریم کورٹ کی جانب سے سرزنش کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اب چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے‘ جو متعدد بار قائم مقام چیف الیکشن کمشنر رہ چکے ہیں، اس معاملے کی مکمل تفتیش کرانے کے لیے الیکشن ٹربیونلز کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔
اب میں قارئین کو چودھری نثار علی خان کے موقف کے بارے میں حقائق سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ چودھری صاحب کے سرکاری بیان سے واضح ہو گیا کہ حکومت بھی 11مئی کے انتخابات کے بارے میں تحفظات رکھتی ہے۔ انہوں نے انگوٹھوں کی تصدیق کے لیے جس عجلت میں بیان دیے اور اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے نقشِ قدم پر چل پڑے ہیں‘ جنہوں نے 1977ء کے الیکشن میں دھاندلیوں کے خلاف اپوزیشن کے احتجاج پر پی این اے کی قیادت سے مذاکرات کیے تھے جو بالآخر چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاالحق کے مارشل لا پر منتج ہوئے۔ مجھے حیرت ہے کہ آخر چودھری نثار علی خان نے انگوٹھوں کے تصدیقی عمل کے لیے اپوزیشن سے مذاکرات کی ضرورت کیوں محسوس کی اور اس کے ساتھ ساتھ انتخابی عذرداریوں کے معاملے پر بھی اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت کیوں دے ڈالی؟ اس طرح انہوں نے حکومت کو پسپائی کے دہانے پرکھڑا کر دیا ہے۔ چودھری نثار علی خان نے یہ کہہ کر حکومت کی ایک اور وکٹ گرا دی کہ مقناطیسی سیاہی کا دنیا میں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ ان کے موقف کی قانونی پوزیشن یہ ہے کہ انگوٹھوں کے تصدیقی عمل کا کام الیکشن ٹربیونلز کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ میں اپنے تجربے کی روشنی میں بتا رہا ہوں کہ مقناطیسی سیاہی تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں استعمال ہوتی رہی ہے۔ چودھری نثار علی خان نے انتخابی عذرداریوں کے معاملے پر اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دے کر الیکشن ٹربیونلز کے اختیارات میں مداخلت کی بھی کوشش کی ہے۔ ابھی الیکشن ریکارڈ کی جانچ پڑتال نہیں ہوئی لیکن حیرت ہے کہ چودھری صاحب کو کیسے پتا چل گیا کہ ہر حلقے میں 60 فیصد ووٹ غیر تصدیق شدہ ہیں اور مقناطیسی سیاہی بھی استعمال نہیں ہوئی۔ الیکشن کمیشن کے ارکان پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر مقرر ہوئے، نجم سیٹھی کو میاں نواز شریف کی سفارش پر نگران وزیر اعلیٰ پنجاب مقرر کیا گیا، الیکشن کا عملہ پنجاب حکومت کے سرکاری ملازمین پر مشتمل تھا، اس صورت حال میں مقناطیسی سیاہی کس کی مرضی سے اور کیسے بدل گئی؟ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ نے پنجاب پولیس کے پونے دو لاکھ جوانوں اور افسروںکو انتخابات میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا اور ریٹرننگ آفیسرز اس فورس کے کام میں مداخلت نہیں کر سکے۔ 
محسوس یہ ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت الجھائو کا شکار ہے اور شاید انتخابی عمل میں دھوکہ دینے کے لیے مختصر راستے کی تلاش میں ہے۔ اس وقت ملک کو طالبان، دہشت گردی، غربت، معاشی بدحالی اور جرائم کا سامنا ہے، اس کے برعکس وزیر اعظم حلف اٹھاتے ہی مرگلہ پہاڑیوں میں سرنگ گزار کر دوسری طرف نیا اسلام آباد تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ انگوٹھوں کی تصدیق کے متعلق وزارتِ داخلہ، نادرا اور الیکشن کمیشن کے مابین ابہام پیدا ہو چکا ہے۔ الیکشن سے متعلق تنازعات کا فیصلہ کرنے کے لیے الیکشن ٹربیونلز کو وسیع تر اختیارات حاصل ہیں، عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء کے مطابق اگر کوئی اِدارہ یا حکومتی اہلکار ان کے امور میں مداخلت کرتا ہے تو وہ اس شخصیت کو نااہل قرار دینے کے علاوہ تین سال کی سزا بھی دے سکتا ہے۔ انگوٹھوں کے معاملہ پر طوفان عوام کے ذہنوں میں خلجان پیدا کر رہا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں نہ صرف ملک میں عدم استحکام کی فضا پیدا ہو رہی ہے بلکہ مڈٹرم الیکشن کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے سلسلے میں کوئی واضح فیصلہ نہیں کیا جا رہا۔ حکومت کوگومگو کی کیفیت سے باہر نکل کر دو ٹوک فیصلہ کرنا ہو گا۔ اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ الیکشن ٹربیونلزکی تعداد دوگنی کر دی جائے اور قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس ناصرالملک اپنے اختیارات بروئے کار لا ئیں۔چودھری نثار علی خان انتہائی زیرک، محب وطن اور سنجیدہ سیاستدان ہیں، ان کا موقف یہ ہے کہ اختلافات کو دور کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں