"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات میں طویل تاخیرہوگی؟

سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک میں بلدیاتی انتخابات کے مستقبل کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ سے رجوع کرنے یا از خود فیصلہ کرنے اور غیر معینہ مدت کے لیے الیکشن کے التواء پر غور کر رہا ہے۔ سندھ میں 18جنوری کو انتخابات کرانے کے لیے 16جنوری تک 3کروڑ اور پنجاب میں 30جنوری کو یہ مرحلہ طے کرنے کے لیے 26 جنوری تک 30کروڑ بیلٹ پیپرز کی چھپائی مکمل ہونا ضروری ہے۔اس مقصد کے لیے سات سرکاری اداروں کے پرنٹنگ پریس سے رجوع کیا گیا لیکن ان میں سے کوئی بھی فروری کے دوسرے ہفتے سے پہلے تک بیلٹ پیپرز کی طباعت کے لیے تیار نہیں ہے جس کی بنا پر خدشہ ہے کہ یہ معاملہ کہیں ایک مرتبہ پھر التوا کا شکار نہ ہو جائے۔ 11مئی 2013ء کے انتخابات میں بعض حلقوں میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات نے بلدیاتی انتخابات میں شفافیت کے حصول کو مزید مشکل بنا دیا ہے اور اس سلسلے میں عوام نہ صرف بلدیاتی انتخابات کے لیے حکومت سے باقاعدہ ایک سسٹم بنانے کی توقع کر رہے ہیں بلکہ ان کی یہ خواہش بھی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں نہ صرف مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو پورے اختیارات دینے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے؛ بلکہ کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کے حقوق و فرائض کے علاوہ ان کے اختیارات کا تعین بھی ضرور کیا جانا چاہیے ، کیونکہ اگر بلدیاتی نمائندے معقول حد تک خود مختار نہیں ہوں گے تو وہ کس طرح مقامی حکومتوں کے نظام کو موثر طریقے سے چلانے کے قابل ہوں گے۔انہیں کم از کم اتنے اختیارات تو ضرور دیے جانے چاہئیں جتنے 2001ء کے لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تحت ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آنے والی مقامی حکومتوں کو حاصل تھے۔ 
الیکشن کمیشن صوبائی حکومتوں کے مرتب کردہ بلدیاتی قوانین میں مداخلت کا مجاز نہیں اور نہ ہی منتخب ہونے والے نمائندوں کو پورے اختیارات سے سرفراز کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آرہا ہے کہ پہلے نئی مردم شماری کرائی جائے اور پھر اس کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کی جائیں۔ ادھر جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما ڈاکٹر محمد صدیق راٹھور کی آئینی درخواست سندھ ہائی کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کر لی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ حلقہ بندیوں سے پہلے نئی مردم شماری ہونی چاہیے اور اس کے بغیر بلدیاتی انتخابات نہ ہوں۔ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ سندھ میں مردم شماری کرانا آسان نہیں کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے نئی مردم شماری اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا ہے اور سندھ کو تقسیم کرنے کا بھی اشارہ دیا ہے۔ اگر مردم شماری ہو بھی جائے تو سندھ کی تمام سیاسی قوتوں کے لیے قابلِ قبول حلقہ بندیاں ممکن نہیں ہیں۔ سندھ ایک آتش فشاں بنا ہوا ہے ، وہاں مردم شماری کرانے کا آئینی تقاضا پورا کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا مستقبل قریب میں انعقاد حکومت اور الیکشن کمیشن کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج نظر آرہا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے دونوں صوبائی حکومتیں اور اپوزیشن دونوں خوش ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ الیکشن نہ کروانے کے الزام سے بری ہو گئی ہے اور اپوزیشن جماعتوں نے عدالت سے رجوع کر کے الیکشن موخر کرانے میں کردار ادا کیا ہے جبکہ اپوزیشن کا کہنا یہ ہے کہ صوبائی
حکومتوں نے جان بوجھ کر لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں خلاف قانون ترامیم کیں اور حلقہ بندیاں ایسی کیں جن پر اپوزیشن کو سخت اعتراضات ہیں۔ دونوں صوبائی حکومتوں نے یہ منصوبہ بندی انتخابات ملتوی کرانے کے لیے کی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ میں 18جنوری اور پنجاب میں 30جنوری کو انتخابات کرانے کا شیڈول دیا ہوا ہے، لیکن مذکورہ حالات کے باعث الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیج رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے لیے ٹھوس جواز موجود ہے۔
لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے یکے بعد دیگرے آنے والے فیصلوں کے بعد مقامی حکومتوں کے لیے حلقہ بندیوں اور بعض قوانین میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابی طریقِ کار، اختیارات اور کام کرنے کے طریقوں کو معروف اصولوں اور معیارات کے مطابق بنایا جائے جو تمام جمہوری ملکوں میں رائج ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب بھر میں بلدیاتی انتخابات کی حلقہ بندیوں کے بارے میں فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کو نئے سرے سے حلقہ بندیاں کرا کر انتخابات کرانے چاہئیں۔ عدالت عالیہ نے پنجاب 
لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے سیکشن 8اور 9کو جو میونسپل کمیٹی کی یونین کونسلوں اور وارڈز کی حلقہ بندی سے متعلق تھیں‘ آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے صوبائی حکومت سے کہا ہے کہ وہ قانون میں ترمیم کر کے حلقہ بندی کا کام الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حوالہ کرے۔ مذکورہ فیصلے سے ایک روز قبل سندھ ہائی کورٹ نے صوبہ سندھ کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کی تیسری ترمیم کو غیر قانونی و غیر آئینی قراردیتے ہوئے اس کے تحت چھ ڈویژنوں کی حد بندیوں سے متعلق نوٹی فکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا ہے ۔اس فیصلے کے بعد الیکشن کے لیے لازمی طور پر پینل تشکیل دینے کی شرط انسانی حقوق سے متصادم ہے۔
ان حالات میں سندھ اور پنجاب میں مقامی حکومتوں کے نئے قوانین اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے مقامی حکومتوں کو عالمی معیارات کی سطح پر لانے کے لیے الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے از خود حلقہ بندیاں کرانے کے لیے اٹھارویں ترمیم کی روشنی میں سپریم کورٹ سے ایڈوائس لینے پر غور کر رہا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیاں کرانے کی ذمہ داری قبول کر لی تو پھر سندھ اور پنجاب میں چھ ماہ سے قبل حلقہ بندیاں مکمل کرنا مشکل ہو گا۔ لہٰذا سندھ اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں انتخابات کی شفافیت کے لیے انتخابات طویل مدت کے لیے موخر ہوتے نظر آرہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں