"KDC" (space) message & send to 7575

کیا 3نومبر کی ایمرجنسی غداری تھی؟

پاکستان کے سابق مرد آہن جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے حوالے سے مقدمہ ایک سنجیدہ قومی معاملہ ہے جو خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ یہ ابتدائی مراحل میں ہے اور ابھی فردِ جرم عائد نہیں ہوئی لیکن سیاسی، قانونی اور میڈیا کے حلقوں نے اسے اپنی اپنی سوچ کا رنگ دینا شروع کر دیا ہے‘ جس سے لوگوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا ہو رہا ہے۔ بعض حلقے پیش گوئی کر رہے ہیں کہ جنرل(ر) پرویز مشرف کو بااثر اور طاقتور دوست ممالک کی مداخلت یا داخلی مصلحتوں کی وجہ سے باعزت طور پر ملک سے باہر بھیج دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں میاں نواز شریف کو مع فیملی سعودی عرب جلاوطن کرنے اور امریکہ و برطانیہ کے دبائو پر بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے محترم نواز شریف کو بیماری کی بنا پر لندن اور امریکہ جانے کی اجازت بھی دی تھی۔ اس حلقے کا خیال ہے کہ پرویز مشرف کو اچانک دل کی تکلیف انہیں علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے کا جواز بن سکتی ہے۔ کچھ حلقے حکومت پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ انہیں کسی بھی صورت میں ملک سے باہر نہ جانے دیا جائے۔ ایک اور طبقہ‘ جس میں اپوزیشن اور حکومتی رہنما بھی شامل ہیں‘ اس بحث کو حکومت کی طرف سے مہنگائی، بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کی وجہ سے بڑھتی ہوئی بے چینی سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دے رہا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس پر باقاعدہ کارروائی سابق چیف جسٹس نے مبینہ طور پر ذاتی عناد کی بنا پر شروع کی۔ جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا: ''پرویز مشرف آزادانہ گھوم رہا ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے والا نظر نہیں آ رہا‘‘ ان ریمارکس کے بعد نگران حکومت کے دور میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کارروائی شروع ہو گئی۔ ان کے کاغذاتِ نامزدگی عدالت عالیہ کے معزز ججوں نے مسترد کر دیے اور تاحیات نااہل قرار د ے دیا۔
موجودہ حکومت نے جنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف تکنیکی تقاضے‘ جس میں کابینہ سے منظوری اور صدر مملکت کی جانب سے ریفرنس بھیجنے کے آئینی تقاضے شامل تھے، پورے کئے بغیر عدالت میں باقاعدہ چالان پیش کر دیا اور ایک اطلاع کے مطابق اس کیس کی پیروی کرنے والوں کے لیے چار کروڑ 90 لاکھ روپے مختص کر دیے۔ اب اس کیس کی گیند عدلیہ کی کورٹ میں ہے جس پر جنرل(ر) پرویز مشرف نے عدم اعتماد ظاہر کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خصوصی کورٹ کے سربراہ نے ان کے کراچی کے حلقہ 254 سے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے تھے‘ حالانکہ ریٹرننگ آفیسر نے ان کے کاغذات منظور کرتے ہوئے انہیں قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے اہل قرار دیا تھا۔ میرا مقصد قارئین کو صرف اس کیس کے پسِ منظر سے آگاہ کرنا ہے تاکہ مستقبل میں آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہو اور ملک میں جمہوریت کو پھلنے پھولنے اور اس کے ثمرات کسی رکاوٹ کے بغیر عام آدمی تک پہنچنے کا موقع ملے۔ 
جہاں تک سابق صدر کی بیماری کا تعلق ہے، میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر فیصلہ عدالت کرے گی کہ ان کا علاج ملک کے اندر کیا جائے یا بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیاست نہیں کی جاتی۔ جب 5 جولائی 1977ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی کابینہ کے وزرا کو گرفتار کیا گیا تو پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کے سرکردہ رہنمائوں اور ان کے حامیوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں اور یومِ نجات منایا۔ اِسی طرح 12 اکتوبر 1999ء کو وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا‘ تو مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اسے خوش آئند قرار دیتے ہوئے ملک میں جلد غیرجانبدارانہ انتخابات کا مطالبہ کیا۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کی علالت پر بلاول بھٹو زرداری سے جو بچگانہ بیان دلوایا گیا‘ 
اس کے جواب میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور نے آصف علی زرداری کی خطرناک بیماری کے میڈیکل سرٹیفکیٹ کا تذکرہ کر دیا تاکہ انہیں سوئس عدالت میں پیشی سے استثنیٰ مل سکے۔ بلاول کو آنے والے برسوں میں پاکستان کی سیاست میں صف اول کا کردار ادا کرنا ہے‘ اس لیے انہیں خود کو نادان دانشوروں کے شر سے بچانا ہو گا جو اپنی نفرت کی آگ بجھانے کے لیے انہیں استعمال کر رہے ہیں۔
دنیا کے کسی ملک میں اس کی بقا کے بارے میں سوال نہیں کیا جاتا لیکن پاکستان واحد ریاست ہے جس کے متعلق یہ سوال تواتر سے پوچھا جاتا ہے۔ ان دنوں جنرل پرویز مشرف کا مقدمہ آئین کے حوالے سے زیر سماعت ہے‘ جس کے ساتھ یہ سوال بھی ابھر آیا ہے کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا ہمیں یقین نہیں کہ یہ ملک ان مسائل سے احسن طریقے سے عہدہ برا ہو سکتا ہے؟ شاید یہ غیریقینی کیفیت اس لیے ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ ملک سے دولت سمیٹ کر بیرون ملک منتقل کر رہا ہے۔
18 فروری 2008ء کے انتخابات این آر او کے طفیل ہی ہوئے تھے۔ بے نظیر بھٹو اور بعدازاں میاں نواز شریف اپنی جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئے تھے۔ این آر او میں امریکہ، سعودی عرب، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات صدر پرویز مشرف کے ضامن بنے تھے۔ ان قومی انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاق میں اور سندھ میں حکومت قائم ہوئی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن برسر اقتدار آئی تو اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی بحالی کی آڑ میں اور این آر او کے تحت ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کی ترغیب سے صدر پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کی مہم شروع کر دی۔ 18 اگست 2008ء کو صدر پرویز مشرف نے مستعفیٰ ہونے سے پہلے قوم سے تاریخی خطاب کیا۔ اس موقع پر پورا ملک افواہ کی زد میں آ گیا کہ صدر پرویز مشرف کو چونکہ بڑی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے اور جنرل اشفاق پرویز کیانی چیف آف آرمی سٹاف ہیں اس لیے پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا جائے گا‘ لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی نے‘ جو این آر او کے ضامنوں میں شامل تھے‘ 14 اگست 2008ء کی رات کو صدر مملکت کے قومی عشائیہ میں شریک ہونے کے بجائے ایبٹ آباد کی کاکول اکیڈیمی میں خطاب کرنے کی نئی روایت ڈال دی۔ اس طرح صدر پرویز مشرف تنہا ہو گئے۔ بالکل اسی طرح جیسے مارچ 1969ء میں گول میز کانفرنس کی کامیابی کے بعد جنرل یحییٰ خان کے دست راست سول انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر این اے رضوی اور مغربی پاکستان کی سپیشل پولیس کے ڈائریکٹر آغا محمد علی خان نے ملک کو خانہ جنگی میں جھونکنے کے لیے صدر ایوب خان کو تنہا کر دیا تھا۔ میرے خیال میں اصولی طور پر جنرل اشفاق پرویز کیانی کو وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ذریعے شٹ آپ کال دینی چاہیے تھی جس کے چند ماہ بعد پرویز مشرف خود ہی اقتدار سے علیحدہ ہو جاتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں