"KDC" (space) message & send to 7575

پرویز مشرف کے خلاف انتقامی سیاست؟

یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ افواجِ پاکستان اس امر پر بے چین ہیں کہ اُن کے سابق چیف آف آرمی سٹاف کے خلاف ہونے والی کارروائی کی زد میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس جرنیلوں پر بھی زد پڑ سکتی ہے اور عوام بھی بے چین ہیں‘ خاص طور پر جب وہ ان (مشرف) کے دور میں پاکستان کی کرنسی کے استحکام کو یاد کرتے ہیں۔ عوام کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کو سزا دینے کا مطالبہ نہیں آرہا۔ بلکہ حکومت کے حمایت یافتہ بعض میڈیا پرسنز افواجِ پاکستان کی تضحیک کر رہے ہیں۔ افواجِ پاکستان کو اپنے ذرائع سے ادراک ہے کہ وہ کن کے اشارے پر پرویز مشرف کی آڑ میں پاک آرمی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔جس طرح کارگل کی جنگ کے دوران ''روگ آرمی‘‘ کے اشتہار اور افواجِ پاکستان پر تنقید کرنے کے لئے بعض افراد کی خدمات حاصل کی گئی تھیں‘ اسی طرح اسی انداز میں پاک آرمی پر جس انداز میں کھلم کھلا تنقید کی جارہی ہے‘ اس کے پس پردہ متعدد افراد کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ چنانچہ وزیراعظم نوازشریف کو یاد رکھنا چاہیے کہ جیسے جیسے یہ مقدمہ آگے بڑھے گا سابق صدر پرویز مشرف کی حمایت میں اضافہ ہو گا اور بہت سے گروہ ان کے لئے میدان میں آ موجودہوں گے۔ سابق صدر پرویز مشرف کی 19رکنی وکلاء کی ٹیم نے عدلیہ کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے کہ وہ آرٹیکل 6کے تحت صرف پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ جب کہ اس کے دیگر معاونین ، جن میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کے علاوہ اعلیٰ فوجی حکام اور پھر ان کے اقدامات کی توثیق کرنے والے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سمیت سپریم کورٹ کے معزز ججز، وزیراعظم شوکت عزیز اور ان کی کابینہ اور مسلم لیگ (ق) کی قیادت جس کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین، چاروں گورنرز، پاکستان کی 2007ء کی پارلیمنٹ جنہوں نے پرویز مشرف کے اقدامات کی توثیق کی تھی‘ سے کوئی باز پرس نہیں ہو رہی ۔
وزیراعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ اور ان کے برادر میاں شہباز شریف کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی بھی وقت ملکی صورتحال اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جو حکومت کو 12اکتوبر1999ء کے مقام پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم کو اپنے نادان دوستوں کے نرغے سے باہر نکلنا ہو گا اور اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے اور اب یکے بعد دیگرے بہت سے بحران پیدا ہو رہے ہیں۔ چنانچہ یہ الزامات اور محاذ آرائی کا وقت نہیں ہے اس وقت عام آدمی کو مایوسی کے اندھیروں سے نکالنا ہو گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے حکومت کو آخری وارننگ دے چکے ہیں اور ان کا 29دسمبر 2013ء کا احتجاجی مارچ بھی حکومت کو مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ 11مئی 2013ء کے انتخابات رفتہ رفتہ متنازعہ حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور الیکشن کمیشن کے ہاں 396انتخابی 
عذرداریاں بھی زیرِسماعت ہیں۔ حکومت کے کسی اقدام سے ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ وہ پارلیمنٹ یا اس سے باہر کوئی ایسی پالیسی بنا رہی ہے جس سے قومی مسائل حل ہو سکیں۔ جنرل پرویز مشرف کو غداری کے ایک متنازعہ مقدمے میں ملوث کر کے افواجِ پاکستان کی غیر جانبداری کے لئے غیر ضروری چیلنج پید اکر دیا گیا ہے۔اٹھارویں ترمیم میں جو اضافہ آرٹیکل 6میں کیا گیا ہے وہ مؤثر بہ ماضی نہیں ہو سکتا۔ 12اکتوبر 1999ء میں جو آرٹیکل تھا اس کے تحت آئین معطل کرنا کوئی جرم نہیں تھا۔ پھر کیا حکومت ناکردہ جرم پر سزا دلوانا چاہتی ہے۔
جسٹس افتخار محمد چوہدری نے 23نومبر2007ء کو نافذ کی گئی ہنگامی حالت کو خلاف آئین قرار دے دیا تھا۔ جب سابق چیف جسٹس‘ جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے خلاف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے جاری کئے گئے توہین عدالت نوٹس کی سماعت ہو گی تو ظاہر ہو جائے گا کہ یہ نام نہاد فیصلہ کسی طرح بھی قانون کے مطابق نہ تھا۔ فیصلہ سنانے سے پہلے نہ حکومت کو نوٹس دیا گیا‘ نہ اس کا مؤقف سنا گیا ، نہ اٹارنی جنرل پیش ہوا ، نہ گواہ ، نہ کوئی شہادت طلب کی گئی ۔ حتیٰ کہ سرے سے کوئی مدعی بھی نہ تھا۔ جج عدالت کا وقت ختم ہونے کے بعد کئی گھنٹے جسٹس افتخار محمد چوہدری کے کمرہ میں بیٹھے رہے اور صرف ہنگامی حالت کے اعلان کی خبر سن کر فیصلہ دے ڈالا۔ اس طرح بند کمرہ میں سازش تو ہو سکتی ہے‘ عدالتی فیصلہ نہیں۔ عدالتی طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ سماعت کرنے والے جج فیصلہ پر دستخط کرنے کے بعد ہی اٹھتے ہیں۔ لیکن فیصلہ کی نقول صرف جسٹس کے دستخط سے عدالت کے باہر کھڑے صحافیوں کو دے دی گئیں۔ سب سے سینئر جج رانا بھگوان داس نے جو کراچی میں تھے‘ 5جنوری 2007ء کو دستخط کئے۔ باقی ججوں نے بھی اس کے بعد دستخط کئے۔ دوسری طرف 3نومبر 2007ء کی رات 8بجے نئے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے اور جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس نواز عباسی، جسٹس جاوید بٹر اور چند دیگر ججوں نے وزیراعظم شوکت عزیز اور ان کی کابینہ‘ وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی ، چیئرمین جوائنٹ سٹاف کمیٹی جنرل طارق مجید کی موجودگی میں حلف اٹھالیا۔ چنانچہ بادی النظر میں 3نومبر کا فیصلہ بعد از مرگ واویلا تھا۔ 
ایگزیکٹو آرڈر کے تحت مقرر کردہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے توہینِ عدالت کے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے 16اعتراضات اٹھائے۔ جس کی سماعت چار سال تک جسٹس افتخار محمد چوہدری کے آخری دن 11دسمبر2013ء تک نہ ہوئی۔ جب 3نومبر2007ء کا ہنگامی حالت کے خلاف فیصلہ سرے سے بے بنیاد تھا تو اس کے تحت غداری کیسے ثابت ہو گی۔ کیا کسی نے ہنگامی حالت کے اعلان کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا؟ اگر کوئی مدعی ہی نہیں تھا تو کیا عدالت اپنے آپ فیصلہ سنا دیتی۔ اور فیصلہ بھی کیا سناتی۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج کیسے کہتے کہ ہنگامی حالت غلط تھی؟ ان کا حلف اٹھانا ہی ہنگامی حالت کی توثیق تھی جو توثیق کے حق میں نہیں تھے انہوں نے حلف نہیں اٹھایا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج نے قرار دیا ہے کہ مقدمہ آرمی ایکٹ کے تحت نہیں چل سکتا۔ فرض کریں کہ کوئی جج کسی جرم میں پائے جاتے ہیں اور حکومت ان کا کیس نیب یا ایف آئی اے کو دینا چاہتی ہے تو جج صاحب فوراً اس کو چیلنج کردیں گے کہ آئین کے آرٹیکل 209کے تحت ان کے خلاف کارروائی صرف سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے تو پھر سابق آرمی چیف کے خلاف کارروائی آرمی ایکٹ کے تحت کیوں نہیں ہو سکتی؟
حکومت نے پرویز مشرف کے اس بیان کی تشہیر سے گریز کیا ہے کہ فوج ان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے خوش نہیں ، پرویز مشرف کے اس بیان کی تردید بھی نہیں کی گئی۔اب اس نام نہاد آئین شکنی کا مقدمہ ایک مذاق بن چکا ہے ۔ فوج بدستور پاکستان کا تیسرا ستون ہے، لہٰذا فوج اپنے سابق چیف آف آرمی سٹاف اور سابق صدر کو سزا ملنے کو برداشت نہیں کر سکتی۔ یقینا انہیں خرابیٔ صحت کی بنیاد پر بیرون ملک بھیجنے کا باعزت طریقہ اختیار کیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں