"KDC" (space) message & send to 7575

دستور پاکستان: چند تاریخی حقائق …(1)

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے 31جولائی 2009ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ''پاکستان میں رائج 1973ء کا آئین، معروف معنوں میں آئین کی تعریف پر پورا نہیں اُترتا، اس لئے اسے آئین نہیں کہا جاسکتا، اسے محض کچھ اَرکان اسمبلی کی جانب سے منظور کیا گیا ایکٹ کہا جاسکتا ہے اور جب یہ آئین ہی نہیں ہے تو پھر اس کی خلاف ورزی سے آئین شکنی کا مقدمہ قائم کیسے کیا جاسکتا ہے؟‘‘ یاد رہے کہ 31جولائی 2009ء کے فیصلے میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 16رکنی بنچ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو 3نومبر2007ء کے اقدام پر غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں بطور آرمی چیف تنہا اس کا ذمہ دارقرار دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف اب دائر کی گئی نظرثانی درخواست پر وکلاء ڈاکٹر خالد رانجھا، صاحبزادہ احمد رضا قصوری، بیرسٹر محمد علی سیف اور راجہ محمد ابراہیم ستی کے دستخط ہیں اور اسے سید ظفر عباس نقوی ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر کیا گیا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے وکلاء نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ''سپریم کورٹ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ موجودہ آئین قانون ساز اسمبلی نے تیار نہیں کیا، بلکہ اسے جنرل یحییٰ خان کے دورِ صدارت میں بننے والی اسمبلی نے بنایا جبکہ جنرل کو اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا جاتا۔ مذکورہ آئین ساز اسمبلی کے مشرقی اور مغربی پاکستان سے 313ارکان منتخب کئے گئے‘ لیکن 1972ء کے عبوری آئین اور 1973ء کے موجودہ آئین کی تشکیل میں اس آئین ساز اسمبلی کے ارکان کی اکثریت شامل ہی نہیں تھی بلکہ اس آئین کو آئین سازاسمبلی کے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی آئین ساز اسمبلی کے ایک حصے نے منظور
کیا اور انہوں نے خود کو قومی اسمبلی قرار دے دیا تھا۔ لہٰذا موجودہ آئین کی حیثیت ایک ایکٹ سے زیادہ کچھ نہیں اور اسے کبھی ایک ایسا آئین نہیں کہا جاسکتا جو کہ عوام کی منشاء پر پورا اترتا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں آئین کے لئے ضروری اجزائے ترکیبی موجود نہیں‘‘۔ سابق صدر پرویز مشرف کے وکلاء نے مزید کہا ہے کہ ''یہ سوالات مکمل طور پر ضیاء الرحمن کیس PLD1973، SC-49 میں بھی اٹھائے گئے تھے اور تب اسے نظریہ ضرورت کے تحت درست قرار دیا گیا تھا‘‘۔ سابق صدر پرویز مشرف کے وکلاء نے کہا ہے کہ ''چونکہ آئین کی تشکیل بجائے خود غیر قانونی عمل کی شکار ہے اس لئے اس سے غداری کا سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اس عمل کو محض اسمبلی کے ایکٹ کی خلاف ورزی ہی کہا جاسکتا ہے‘‘۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کے عوام مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بعد مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے ''نئے پاکستان‘‘ کے نعرے کے سحر میں مبتلا ہو گئے تھے۔ حالانکہ بالواسطہ طور پر جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے صدر اور سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ ایل ایف او کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کیا تھا۔ صدر بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان کی عوام کو نیا پاکستان کا نعرہ دیا۔
آج پُر امن پاکستان کی منزل نہ پانے کی وجہ یہ ہے کہ 1951ء سے لے کر 2013ء تک کے عرصے میں جو انتخابات ہوئے وہ عوام کی سوچ اور جمہوری اصولوں کے عین مطابق نہ تھے؛ چنانچہ ہم ملک میں سیاسی استحکام لانے میں ناکام رہے ۔ پاکستان کے دانشور اور سیاسی قائدین عمومی طور پر 1970ء کے انتخابات کے شفاف ہونے کی مثالیں دیتے ہیں لیکن میں اس سے جزوی طور پر اختلاف رائے رکھتا ہوں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1970ء کے انتخابات مغربی پاکستان میں تو غیر جانبدارانہ رہے‘ لیکن مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ من پسند نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی‘ جس کے نتیجے میں ہم مشرقی پاکستان سے محروم ہو گئے۔ یہ عمل صدر ایوب خان یا صدر سکندر مرزا سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ صدر یحییٰ خان منقسم مینڈیٹ کے لئے کوشاں رہے‘ لیکن شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان میں دھاندلی کے ریکارڈ توڑ کر 163 میں سے 161 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی اور اکثریت میں آ گئے۔ راجہ تری دیورائے اور نور الامین ہی اس انتخابی طوفان میں کھڑے رہ سکے۔ اسی طرح مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں 187نشستوں میں سے شیخ مجیب الرحمن 180حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مجھے حیرانی اس بات کی ہے کہ بہاریوں کے ووٹ کہاں گئے؟ حقیقت یہ ہے کہ بہاریوں کو پولنگ سٹیشن پر آنے ہی نہیں دیا گیا۔
سیاستدانوں کے معصومانہ جمہوری اندازِ فکر کے حوالے سے میں پاکستان کی جمہوری تاریخ کے چند واقعات پر روشنی ڈالنا چاہوں گا کہ ان سیاستدانوں کی سادگی کے بارے میں قوم کی یادداشت جگانا ہی میرا مقصد ہے۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ1951ء میں لیاقت علی خان کی شہادت اور اس سے پہلے آئین ساز اور قانون ساز اسمبلی میں سیاستدانوں کا کردار کیسا رہا؟ بھارت نے اپنی آئین ساز اسمبلی میں 14اگست1947ء سے اپنی قومی ذمہ داری کا آغاز کر کے 26جنوری1951ء کو بھارت کو جمہوریہ مملکت کی حیثیت دی اور ہمارے ہاں آئین ساز اسمبلی کے معزز ارکان ملک غلام محمد اور سکندر مرزا کے ہاتھوں یرغمالی بنے رہے ۔ پہلی دستور ساز اسمبلی کو برطرف کرنے میں سید حسین شہید سہروردی کا درپردہ ہاتھ تھا۔ ملک کی پہلی آئین ساز اسمبلی 1954ء میں مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی کامیابی کے بعد اپنا وجود اور اعتماد کھو بیٹھی تھی۔ اسی طرح 23مارچ 1956ء کا آئین اس صورت میں نافذ کرایا گیا جس میں آئندہ کے انتخابات کے لئے کوئی آئینی اور قانونی فریم ورک ہی موجود نہ تھا۔ بھارت نے جونہی 1951ء میں آئین نافذ کیا تو آئندہ کے انتخابات کے لئے فوری طور پر عوامی نمائندگی ایکٹ51نافذ کر دیا۔ اسی ایکٹ کے تحت آج تک بھارت میں انتخابات کا سلسلہ جاری ہے جب کہ ہم نے بھارت کی پیروی نہیں کی اور اس آئین میں پاکستان کے انتخابی نظام کے حوالے سے پردہ پوشی جاری رکھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو سال تک قانون سازی نہ ہو سکی۔ ملک انتشار، انارکی، بد حالی، مہنگائی اور افراتفری کا شکار ہو گیا اور صدر سکندرمرزا کو مارشل لاء نافذ کرنا پڑا۔
صدر ایوب خان نے گیارہ سال حکومت کی لیکن وہ ملک میں جمہوری اور سیاسی اصلاحات لانے میں ناکام رہے۔ وہی سیاستدان قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان تھے‘ جو صدر ایوب خان سے فوائد حاصل کرتے رہے۔ جونہی ان کا اقتدار ختم ہوا تمام سیاستدانوں نے ان پر الزامات عائد کرنا شروع کردیے۔ عجیب بات یہ ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے 10مارچ1969ء کو ملک میں سیاسی پارلیمان اور انتخابی اصلاحات کے لئے گول میز کانفرنس طلب کی۔ 14مارچ1969ء کو صدر ایوب خان نے گول میز کانفرنس کے شرکاء کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے اور ملک میں صدارتی نظام حکومت سے پارلیمانی جمہوریت، بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات اور آئندہ صدارتی الیکشن سے دستبرداری کا بھی اعلان کر دیا اور اقتداراعلیٰ قومی اسمبلی کے سپیکر عبدالجبار خان کے حوالے کرنے کے لئے 4اپریل 1969ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس ایوب ہال راولپنڈی میں طلب کر لیا۔ متحدہ اپوزیشن کے مطالبات پر مغربی و مشرقی پاکستان کے گورنر تبدیل کر دئیے گئے۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل موسیٰ خان کو تبدیل کر کے یوسف ہارون کو گورنر مغربی پاکستان مقرر کر دیا گیا اور ڈاکٹر مالک مشرقی پاکستان کے گورنر مقرر ہوئے۔ 14مارچ1969ء کو گول میز کانفرنس کی کامیابی پر مولانا مودودی، نواب زادہ نصراللہ خاں، ممتاز محمد خان دولتانہ، چوہدری محمد علی، ائرمارشل اصغر خان، خان ولی خان، شاہ احمد نورانی، نورالامین، مولانا مفتی محمود، شیخ مجیب الرحمن، خان عبدالقیوم خان نے صدر ایوب خان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ایشیاء کا مدبر سیاستدان اور عظیم محبِ وطن قرار دیا۔
(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں