"KDC" (space) message & send to 7575

دستور پاکستان: چند تاریخی حقائق (2)

ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا بھاشانی طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت قومی مفاد پر مبنی اس گول میز کانفرنس سے باہر رہے۔ان رہنمائوں کے بقول انہوں نے ایسا اس لیے کیا کہ صدر ایوب خان پر بیرونی دباؤ ڈال سکیں۔گول میزکانفرنس پر عملدرآمد کرانے کی ذمہ داری متحدہ اپوزیشن پرعائد ہو تی تھی۔ گول میزکانفرنس کے تاریخی اعلامیہ مجریہ 15مارچ1969ء پر تحقیق کرنے کی ذمہ داری ہمارے سیاسی محققین پر عائد ہوتی ہے تاکہ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا سکے۔اِسی دوران ذوالفقار علی بھٹواورشیخ مجیب الرحمن نے ملک کے طاقتورکمانڈرانچیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان سے ملاقات کر کے گول میزکانفرنس کے اعلامیہ کو سبوتاژ کر دیا۔مسٹر بھٹو اورمولانا بھاشانی نے درپردہ جنرل یحییٰ خان کو قائل کر لیا کہ وہ صدر ایوب خان کی طلب کردہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے پہلے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیں۔ لہٰذا جنرل آغا یحییٰ خان نے صدر ایوب خان کے 25مارچ1969ء کو انتقال اقتدار کے منصوبے کو سبوتاژ کر کے ان سے اقتدار سے دستبرداری کی دستاویز حاصل کر لی۔اس مقصد کے لیے انہوں نے جرنیلوں کی طاقت کا سہارا لیا ۔
متحدہ اپوزیشن کے رہنمائوں نے 14مارچ1969ء کو صدر ایوب خان کو مدبر سیاستدان قرار دیا تھا اور اقتدار 4اپریل 1969ء کو سپیکر کے حوالے کرنے کے فیصلے پر مبارک باد پیش کی تھی۔اپوزیشن کے انہی سیاستدانوں نے 26مارچ1969ء کو صدر ایوب خان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کر دیا اور جنرل یحییٰ خان کو پاکستان کا نجات دہندہ کا خطاب دے دیا۔اگر متحدہ اپوزیشن جنرل یحییٰ خان کے اقتدار کو تسلیم نہ کرتی اور 4اپریل1969ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتی تو مشرقی پاکستان کا سانحہ کبھی پیش نہ آتا اور ملک پرامن طریقے سے جمہوری راہ پرگامزن ہوجاتا۔آج تک پاکستان کے سیاستدان، آئینی ماہرین، دانشور اور صحافی ایوب خان پر بھرپور تنقید کر رہے ہیں کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر کو اقتدار کیوں سپرد نہ کیا۔ صدر ایوب خان نے 25مارچ1969ء کو قوم سے درد مندلہجے میں جو خطاب کیا تھا اس میں انہوں نے آگاہ کیا تھا کہ وہ جنرل یحییٰ خان کو ہدایات جاری کرچکے ہیں کہ وہ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں۔اس کا بین السطورمطلب یہ تھا کہ 4اپریل 1969ء کو طلب کردہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کو یقینی بنایاجائے ۔
ہمارے سیاستدانوں کی بے صبری، ویژن کا فقدان، خود غرضی اور سیاسی بصیرت سے محرومی کو دیکھیے کہ انہوں نے جنرل یحییٰ خان کے اقتدار کو فاتحانہ انداز میں تسلیم کر لیا۔ خان عبدالقیوم خان نے جو پاکستان مسلم لیگ (قیوم) کے صدر تھے‘ جنرل یحییٰ خان سے ساز باز کر کے پاکستان مسلم لیگ (کنونشن) کے چارکروڑ روپے منجمدکرا دیے۔ اس حرکت سے پاکستان مسلم لیگ (کنونشن) کے صدر، جرأت مندرہنما اور پاکستان کے عظیم سپوت فضل القادر چودھری مالی طور پر مفلوج ہو گئے ۔
جونہی یحییٰ خان نے مارش لاء آرڈر کے تحت پاکستان مسلم لیگ (کنونشن) کے فنڈز منجمد کیے مشرقی پاکستان میں پاکستانیوں کے حامیوں کی تحریک منجمد ہوکررہ گئی۔ ایس ایم ظفرنے جو پاکستان مسلم لیگ (کنونشن) کے سیکرٹری جنرل تھے‘ عدالتوں سے رجوع کرنے کی کوشش کی لیکن ان کو عدالتوں سے ریلیف نہ مل سکا اس لیے کہ مارشل لاء آرڈر کو عدالت میں چیلنج نہیں کیاجاسکتا تھا۔
1972ء کے اوائل میں محترمہ عاصمہ جیلانی نے اپنے والد ملک غلام جیلانی کی نظر بندی کو چیلنج کرتے ہوئے اور ادھر الطاف گوہر نے مارشل لاء آرڈر کے تحت اپنی گرفتاری اورذوالفقار علی بھٹو کو غیر آئینی طور پر اقتدار منتقل کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائرکر دی۔ الطاف گوہر نے سپریم کورٹ میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا وہ سرکاری خط بھی پیش کر دیا جس میں بطور صدرانہوں نے جنرل یحییٰ خان کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ ملک میں اقتدار کی منتقلی کے لیے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں۔ الطاف گوہر کا موقف یہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹوکو اقتدار غیر آئینی طور پر منتقل کیا گیا تھااس لیے 25مارچ1969ء کی آئینی پوزیشن بحال کر کے ملک میں ازسرنو انتخابات کرائے جائیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان حمود الرحمن نے مجھے 15جون 1975ء کو بتایا تھا کہ ان کا فل کورٹ بنچ اس اہم نکتہ پر قائل ہو چکاہے،لیکن ملک کی صورتِ حال دیکھتے ہوئے عدالت نے صدریحییٰ خان کے 25مارچ1969ء کے اقدام کو غاصب قرار دینے پر اکتفاء کیااور نظریہ ضرورت کا سہارا لیتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کوبیل آئوٹ کرد یا۔ 
28دسمبر2008ء کو بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن کی دعوت پر وہاں عام انتخابات کے مشاہدے کے دوران مجھے عوامی لیگ کے سرکردہ بزرگ سیاستدانوں اور شیخ مجیب الرحمن کے معتمد خصوصی اور اکابرین سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ان ملاقاتوں کے دوران شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی۔ مجیب الرحمن کے چھ نکات کے حوالے سے اہم انکشاف کرتے ہوئے ان رہنمائوں نے بتایا کہ پاکستان کے قیام سے پہلے ہندوستان کے مسلمانوں میں یہ تشویش پیدا ہوئی کہ بھارتی مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کیسے کی جائے گی ۔اس سلسلے میں چودھری خلیق الزماںاور سید حسین شہید سہروردی کی تجویز یہ تھی کہ بنگال کو ایک علیحدہ مملکت بنایا جائے۔ اس سلسلے میں بنگال کی کانگرس کے سرکردہ رہنمائوں نے ان سے ملاقات کی اور بنگال کی تقسیم کے خلاف رائے ہموار کرنے اور بنگال کو آزاد مملکت بنانے کی تجویز پر اتفاق ہوا۔
جب قائداعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کے قائدین کو سہروردی کی اس خواہش کا علم ہوا تو انہوں نے اس کی بھرپور مذمت کی اور 9جون 1947ء کے اُس اہم اجلاس سے جس میں تقسیم ہند کے پلان کی منظور کے لیے غورکرنا مقصود تھا‘ سہروردی کو اظہارِ خیال کی اجازت نہیں دی گئی۔اس اجلاس کی صدارت خود قائداعظم کر رہے تھے۔ سہروردی کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ موصوف بنگال کی علیحدہ مملکت کا مطالبہ کرتے ہوئے 3جون1947ء کی تقسیمِ ہند کے منصوبے کو سبوتاژکریں گے۔قائد اعظم کو سہروردی کی بنگال کو علیحدہ مملکت بنانے کی سوچ پرشدید صدمہ پہنچا۔ بعد ازاں سہروردی نے چودھری خلیق الزماں سے رابطہ کر کے بنگال کو علیحدہ مملکت بنانے کی کوشش جاری رکھی، لیکن آل انڈیا کانگرس کے رہنمائوںنے ان کے اس تصورکو مسترد کر دیا اورسہروردی بادل ناخواستہ پاکستان آگئے۔
سہروردی نے‘ اسی منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے 1957ء میں‘ جب انہیں ملکہ الزبتھ کی سفارش پروزارتِ عظمیٰ سے برطرف کیا گیا‘مشرقی پاکستان کے دانشوروں، پروفیسروں اور سیاسی رہنماؤں کے تعاون سے مشرقی پاکستان کو علیحدہ مملکت بنانے کے عمل کے لیے چھ نکات پر مبنی ایجنڈا تیار کروایا اور اس کی تکمیل کے لیے ان کی نظر شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کے دیگر اہم رہنمائوں پر پڑی۔ 6ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے لاہور میں متحدہ اپوزیشن کے اجلاس میں چھ نکات کا ایجنڈا پیش کر کے ملکی سالمیت کو چیلنج کر دیا۔ ہمارے سیاستدانوں، دانشوروں اور ممتاز صحافیوں کو ان نکات کے بارے میں تحقیق کر کے قوم کوحقائق سے آگاہ کرناچاہیے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں