"KDC" (space) message & send to 7575

چار رتنوں کے سحر سے نکلیں!

جب کسی اہم اور حساس ادارے سے تعلق رکھنے والی کوئی شخصیت آزمائش میں ہو تو اس پر رائے زنی کرتے ہوئے بڑے محتاط الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے۔ بلاول زرداری نے جنرل پرویز مشرف کے دل کی بیماری پر جو تضحیک آمیز تبصرہ کیا ، وہ قابل افسوس ہے۔ اسی طرح جناب آصف علی زرداری نے بلّے کی مثال دے کر محسن کشی اور بدذوقی کا ثبوت دیا ہے ۔ اچھے بُرے دنوں کے آنے جانے اوراقتدارکی ڈھلتی دھوپ چھائوں سے ہمارے حکمرانوں کو سبق سیکھنا چاہیے، سیاست دانوں اور سول حکمرانوں کے لیے ان و اقعات میں بڑا سبق ہے۔
سعودی مزاج یہ ہے کہ وہ اپنے محسن کے احسان کا ایک بار تو بدلہ ضرور چکاتے ہیں۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے سعودی حکمرانوں کے مفادات کی جس طرح بین الاقوامی سطح پر لابنگ کی ‘اس کے اعتراف کے اہم خطوط صدر پرویز مشرف کے ذاتی ریکارڈ میں موجود ہیں۔حکمرانوں کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ قانون کی نگاہ میں سب سے برابر ہیں، لیکن الیکشن کمیشن، نیب، فیڈرل بیورو ریونیو اور سٹیٹ بینک اور اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ‘ کمیشن کی رپورٹ تو ملاحظہ فرمائیں۔ قانون کی حکمرانی کی بات کرنے والے اس ملک کے سب سے بڑے بینک نادہندگان ہیں اور ٹیکس نہیں دیتے اور مبینہ طور پر 2008ء کے انتخابات میں جسٹس قاضی محمد فاروق کو آئینی طور پر اہم شخصیات کے کاغذات نامزدگی منظور کرنے پڑے۔ اگر دونوں بڑی سیاسی شخصیات اپنے دلائل چیف الیکشن کمشنر کو پیش کر دیتیں کہ مسٹر آصف علی زرداری این آر او سے مستفید ہو کر مقدمات سے بری الذمہ ہوئے ہیں اور ان کو اسی بنا پر ان کے کاغذات پر اعتراض ہے تو جب جولائی 2010ء میں سابق جسٹس افتخار محمد چوہدری نے این آر او کو کالعدم قرار دے کر سید یوسف رضا گیلانی کو طلب کرنے کا حکم دیا‘اسی لمحے زرداری صاحب کے کاغذات نامزدگی پر اعتراضات کی فائل بھی کھل جاتی اور وہ صدارت سے محروم ہو جاتے۔ اگر اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو موجودہ اور سابق حکمران سیاست سے باہر کسی عدالت میں مقدمات بھگت رہے ہوتے۔ اگر زرداری صاحب کے صدارتی انتخابات کے موقع پر میاں شہباز شریف اور مشاہد حسین سید بین الاقوامی آئینی امور کے ماہر ڈاکٹر فاروق حسن کی خدمات حاصل کر لیتے تو جناب زرداری کے کاغذات مسترد ہونے کے امکانات موجود تھے‘ لیکن ان دونوں شخصیات نے زرداری صاحب کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے موقع پر چیف الیکشن کمشنر جسٹس قاضی محمدفاروق کے روبرو کھڑے ہوکر ارشاد فرمایا کہ انہیں زرداری صاحب کے صدارتی کاغذات نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو درپیش تمام مسائل کو پسِ پشت میں ڈال دیا ہے۔ اگر وزیراعظم نوازشریف کو قانون کی بالادستی پر یقین ہے اور وہ ماضی سے جان چھڑانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر یہ بھی بتا دیا جائے کہ جب ملک کے چیف آف آرمی سٹاف کے طیارے کو کراچی اترنے سے اجازت دینے سے انکار کیا گیا تھا تو اس کے مضمرات کیا ہو سکتے تھے؟ ملک کی پارلیمانی سیاسی جماعتیں ہرگز عوام دوست نہیں۔ انہوں نے شعوری طور پر ذاتی مفاد پر مبنی ایسا نظام تشکیل دے رکھا ہے جس میں انتخابات ان کے مجموعی روایتی سیاسی مزاج کے مطابق آئینی و قانونی پابندیوں سے آزاد ہوتے ہیں۔ 11مئی 2013ء کے انتخابات کے نتائج کو عوام نے آٹھ ماہ کے بعد محسوس کر لیا کہ اُن کے ساتھ انتخابی مذاق کا گھنائو نا کھیل کھیلا گیا۔ اپوزیشن میں موجود جماعتیں نتائج آنے پر انتخابی بے قاعدگیوں، جعل سازیوں اور انتخابی دھاندلیوں کے خلاف کچھ دن احتجاج کرتی رہیں، اس کے بعد ان کی احتجاجی ہمت ختم ہو گئی اور انہوں نے نام نہاد جمہوریت کے نام پر انتخابی نتائج تسلیم کرلیے۔ یہ جمہوریت بچائو نہیں مفادات بچائو کاتسلسل ہے۔ 
11مئی 2013ء کے انتخابات کے نتائج کے حوالے سے‘ لگتا ہے کہ عمران خان کے لیے بھی یہی نظام مفید ہے‘ اسی لیے بطور اپوزیشن رہنما وہ میاں نوازشریف کی حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھے ہوئے ہیں اور شعوری یا لا شعوری طور پر عوامی مفادات کے خلاف میاںنوازشریف کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ ایسے ہی طرزِ حکومت اور طریقہ کار نے بیمار جمہوریت کو فروغ دیا تھا‘ جس کی بنا پر 12اکتوبر 1999ء کا سانحہ پیش آیا۔ 
1988ء‘ 1999ء اور پھر 2008ء کے ادوارِ حکومت دیکھیں تو یہ انتخابی معرکے بڑے المناک ہیں۔ آزمائش کا ایک دور مکمل ہو چکا‘ دوسرا جاری ہے۔ پہلا دور بد ترین ثابت ہوا‘ ان انتخابات میں کامیاب ہونے والے حکمرانوں نے ملکی اداروں میں لوٹ مار کر کے انہیں تباہ و برباد کیا۔ این آر او سے بحال ہونے والوں کی حکمرانی کے دوران کروڑوں کے مالیاتی سکینڈلز اربوں اور کھربوں تک پہنچ گئے۔ حاجیوں تک کو نہیں بخشا گیا، ان سے بھی 25ارب لوٹ لیے گئے۔ حکمرانوں نے کرپشن‘ انتظامی اور دھونس دھاندلی کی انتہا کردی۔ سزا پانے اور قدرتی انجام سے دو چار ہونے کے بعد بھی عوام خود کو ان کے چنگل سے باہر نہ نکال سکے اور قدرت نے ان کی رسی پھر دراز کی ‘ چنانچہ غیر جمہوری اقدامات جاری و ساری رہے۔
بھارت کے بجائے افغانستان ہماری خارجہ پالیسی کے لیے‘ ہمیشہ اہم چیلنج رہا ہے۔ جب اس سال امریکی افواج افغانستان سے اپنا انخلا مکمل کریں گی تو طالبان کی واپسی یقینی ہے‘ خاص طور پر اس صورت میں جب اگلے صدارتی انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور اس کے نتیجہ میں طالبان مخالف قوتوں کی کشمکش شروع ہو گئی تو طالبان مزید تقویت پا جائیں گے۔ افغان فوج ان جنگجوئوں کے سامنے خاص مزاحمت نہیں کر پائے گی؛ چنانچہ افغانستان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان کے سرحدی صوبوں میں آجائیں گے۔ وہ صورتِ حال پاکستانی طالبان کے لیے بھی سازگار ہوگی۔ وہ القاعدہ اور افغان طالبان کے ساتھ مل کر حکمت عملی بنائیں گے۔ اس وقت ان انتہا پسند قوتوں سے نمٹنا کم ازکم پاکستان کے لیے ناممکن ہو جائے گا۔ یہ حکومت کے لیے بھی ایک آزمائش ہے کہ وہ عدلیہ اور دفاعی اداروں کے ساتھ مل کر کس طرح چلتی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے کم و بیش وہی چاررتن ان کے اردگرد ہیں جو 12اکتوبر 1999ء میں تھے اور تصادم کرانے میں پیش پیش تھے جس کے نتیجہ میں نواز شریف اقتدار سے محروم ہوئے اور جلا وطنی کا سانحہ پیش آیا۔ بہتر ہو گا کہ نواز شریف ان کے حصار سے باہر نکلیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں