"KDC" (space) message & send to 7575

غیر ملکی قوتیں اور وزیرستان

پاکستان ملکی اور بین الاقوامی حکمتِ عملی میں گھر کر نہ صرف اپنا وجود خطرے میں ڈال چکا بلکہ فرقہ واریت کے نقصانات اور مسائل کی سنگینی کا سامنا بھی کر رہا ہے۔ مسلم اکثریت کے حامل ممالک کو ماضی میں بھی اور حالیہ تاریخ میں بھی بیرونی طاقتوں کی طرف سے استعمال کی گئی ایسی شاطرانہ چالوں کا سامنا کرنا پڑا‘ جن میں مسلکی اختلاف کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا اور نتیجہ میں پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک عدم استحکام سے دو چار ہو کر عملی طور پر امریکہ کی مرضی کے تابع ہو چکے ہیں‘ اسی باعث پاکستان میں فرقہ وارانہ اختلافات بڑھانے کی کوششوں میں شدت آگئی ہے اور اِسی پسِ منظر میں ایک اہم عرب ملک کے حکمرانوں کی پالیسیوں پر شدید تنقید ہو رہی ہے اور ان کے مسلکی نقطہ نظر کو پاکستان میں پراکسی وار کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ یورپی یونین کے فنڈز سے مالی امداد وصول کرنے والے ایسے دانشوروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جن کا مذہبی گھرانوں سے گہرا تعلق ہے اور ان کے آبائو اجداد کے پرستاروں کی پاکستان میں کمی نہیں۔ انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی 11اگست 1947ء کو بطور صدر آئین ساز اسمبلی سے خطاب کی آڑ میں پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے کے لئے حکومتی سرپرستی میں اپنے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔
موجودہ حکومت کو بلا شبہ بہت سے سنگین چیلنجوں اور مشکلات کا سامنا ہے‘ مگر قیادت میں تدبر کے فقدان اور آزمائشوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے وفاق کی یک جہتی خطرے میں پڑ چکی ہے۔پاکستان مذہبی، لسانی اور ثقافتی طور پر متنوع ملک ہے۔ اس پر کسی ایک گروہ کی نظریاتی فکر مسلط کرنے سے خطے اور عالمی سطح پر نیا باب کھل جائے گا۔ افغانستان اور پاکستان کے شدت پسندوں سے کسی مفروضہ معاہدہ کے باوجود پاکستان کی مشکلات ختم نہیں ہوں گی کیونکہ یہ شدت پسند رہنما‘ جنہیں پاکستان کی ایک آدھ کے سوا بیشتر دینی و مذہبی جماعتوں کا تعاون حاصل ہے‘ مشرقِ وسطیٰ کے بعض ممالک کی حکومتوں سے مذاکرات کو اپنی کامیابی کا ضامن گردانتے ہوئے مطالبات کا دائرہ وسیع کرتے جائیں گے کیونکہ پاکستان کی ریاست سے کوئی بامقصد معاہدہ شدت پسندوں کے نظریاتی مقاصد سے متصادم ہوگا۔ ان کا حقیقی مقصد پاکستان میں قدم جما کر صوبہ خیبر پختون خوا کے حساس علاقوں وزیرستان اور افغانستان سے ملحقہ صوبہ پر مشتمل علیحدہ مملکت کا قیام ہے۔ اس نئی مملکت کی سرحدیں ژوب تک پھیلانے کے لیے حکمت عملی تیار کی جائے گی‘ جبکہ چین کے مسلمان صوبے سنکیانگ میں جاری انتہا پسندی کی کارروائی کے لیے امریکہ‘ پاکستان کے مذہبی رہنمائوں کے رویے سے مایوسی کے بعد‘ افغانستان کے نوجوانوں کی ایک کھیپ تیار کررہا ہے اور ان کی ٹریننگ کا انتظام بھارتی ریٹائرڈ جنرل کے حوالے کر رکھا ہے۔ وہ چین میں تخریبی کارروائی کر رہے ہیں جبکہ گرفتار ہونے کی صورت میں پاکستان کے نام نہاد طالبان کا نام لیا جا رہا ہے اور میڈیا کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کا ہتھیار بروئے کار لایا جا رہا ہے۔
مذہب کے نام پر پاکستان پر بالادستی کے خواہش مندگروہوں نے‘ جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دورِ حکومت اور بعدازاں میاں نواز شریف کی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران آئینی ، سماجی اور سیاسی ڈھانچے میں اپنے استحقاق سے زیادہ حصہ وصول کیا ہے۔ ان گروہوں نے تحریکِ پاکستان کے دوران پاکستان کے قیام کی شدید مخالفت کی تھی اور آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنمائوں کی تضحیک کرتے رہے تھے۔ 14اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو یہی گروہ پاکستان میں وارد ہو گئے اور قائداعظم محمد علی جناح کے تصورِ پاکستان کو پس پشت ڈال کر پاکستان کی سیاست میں سرگرم ہو گئے۔ اصولاً ان گروہوں کو سرکاری طور پر ''مرتدینِ پاکستان‘‘ قرار دینا چاہیے تھا اور بنگلہ دیش کی طرح انہیں انتخابات کے لیے ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دینا چاہیے تھا۔ انہی گروہوں نے قائداعظم محمد علی جناح اور قائدِ ملت لیاقت علی خان کی گراں قدر خدمات کو گہنانے کے لیے پنجاب کے دانشوروں، صحافیوں اور سیاستدانوں کے ذریعے پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کو ملت کے پاسبان قرار دے کر ان کے بت تراشنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس مکتب فکر کو 1970ء کے انتخابات میں عبرت ناک شکست ہوئی تو انہی لوگوں نے شیخ مجیب الرحمن کو غدار ثابت کرنے کے لیے اپنے میڈیائی ذرائع کو استعمال کر کے مغربی پاکستان کے عوام کے ذہن پراگندہ کیے اور پھر افواج پاکستان کو مشرقی پاکستان کے عوام سے نالاں اور بیزار کر کے اپنے مکروہ عزائم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مذہبی قوتوں نے 5جولائی 1977ء کے مارشل لاء کی کھل کر حمایت کی اور اکتوبر1977ء میں آئین میں امتیازی قوانین اور انتخابی قوانین میں یک طرفہ ترامیم کر کے 1973ء کے حقیقی آئین کی روح کو ہی ختم کر دیا۔ حیرانی ہے کہ جو آئینی ترامیم جنرل ضیاء الحق نے 8ویں ترمیم کی آڑ میں کی تھیں، انہیں آنے والی تمام حکومتوں نے برقرار رکھا اور پھر جنرل پرویز مشرف نے سترہویں ترمیم کے ذریعے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ہی تبدیل کر دیا۔ جنرل مشرف کی 18ویں ترمیم کے ذریعے تمام آئینی ادارے حکومت کے تابع ہوتے گئے۔ اسی گروہ کو پاکستان پر انتخابی ، سیاسی بالادستی مل گئی۔ یہی وجہ ہے کہ عوام‘ حکمران اور معاشرے کے مختلف سٹیک ہولڈروں میں باہمی اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ریاست کی عمل داری کمزور ہو رہی ہے۔ اسلام آباد سمیت چاروں صوبائی دارالحکومتوں کوایک جیسے خطرات کا سامنا ہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں تشدد کے پھیلائو نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے امن و امان کے مسائل کے ساتھ ریاست کی عمل داری کے لئے بھی سنگین چیلنجز پیدا کر دیے ہیں اور ایسے بحران سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکمرانوں میں مطلوبہ صلاحیت ہی نہیں۔ ان کے ہر فیصلے کے پیچھے سیاسی مفادات ہوتے ہیں۔ 11مئی 2013ء کے نتائج پر عمران خان صحیح قدم اٹھانے میں ناکام رہے اور ان کے مغربی مفاد پرست حامیوں نے‘ جو اندرونی طور پر نواز حکومت سے خفیہ ڈیل کر چکے تھے‘ عمران خان کے راست قدم اٹھانے میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور انہیں بند گلی میں کھڑا کر دیا۔ اب قوم تیسری سیاسی قوت کی منتظر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں