"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات اورمردم شماری

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات کا نوٹیفیکیشن دسمبر2013ء میں جاری کیا گیا۔بعد ازاں انتخابی شیڈول واپس لے لیا گیا اور انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے موخر ہوگئے۔پہلے سابق چیف جسٹس کے دبائو پرسندھ میں 27نومبر اور پنجاب میں 7دسمبر 2013ء کی تاریخیں مقرر کی گئیں اور دونوں صوبائی حکومتوں نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ ان تاریخوں پربلدیاتی انتخابات کرانے کی پوزیشن میں ہیں۔الیکشن کمیشن نے بھی توہینِ عدالت سے بچنے کے لیے ان تاریخوں پر اتفاق کر لیا۔ بعد میں پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد کی سفارش پران میں توسیع کر کے دونوں صوبوں کے لیے بالترتیب 18جنوری اور 30جنوری 2014ء کی تاریخیں مقرر کی گئیں جبکہ صوبہ خیبر پختون خوا، اسلام آباد اور کنٹونمنٹس کے لیے 28فروری 2014ء کی حتمی تاریخیں مقررہوئیں۔الیکشن کمیشن نے 8جنوری کو تیسری بار سندھ میں 23فروری اور پنجاب میں 13مارچ 2014ء کی نئی تاریخیں تجویز کیں؛ تاہم الیکشن کمیشن نے 6جنوری کو عدالت عظمیٰ کو سندھ اور پنجاب میں18اور30جنوری کویہ انتخابات منعقد کرانے کے بارے میں اپنی معذوری سے آگاہ کردیا اور اس سے نئی رہنمائی طلب کی۔ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دینے اور دونوں صوبائی حکومتوں کے تیار کردہ بلدیاتی ایکٹ کو خلاف قانون و آئین قرار دینے کے فیصلوں کے بعد مقررہ تاریخوں پر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ اس حوالے سے نئی قانون سازی، نئی حلقہ بندیوں اور بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے درکار وقت سمیت کئی اہم امور پر اپنی گزارشات پیش کی گئیں؛چنانچہ 13جنوری 2014ء کی سماعت کے دوران عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کو سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے پرانا الیکشن شیڈول منسوخ کر کے نیا شیڈول جاری کرنے کی منظوری دے دی۔ اس پس منظر میں محسوس ہو رہا تھا کہ نیا انتخابی شیڈول اب طویل عرصے کے لیے موخر ہوگیا ہے۔ 
یہ قانونی جواز بادی النظر میں درست نہیں کیونکہ آئین کے آرٹیکل 224کے تحت مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں قومی انتخابات سے منسلک ہیں ، بلدیاتی اداروں کے ضمن میں آئین کی 18ویں ترمیم خاموش ہے۔ بلدیاتی اداروں کی تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار یونین کونسلز کے لیے حلقہ بندیوں کا مردم شماری سے کوئی تعلق نہیں اورالیکشن کمیشن اس طرح کی پیچیدہ حلقہ بندیوں کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت سے بھی محروم ہے۔
میں نے اپنے سابق تجربے کی روشنی میں گورنر پنجاب ، وفاقی وزیر خزانہ ، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ، وفاقی وزیر داخلہ ، وزیراعظم کے پولیٹکل سیکرٹری اور وزیراعظم کے معاون خصوصی کو ستمبراوراکتوبر کے اوائل میں خطوط لکھے تھے کہ صوبائی حکومتیں جو بلدیاتی ایکٹ تیارکر رہی ہیں وہ حلقہ بندیوں کے مسلمہ رہنما اصولوں کے منافی اور بنیادی حقوق سے متصادم ہے، اس لیے امکان ہے کہ سندھ اور لاہور ہائی کورٹس انہیں کالعدم قرار دے دیں گی جس سے بلدیاتی انتخابات غیر معینہ عرصہ کے لیے موخر ہونے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔ میری تجویز پر سوائے معاون خواجہ ظہیر کے کسی بھی بااثر شخصیت نے دھیان نہیں دیا کیونکہ اس طرح کی قانون سازی کرنا اور حلقہ بندیوں میں گھپلے کرنا ان کے ایجنڈے کا حصہ تھا۔
اب مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کے لیے یہ طریقہ کار بتایا گیا ہے کہ پہلے قانون سازی اور مردم شماری ہو گی، پھر حلقہ بندیاں ہوں گی اور اس کے بعد الیکشن کا شیڈول جاری کرنے کے لیے صوبائی حکومتوں سے مشاورت کی جائے گی۔میرا موقف یہ ہے کہ کئی دوسرے جمہوری ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مقامی حکومتوں کے لیے انتخابات کا واضح نظام تاریخوں کے ساتھ متعین کیا جانا چاہیے تاکہ حکومتیں انتخابات کرانے کے عمل میں رکاوٹیں نہ ڈال سکیں۔
انتخابی عمل کے ریکارڈ کی درستگی کے لیے قارئین کو آگاہ کررہا ہوں کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کرانا ہی نہیں چاہتی تھیں ۔ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں میں بیورو کریسی کے باکمال لوگ موجود ہیں جو ہوا کے رخ کو سمجھنے اور اس کے مطابق کام کرنے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایسی حلقہ بندیاں کیں جس پر ہزاروں اعتراضات داخل ہو گئے اور ساڑھے تین سو کے قریب افراد نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ پنجاب میں حلقہ بندیوں کا کام بھی آخر تک موخر رہا۔ حکومت کی دلچسپی کا یہ حال ہے کہ لاہور میں وزیراعلیٰ کے دونوں صوبائی حلقوں پی پی 159اور پی پی 161کی تقریباً 25یونین کونسلوں کی حلقہ بندی عدالتی حکم تک ہوئی ہی نہیں تھی۔ ان تمام عوامل کا منطقی نتیجہ انتخابات کے التوا کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ 
بلدیاتی انتخابات کے التوا کا فوری طور پر پنجاب میں حکومت کو فائدہ اور اپوزیشن جماعتوں کو نقصان ہوا۔ حکومت کا فائدہ تو یہ ہے کہ عام انتخابات کے آٹھ ماہ بعد مسلم لیگ (ن) کے لیے پنجاب میں ایسے نتائج قطعاً قابل قبول نہ تھے جن میں اسے کسی بھی شہر سے شکست کا سامنا ہو اور اس کا بلدیاتی مینڈیٹ چیلنج ہو جائے۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف جو بڑی انتخابی مہم چلائی تھی وہ ماند پڑ گئی۔ 
پاکستان کا عام شہری امریکی اخبار ''وال سٹریٹ جرنل‘‘ کی گزشتہ سال کی اس رپورٹ کو کیسے برداشت کرے گا کہ 423پاکستانی اکائونٹس ہولڈرز کے 83کھرب تو صرف سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں محفوظ ہیں جبکہ کئی دوسرے ممالک میں بھی پاکستانیوں کے خفیہ اکائونٹس موجود ہیں۔ ہمارے موجودہ اور سابق حکمرانوں نے لندن ، دوبئی، ٹیکساس اور ٹورنٹو (کینیڈا) میں محلات اور ہزاروں ایکڑ پر مشتمل زرعی فارم خرید رکھے ہیں۔ 
وزیراعظم نواز شریف سے قوم پوچھ رہی ہے کہ کیاملک کے وسائل لوٹ کر بیرون ممالک میں خزانے قائم کرنے والے سیاستدان غدار نہیں؟لیکن ان کا احتساب موجودہ حکمرانوں سے کرانا ناممکن ہے۔ سابق صدر اور وزیراعظم جنہوں نے لندن ، دوبئی اور عمان میں اربوں روپے کی جائدادیں بنا رکھی ہیں کیا ان کو آرٹیکل 62اور 63کے تحت پاکستان کی سیاست میں حصہ لینا زیب دیتا ہے؟
اب بھی سٹیل مل، پی آئی اے، پاکستان ریلوے، پاکستان پوسٹ، سوئی ناردرن و سدرن اور اوگرا جیسے کھربوں روپے مالیت کے قومی اثاثوں کی جو بے رحمانہ نج کاری ہورہی ہے جس کی بنیاد پر ڈاکٹر طاہر القادری عوامی انقلاب برپا کرنے کا اعلان کر رہے ہیں، اس سے حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔یہ انقلاب سینیٹر پرویز رشید کی مٹھاس بھری گفتگو سے تھمتا نظرنہیں آرہا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں