"KDC" (space) message & send to 7575

مذاکرات کا مستقبل

طالبان سے حتمی مذاکرات کے لیے وزیراعظم نواز شریف نے چار رکنی کمیٹی مقرر کر دی ہے جو مذاکراتی عمل کو آگے بڑھائے گی۔ میر ی ناقص رائے میں وزیراعظم نواز شریف نے یہ کمیٹی تشکیل دے کر پارلیمنٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ اِسی لیے شنید ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بنائی گئی کمیٹی کے حوالے سے ناراض ہیں۔ ملک کے مستقبل کے حوالے سے تعلق رکھنے والے دانشور، قانون دان، سیاسی ماہرین اور پارلیمانی نظام کو مضبوط و مستحکم دیکھنے والے سیاسی رہنما، طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس نقطے پر زور دے رہے ہیں کہ انتہا پسندوں سے بات چیت کو بامقصد بنانے کے لیے چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی مشاورت سے بااختیار پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے تھی اور باقاعدہ ایجنڈا اور وقت کا تعین کرنا از بس ضروری تھا۔ چونکہ ایسا نہیں کیا گیا تو جس طرح ماضی میں اس نوع کی متعدد کوششیں بے نتیجہ اور بے ثمر ثابت ہوئی ہیں اسی طرح نئی کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ 
اصولی طور پر کسی بھی متحارب گروہ سے بات چیت کر کے مسائل کا حل تلاش کرنے سے کوئی بھی محب وطن پاکستانی انکار نہیں کر سکتا، کیونکہ دینی مدرسوں سے تعلیم یافتہ طالبان سے تمام تصفیہ طلب امور کا حل افہام و تفہیم کے ذریعے تلاش کرنے سے گریز کرنا پاکستان کے معروضی حالات کے تحت دانش مندی کی ذیل میں نہیں آتا۔ لیکن اس راہ میں کئی مشکلات حائل ہیں۔ پہلی یہ کہ افغان طالبان اور نیٹو فورسز کے بلیک واٹرز پر مشتمل گروہوں کو الگ الگ کرنا ہوگا۔ اسی طرح طالبان بظاہر ایک منظم گروہ دکھائی دیتے ہیں لیکن عملی طو رپر 36سے 60تک مختلف چھوٹے چھوٹے گروہوں اور تنظیموں میں منقسم ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا الگ ایجنڈا اور الگ کمانڈر ہے اور کئی صورتوں میں اہداف بھی ایک دوسرے سے کافی حد تک مختلف ہیں۔ اس صورتحال میں یہ واضح ہونا چاہیے کہ کن لیڈروں اور گروہوں سے کیے گئے معاہدے زیادہ مؤثر ہوں گے اور تمام یا بیشتر گروپ ان کی پابندی کریں گے۔ علاوہ ازیں مذاکرات کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے باضابطہ طور پر ٹائم فریم بھی مقرر کیا جائے؟ کیونکہ کسی بھی قسم کے مذاکرات کو غیر متعین عرصہ تک جاری نہیں رکھا جاسکتا جبکہ موجودہ کمیٹی بامقصد اور قومی مفاد پر مبنی مذاکرات کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ 
موجودہ صورتحال میں یوں نظر آرہا ہے کہ چار رکنی کمیٹی بھٹو اور سورن سنگھ مذاکرات کا منظر پیش کرے گی‘ جنہوں نے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو اور صدر ایوب خان کی باہمی رضامندی سے کشمیر کے مسئلہ کے دائمی حل کے لیے مذاکرات کا طویل سلسلہ شروع کیا تھا اور جو بعدازاں 6ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ کا پیش خیمہ بنے۔ لہٰذا اس کمیٹی کے ذریعے امن کی راہ ہموار ہوتی نظر نہیں آتی‘ صرف بے چینی، انتشار اور بے یقینی پھیلے گی اور اس افراتفری کا فائدہ طالبان ہی اٹھائیں گے۔ یوں لگتا ہے کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی یہ کوششیں زیادہ ثمر بار نہیں ہوں گی اور حیرت ہے کہ ان دنوں ملک کے وزیردفاع اپنی مصروفیات کے سبب سائوتھ افریقہ اور امریکہ کے دورے پر ہیں۔ 
وزیراعظم نوازشریف طالبان کے خلاف طبل جنگ بجانے سے گریزاں ہیں کیونکہ زمینی حقائق بہت تلخ ہیں۔ بادی النظر میں 
وفاقی حکومت وزیرستان اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں فوجی آپریشن کرتی ہے تو اس کے بھیانک نتائج بلوچستان اور جنوبی پنجاب تک پھیل جانے کا قوی امکان ہے۔ جب پختونوں کا خون بہایا جائے گا تو بلوچستان کے پختونوں میں اشتعال پھیلے گا اور پختون خوا ملّی پارٹی کو وفاق اور صوبے میں اتحاد پر نظر ثانی کرنی پڑے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں بلوچستان کی حکومت سے دستبردار ہونا پڑے کیونکہ پختون خوا ملّی پارٹی کا مستقبل بلوچستان کے پختون علاقوں سے وابستہ ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے مذاکرات کی ناکامی کے بعد فوجی آپریشن شروع کیا تو طالبان جنوبی اور شمالی پنجاب میں اپنی خون ریز کارروائیاں شروع کر دیں گے‘ اس لیے پنجاب کی حکومت نے دہشت گردی کے انسداد کے لیے بھرپور تیاری شروع کر دی ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ طالبان سرکاری دفاتر اور حساس جگہوں کو ہدف بنا سکتے ہیں۔ طالبان کے راولپنڈی اور اسلام آباد کے قریبی علاقوں میں محفوظ ٹھکانے موجود ہیں اور پنجاب کے دیہی علاقوں میں فرقہ وارانہ تنظیمیں بڑی فعال ہیں۔ جبکہ پنجاب پولیس میں 
تربیت اور لیڈرشپ کا فقدان ہے اور لال مسجد کے آپریشن کے نتائج جس طرح سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف بھگت رہے ہیں‘اس کے پیش نظر بڑا ایکشن نہیں ہو گا۔ 
وزیراعظم نوازشریف کو احساس ہونا چاہیے کہ بین الاقوامی حکمتِ عملی کے تحت القاعدہ اور افغان طالبان میں اشتراک ہو چکا ہے۔ اس وقت جنوبی پنجا ب میں موجود انتہا پسند عناصر بلوچستان اور کراچی کے کئی خونی واقعات کے ذمہ دار ہیں اور حکومت پاکستان عسکری قوتوں کو مکمل طور پر اپنے مؤقف کا حامی بنانے میں ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس لیے میری رائے میں مذاکراتی کمیٹی میں بااختیار قوتوں کے نمائندوں کا شامل ہونا اشد ضروری تھا۔ اس کمیٹی میں بااثر شخصیات رستم شاہ مہمند اور رحیم اللہ یوسف زئی ہیں جو طالبان میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور جن کے ذاتی تعلقات تحریکِ طالبان کے امیر مولوی فضل اللہ اور ملا عمر سے ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ ساتھ پاکستانی طالبان بھی ان کا احترام کرتے ہیں؛ تاہم کمیٹی کے ممبران کو میڈیا میں آکر بلا ضرورت رائے زنی سے باز رکھا جائے۔ اگر کمیٹی کے ارکان میڈیا میں رائے زنی کرتے رہیں گے تو اس کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہو گا۔ وزیراعظم نواز شریف نے جو کمیٹی مقرر کی ہے اس پر لازم ہے کہ قومی وقار کا خیال رکھے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں