"KDC" (space) message & send to 7575

موئن جودڑو کی تحریک اور نظریہ پاکستان

بلاول زرداری کو عملی طور پر سیاست کے میدان میں اتارنے کیلئے تقریباً پانچ ارب روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ سیاسی تقریب کے لیے موئن جودڑو کا انتخاب کیا گیا ہے۔ موئن جودڑو سندھ کی پانچ ہزار سالہ قدیم تہذیب کا مظہر ہے۔ سندھ فیسٹیول کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ اس کی تشہیری مہم اور اس کے انعقاد کے لئے جو وسائل استعمال ہو رہے ہیں ان پر تنقید کا دروازہ کھل گیا ہے۔ میرے خیال میں اس قسم کے فیسٹیول کے اثرات دیرپا نہیں ہوتے۔ اب حقائق کے اندھیرے آتش بازی سے دور نہیں ہوتے؛ تاہم سندھ فیسٹیول سے تحریک کی راہ نکل سکتی ہے۔ اس کے مقاصد بنیادی طور پر سیاسی محسوس ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے سندھی ثقافت کے نام پر پاکستان پیپلز پارٹی اپنے چہرے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آسان لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مہم رنگ گورا کرنے والی ایک ایسی کریم ہے جو یورپی ممالک سے درآمد کی گئی۔ یوں لگتا ہے کہ گزشتہ قومی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بعد اب سندھ میں اس جماعت کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 
بلاول زرداری پاکستان اور سندھ کو کتنا جانتے ہیں اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے؟ ان کے پندرہ سال لندن میں گزرے اور وہ مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک الٹرا لبرل خیال کے نوجوان ہیں‘ سوشل میڈیا کے ذریعے جن کی ڈور پیپلز پارٹی کے بعض دانشوروں کے ہاتھ میں ہے اور ظاہر ہے اس صورتحال میں حقیقی ذہانت کا مظاہرہ نہیں کیا جا سکتا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے سندھ کے عوام کو جذباتی لگائو ہے‘ لیکن اب اس پارٹی کی قیادت ان جاگیرداروں کے ہاتھوں میں ہے‘ جو اپنے علاقے میں سماجی، سیاسی اور تعلیمی تبدیلی کا راستہ روکے ہوئے ہیں۔ وہاں عام کسانوں، ہاریوں اور عورتوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔
بلاول زرداری جو چاہے کہیں‘ ان کی پارٹی کا کردار سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ دور حکومت کے پانچ سالوں میں کرپشن، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو عروج حاصل ہوا۔ جن نوجوانوں کی نمائندگی وہ کر رہے ہیں‘ ان کی اکثریت ان پڑھ ہے۔ بے روزگاری اور خود کو منوانے کے ناکافی مواقع کی وجہ سے ایک خوفناک بے چینی کی علامتیں ہر طرف موجود ہیں۔ بلاول اس زبان میں سوچتے اور گفتگو کرتے ہیں جس سے ان نوجوانوں کا کوئی واسطہ نہیں۔ موروثی قیادت کی جو روایت ہمارے جیسے معاشروں میں قائم ہے وہ الگ مسائل کی جڑ ہے۔ 
بدقسمتی سے پاکستان پیپلز پارٹی محض سندھ کی پارٹی بنتی جا رہی ہے اور اپنے اقتدار اور پارٹی کی ساکھ کو بچانے کے لئے صوبائیت اور قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دے رہی ہے۔ ایک صوبے کی ثقافت کو پاکستان کی شہ رگ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جو آئین کے آرٹیکل 2-A اور آرٹیکل 62 اور 63 کی خلاف ورزی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان مسلم لیگ کے تمام گروپوںکو اس روش پر کڑی نگاہ رکھنی چاہیے۔ سب جانتے ہیں کہ ہمارا قدیم سندھی تہذیب سے کیا تعلق ہے۔ پاکستان کی اسلامی تہذیب محمد بن قاسم کی آمد سے شروع ہوتی ہے۔ 1972ء میں مرحوم فیض احمد فیض نے اس وقت کے صدر اور بعدازاں وزیر اعظم بھٹو کے ثقافتی مشیر کی حیثیت سے ایسا ہی نظریہ پیش کیا تھا اور پاکستان کے بنیادی تصور کی نفی کرتے ہوئے پاکستان کا رشتہ موئن جودڑو سے جوڑنے کے لئے نیشنل کونسل آف آرٹس اور قومی ورثہ کے محکموں میں ایسی شخصیات کو تعینات کیا جو پاکستان کی آئیڈیالوجی کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ مرحوم فیض احمد فیض کو حکومتی سرپرستی حاصل تھی‘ لیکن ان کی کوششوں کو مولانا کوثر نیازی مرحوم نے ناکام بنایا۔ بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو نے 15 نومبر 1974ء کو ان سے وزارتِ اطلاعات و نشریات کا قلمدان واپس لے کر برائے نام نئی وزارت مذہبی اُمور ان کے سپرد کر دی‘ جس کے لیے سیکرٹریٹ نام کی کوئی شے بھی موجود نہ تھی۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی اسیری کے ایام میں جو خطوط اپنی بیٹی اندرا گاندھی کو لکھے ان میں ہندوستان کی تاریخ کا آغاز موئن جودڑو سے کیا تھا۔ پانچ ہزار سال قدیم یہ شہر 1922-23ء میں دریافت ہوا تھا۔ 
اس طرح میرے خیال میں سندھ کی قدیم تہذیب کے احیاء کے نام پر تحریک شروع کر کے نظریۂ پاکستان کی نفی کی جا رہی ہے۔ اربوں روپے سے کی جانے والی تشہیر میں قائد اعظم کے مقبرے کو پسِ منظر میں پیش کرنے کا مقصد قوم کو فریب دینا ہے۔ ایسا کرنے والوں کا خیال غالباً یہ ہے کہ فیڈریشن کے یونٹ یکے بعد دیگرے کمزور ہوتے جا رہے ہیں‘ لہٰذا اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا جائے۔ چلتے چلتے مجھے ذوالفقار علی بھٹو کا مارچ 1979ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس وقت کے چیف جسٹس انوارالحق کے روبرو ایک بیان یاد آ گیا۔ انہوں نے کہا تھا: ''می لارڈز‘ صوبوں کو پاکستان نے بنایا ہے، اگر مجھے عدالت کے ذریعے قتل کیا گیا تو سندھ‘ فیڈریشن سے علیحدہ ہو جائے گا‘‘۔ چیف جسٹس انوارالحق نے مسٹر بھٹو کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ '' یہ کہنا حقائق کے برعکس ہے، پاکستان نے صوبے بنائے، صوبوں نے پاکستان نہیں بنایا‘‘۔ اب لگتا ہے کچھ لوگ اِسی راہ پر چل پڑے ہیں جس کے بارے میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سزائے موت کے خلاف اپیل کے دوران خدشات کا اظہار کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کردار ادا کیا اور سر شاہ نواز بھٹو نے سقوط جونا گڑھ میں اہم کردار ادا کیا تھا اور انہوں نے ہی ریاست جونا گڑھ کو بھارت کے مرد آہن پٹیل کے حوالے کرنے کے لئے دستاویز تیار کی تھیں اور بطور وزیر اعظم جونا گڑھ ریاست بھارتی تسلط میں دے کر پاکستان آ گئے تھے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح کی حقیقی جماعت منقسم ہوئی پاکستان ٹوٹ گیا۔ قومی یک جہتی پارہ پارہ ہوئی اور بالآخر نقصان پاکستان کو ہوا۔ آج بھی اگر پاکستان مسلم لیگ کے تمام گروپس ایک ہو جائیں تو یہ پاکستان کی عظیم سیاسی قوت بن سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں