"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی عمل میں خفیہ سکینڈل کا انکشاف

تحریکِ انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس 11مئی 2013ء کے انتخابات میں پنجاب کے 35 حلقوں میں دھاندلی کے حوالے سے خفیہ ریکارڈنگ موجود ہے۔ اس مبینہ ٹیپ میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنما اور ایک بڑے مغربی ملک کے سفارت کار کی خفیہ گفتگو شامل ہے جو کہ 11مئی کے انتخابات میں 35حلقوں میں دھاندلی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک بڑے مغربی ملک کے سفارت کار نے‘ جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا‘ تصدیق کی ہے کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنما کو 11مئی کے انتخابات کے نتائج آنے سے چند گھنٹے قبل خفیہ کوڈ کے ذریعے بتایا گیا تھا کہ پنجاب کے کم از کم 35حلقوں میں پولنگ اور ووٹوں کی گنتی کے عمل کے دوران بڑے پیمانے پر دھاندلی کے انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔ سیاسی میڈیا اور سفارتی حلقوں میں انتخابی نتائج کے حوالے سے بحث چل رہی ہے کہ 11مئی کے انتخابات کے نتائج میں شفافیت اور غیر جانبداری کا عمل متنازع تھا۔ عمران خان اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے برملا کہہ رہے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت کے قائد نے یقینا دھاندلی کرائی تھی ۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ 35پنکچرز سے یہ بات سمجھنے میں بھی مدد ملے گی کہ عمران خان 11مئی کے انتخابات کے فوراً بعد پنجاب کے چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کرتے رہے اور انہوں نے سپریم کورٹ سے بھی از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن ان کی خواہش کو مسترد کر دیا گیا۔ تحریکِ انصاف کی ترجمان اور رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ایک مغربی ملک کے سفیر نے پنکچر کامطلب پوچھا تھا۔ سفارتی، میڈیا اور سیاسی حلقوں کے مطابق نگران حکومت کی اہم شخصیت نے الیکشن کی رات کو ایک سیاسی جماعت کے قائد کو فون کیا اور لاہوری زبان میں بتایا کہ 35پنکچر لگا دئیے گئے۔ یہ اہم شخصیت آل رائونڈر کے طور پر معروف ہے اور نواز شریف حکومت اب بھی اس اہم شخصیت کے سحر میںمبتلا ہے۔ ایک مبینہ آڈیو ٹیپ میں اس حوالے سے کچھ بات چیت موجود ہے جس کی بنیاد پر تحریکِ انصاف‘ پنجاب کے 35حلقوں میں دھاندلی کے الزامات عائد کر رہی ہے۔ دراصل تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی نے 11مئی 2013ء کے انتخابات کو مانیٹرنگ کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ یہ دونوں پارٹیاں اندرونی طور پر خلفشار اور بدنظمی میں مبتلا رہیں۔ بہرحال اگر عمران خان کے ''35پنکچرز‘‘ کے الزامات درست ہیں تو انتخابات کرانے والی پنجاب کی نگران حکومت اور دیگر تمام متعلقہ اداروں کو تحقیقات میں شامل کیا جائے جس میں سابق چیف الیکشن کمشنر، ماتحت عدلیہ کے ریٹرننگ آفیسران ، وفاقی عبوری حکومتی سیٹ اَپ‘ ملکی اور غیر ملکی مبصرین شامل ہیں۔
تحریکِ انصاف نے انتخابی دھاندلیوں کے حوالہ سے الیکشن ٹربیونلز میں اپیلیں دائر کر رکھی ہیں جس میں ووٹرز کی تصدیق کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ حیرانی اور افسوس کا پہلو یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے ہارے ہوئے امیدوار‘ انتخابی عذرداریاں دائر کرنے کے طریقے کار سے نابلد رہے ان کے وکلاء نے عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 52اور دفعہ55اور اس کے ساتھ ساتھ عوامی نمائندگی رولز 76کا بغور مطالعہ ہی نہیں کیا اور الیکشن ٹربیونلز میں درخواستیں دائر کرنے کے لئے قانونی تقاضوں کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔ عمران خان نے ناکام امیدواروں کی رہنمائی کے لئے قانونی و آئینی معاونت کرنے کیلئے وکلاء کی ٹیم ہی نہ تیار کی۔ جن کی درخواستیں مسترد ہوئیں اُن کی تفصیل یوں ہے: 
1۔الیکشن کمیشن میں کل 425انتخابی عذرداریاں دائر کی گئیں۔
2۔الیکشن کمیشن نے درخواستیں نامکمل ہونے کی بناء پر 20انتخابی اپیلیں مسترد کر دیں۔
3۔الیکشن کمیشن نے قانون کے مطابق جانچ پڑتال کرنے کے بعد 405انتخابی عذرداریاں الیکشن ٹربیونلز کو بھجوا دیں۔
4۔الیکشن ٹربیونلز نے 122انتخابی عذر داریاں فنی بنیادوں پر مسترد کر دیں جو عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 52اور 55سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
5۔16انتخابی عذرداریاں پیروی نہ کرنے کی وجہ سے خارج ہو گئیں۔ 
6۔17انتخابی عذرداریاں واپس لے لی گئیں۔
7۔اسی طرح 167انتخابی عذرداریاں خارج کر دی گئیں۔
الیکشن ٹربیونلز نے 12انتخابی عذرداریوں کے میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کئے۔
اِس طرح اب 238انتخابات عذرداریاں زیر سماعت ہیں۔
تحریکِ انصاف کا وائٹ پیپر عوام کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا اور ان کی کوششیں رائگاں گئیں۔
انتخابی دھاندلیوں کے حوالہ سے الیکشن کمیشن اور نادرا کے سخت مؤقف کے بعد‘ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان‘ عام انتخابات میں دھاندلی کی شکایات کی تحقیقات اور انگوٹھوں کی تصدیق کے حوالے سے‘ نادرا کا کنٹرول تین ماہ کے لئے الیکشن کمیشن کو دینے بارے‘ خاموشی سے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹتے گئے۔ کیونکہ نادرا آرڈیننس میں ایسی کوئی شق ہی نہیں جس کے ذریعے اسے الیکشن کمیشن یا کسی دیگر اتھارٹی کے سپرد کیا جاسکے اور اس نقطہ نظر سے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کو بھی آگاہ کر دیا گیا۔ جس پر وہ اب اس معاملے پر خاموش ہو گئے ہیں۔ 19دسمبر2013ء کو الیکشن کمیشن نے وزارتِ داخلہ کو ایک مراسلہ بھجوا کر خود بھی نادرا کا کنٹرول لینے سے انکار کر دیا تھا اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا تھا ۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن اور پی سی ایس آئی آر‘ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی اُمور کے سامنے مؤقف اختیار کر چکے ہیں کہ انگوٹھوں کی تصدیق اس مقناطیسی سیاہی سے ممکن نہیں جو عام 
انتخابات میں استعمال ہوئی تھی کیونکہ اس کی مدت بقا 6گھنٹے تھی۔ لہٰذا یہ معاملہ اب ختم ہو گیا ہے۔ سابق چیئرمین نادرا طارق ملک معاملے کو آگے بڑھانا چاہتے تھے‘ مگر انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ چوہدری نثار علی خان نے خود پارلیمنٹ میں‘ اپوزیشن کو دعوت دی تھی کہ و ہ 40حلقوں کا انتخاب کر لیں‘ وہاں انگوٹھوں کی تصدیق کروالی جائے گی؛ تاکہ انتخابی عمل کی شفافیت کا علم ہو جائے۔ مگر چوہدری نثار علی خان کے موقف کو ان کی اپنی پارٹی نے ہی مسترد کر دیا۔ جب کہ اپوزیشن خاص کر تحریکِ انصاف نے حلقوں کی نشاندہی ہی نہیں کی جس پر انتخابی عمل کا معاملہ ہی ختم ہو گیا ہے۔ اب الیکشن ٹربیونلز میں ناکام امیدواروں کی اپیلیں زیر سماعت ہیں۔
عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر قوم کی رہنمائی کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کے لیڈر خورشید شاہ نے سابق صدر زرداری کی ایماء پر نواز شریف سے تعاون کرنے کا برملا اعتراف کر لیا ہے۔ لہٰذا 11مئی 2013ء کے حوالے سے دھاندلی کے الزامات تقریباً بے اثر ہو چکے ہیں۔ 
اِسی تناظر میں عمران خان نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات چلانے کیلئے 11رکنی کمیٹی کی سربراہی کے لئے نجم سیٹھی کے تقرر کو عام انتخابات میں 35پنکچر یعنی 35حلقوں میں دھاندلی اورنتائج کی تبدیلی کا صلہ قرار دیا ہے۔ اگر عمران خان اپنے الزامات کو سپریم کورٹ میں ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر پنجاب کے سابق نگران وزیراعلیٰ‘ حلف کی خلاف ورزی کی زد میں آجائیں گے اور ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت کارروائی خارج امکان نہیں رہے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں