"KDC" (space) message & send to 7575

افواجِ پاکستان اور ملکی مفاد

حکومت طالبان امن مذاکرات‘ بیانات کے غیر محتاط انداز کی وجہ سے انتشار اور بداعتمادی کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ طالبان کمیٹی‘ حکومت سے جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ایک غیر ملکی خبر ایجنسی کو طالبان ترجمان کا انٹرویو بھی بداعتمادی کا باعث بنا ہے۔ موصوف نے اس انٹرویو میں‘ بعض شخصیات کو امیرالمومنین قرار دے کر بعض ایسی باتیں کہہ دیں‘ جو آئین پاکستان کی نفی کے مترادف ہیں۔ جب کہ حکومت کی پہلی شرط یہ ہے کہ مذاکرات صرف آئین کے دائرے کے اندر ہوں گے۔متحارب گروپ کے لئے جنگ بندی کی اصطلاح استعمال کرنا مناسب نہیں۔
پاکستان میں انتخابات‘ آئین کے آرٹیکل 38, 3, 2-Aاور 63,62کی روح کے مطابق کبھی بھی نہیں ہوئے۔ حکومتیں انتخابات کو آئین کی روح کے مطابق نہ کرا کر آئین سے انحراف کرتی رہی ہیں؛ چنانچہ نام نہاد آئینی جمہوریت یا اس کے نام پر ملک میں جو کچھ بھی ہے وہ ہمارے ریاستی ڈھانچے کو متحد رکھنے کا ضامن نہیں؛ کیونکہ اس نظام کو غریب طبقے اور پسے ہوئے انسانوں سے کوئی سروکار نہیں۔ قوم کے رہنمائوں، پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 3کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں دی‘ اسی لئے قوم پرستی کا احساس اجاگر نہیں ہوسکا۔ ملک خزاں زدہ پتوں کی طرح بکھررہا ہے۔ طالبان اور حکومت کے مابین قیامِ امن کے لئے مذاکراتی عمل جاری ہے۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کو دیکھنا ہو گا کہ پاکستان کے انتخابی عمل میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعات کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا جارہاہے۔ اسی لئے حکومت اور طالبان میں امن مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔ حالات کی نزاکت کے باعث اصل فریقوں یعنی حکومت اور طالبان کے درمیان براہِ راست مکالمے کی بجائے بات چیت کے لئے غیر متعلق افراد پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور یقین دلایا گیا کہ وہ مکمل طور پر بااختیار ہیں اور ان کی باتیں تسلیم کی جائیں گی لیکن درحقیقت صورتحال مختلف ہے۔
ملک کی فیڈریشن کمزور کرنے میں18ویں ترمیم کا بڑا دخل ہے جس نے آئین کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ۔ پاکستان کے دانشوروں، آئینی اور قانونی ماہرین اور سیاسی رہنمائوں کی ناپختہ سوچ نے آئین میں 120سے زائد ترامیم کر ڈالیں لیکن عوام کا اعتماد ہی حاصل نہیں کیا۔ ہر پارلیمانی سیاسی جماعت نے اپنے اپنے مفاد میں ترامیم کر کے فوائد حاصل کئے۔ گزشتہ پارلیمنٹ کی آئینی اصلاحات کمیٹی نے 1973ء کے متفقہ آئین کو یکسر تبدیل کر دیا۔ عمومی طور پر پارلیمنٹ جو قانون سازی کرتی ہے۔ وہ چند آرٹیکل میں ترامیم کرنے تک محدود ہوتی ہے۔ مگر 18ویں ترمیم میں باہمی معاہدہ کے تحت ترامیم کر کے ملک کو انتشار کی طرف دھکیل دیا گیا بلکہ اصلی آئین کو لپیٹ کر رکھ دیا گیا۔ ان ترامیم کے ذریعے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی، انتخابی عمل اور الیکشن کرانے کا انتظام اور اجتماعی حکمت عملی تضادات کا شکار ہو گئی۔ 18ویں ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کی مشینری اور عدلیہ کے مقرر کردہ ریٹرننگ افسروں نے جو انتخابات کرائے‘ وہ خامیوں سے پُر‘ غیر روایتی‘ قومی اور جمہوری تقاضوں کے بالکل برعکس تھے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینے والے بیشتر امیدوار آئین کے آرٹیکل 62اور 63 پر پورے نہیں اترتے تھے لیکن ریٹرننگ آفیسران نے آئینی تقاضوں کی پروا نہ کرتے ہوئے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔
حکومت کی کمزور حکمتِ عملی کے نتیجہ میں طالبان کے ایک گروپ نے اعلان کیا ہے ، کہ وہ وادیٔ چترال میں اسماعیلی برادری اور کیلاش کو نشانہ بنائیں گے۔ اِسی گروپ نے کیلاش قبیلہ کو حکم دیا ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں یا قتل ہونے کے لئے تیار ہو جائیں۔ اور یہ بھی حکم دیا ہے کہ اگر کیلاش قبیلے کے لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا تو طالبان ان کو ان کے مغربی آقائوں سمیت ختم کر دیں گے۔ اسی طرح طالبان نے غیر ملکی این جی اوز پر الزام لگایا ہے کہ وہ چترال میں کیلاش قبیلے کو اسلام سے دور کرتے ہوئے اسرائیل جیسی ریاست قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس سے بھی خطرناک صورتحال آغا خان فائونڈیشن کو نشانہ بنانے کی دھمکی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ آغا خان فائونڈیشن کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں میں لڑکوں اور لڑکیوں کو مفت تعلیم کا جھانسہ دیکر ان کی برین واشنگ کی جارہی ہے اور انہیں اسلام سے دور کیا جارہا ہے۔ یہ ادارے غیر ملکی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں۔ طالبان کے خدشات اور تحفظات کو مدِنظر رکھتے ہوئے صوبہ خیبر پختون خوا کے موجودہ تعلیمی نصاب کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ گزشتہ ہفتہ ہری پور کے چند اساتذہ نے نظریۂ پاکستان کونسل کے سیکرٹریٹ میں نظریۂ پاکستان کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رو برو دستاویزاتی ثبوت پیش کرتے ہوئے بتایا تھاکہ صوبہ خیبر پختون خوا کی حکومت کو تعلیم کے فروغ کے لئے ستاون ارب کی خطیر رقم مہیا کی گئی ہے ۔ جس کے تحت نصاب میں سے مطالعہ پاکستان اور اسلام کے متعلق مواد کو خارج کر کے ان کی جگہ ایسا نصاب شامل کیا گیا ہے جسے اسلام سے کوئی سروکار نہیں۔ خیبر پختون خوا میں نصاب مرتب کرنے والے ہر پروجیکٹ ڈائریکٹر کو سرکاری مراعات کے علاوہ بیس بیس لاکھ روپے بطور اعزازیہ سے نوازا جارہا ہے۔ غیر ملکی این جی اوز تعلیمی نصاب میں من گھڑت واقعات پر مبنی لٹریچر داخل کر کے طلباء میں تقسیم کر رہی ہیں۔ جس کا مقصد طلباء و طالبات کو اسلام سے دور کرنا ہے۔ خیبر پختون خوا کی حکومت کو اس سنگین صورت حال کا جائزہ لینا ہو گا۔ یہ حقیقت ہے کہ آغاخان فائونڈیشن پاکستان کی اہم ترین فلاحی تنظیموں میں سے ایک ہے اور وہ کراچی اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں اسماعیلی برادری کی تعلیمی‘ طبی و سماجی ضروریات کو بھی پورا کرتی ہے۔ 
طالبان کمیٹیاں امن منافی کاروائیاں بند کردیں تو مذاکرات کی کامیابی میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ جو دانشور حضرات، سیاسی رہنما ان مذاکرات کی ناکامی کے دعوے کرتے ہیں وہ ملک میں جنگ و جدل جاری رکھنا چاہتے ہیں اور حکومت کی مخالفت میں اپنا ذاتی مفاد دیکھتے ہوئے خواہاں ہیں کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں۔ طالبان کے اسلامی قوانین کے حوالہ سے جو باتیں سامنے آرہی ہیں وہ انہونی نہیں ہیں ۔ ڈاکٹر علامہ اقبال نے بھی مغربی جمہوریت کو تسلیم نہیں کیا تھا کہ اس میں اگر زیادہ ارکان پارلیمنٹ گناہ کبیرہ کے حق میں ووٹ دیں تو اس کے جائز ہونے کا قانون بنا دیا جاتا ہے۔
دونوں مذاکراتی کمیٹیاں پندرہ دن سے زائد گزرنے کے باوجود امن کی آخری کوشش کو ابھی تک کسی سمت نہیں لے جا سکیں۔ اس طرح تو مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھ سکتا لیکن مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا ہوگا وگرنہ آرمی ایکشن ہو گا۔ درحقیقت اس ملک کو متحد رکھنے والی قوت صرف فوج ہے۔ آج حالات 25مارچ1969ء ، 5جولائی 1977ء اور 12اکتوبر1999ء کی طرف گھوم رہے ہیں۔ اس تشویشناک صورت حال میں صرف ایک اِدارہ فوج ہے جو مستحکم چٹان کی طرح ان خطرات سے نبردآزما ہے۔ اگر فوج کو قومی منظر سے ہٹا دیا گیا تو ریاست بکھر جائے گی۔ جن دشمنوں کے بھنور میں ہم آچکے ہیں‘ ان کے چنگل سے نکلنے کے لئے آرمی آپریشن سے پہلے قومی حکومت کی تشکیل ضروری ہو گا۔ اب ہماری حقیقی آزادی کا نیا باب کسی پر امن جدوجہد سے نہیں بلکہ خون ریزی سے لکھا جانا ہے۔ موجودہ سیاسی نظام کے ذریعے پاکستان میں حقیقی امن آنے کے امکانات کم ہی نظر آرہے ہیں۔ اگر موجودہ حکومتی نظام میں پاکستان کی مغربی سرحدوں میں آرمی ایکشن کیا گیا تو اس کا انجام کراچی کے آپریشن کی مانند ہو گا جس سے ملک میں خون ریزی کا آغاز ہو جائے گا۔ طالبان کا یہ مطالبہ کہ جنوبی وزیرستان سے فوج کو نکالا جائے تو اس کے پیچھے ایک خوفناک حکمت عملی ہے جسے فوج کبھی بھی قبول نہیں کرے گی۔ طالبان کی یہ کوشش ہے کہ ان کو جنوبی وزیرستان مل جائے تو وہ چھوٹے گروپوں کو ختم کر کے اس علاقے پر قابض ہو جائیں گے۔ جنوبی وزیرستان ان کے حوالہ کر دیا تو پھر سوات ، دیر اور دیگر علاقوں سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا۔ طالبان کا مقصد پاکستان کی سر زمین پر اپنا مضبوط مرکز بنانا ہے اور بعد ازاں صوبہ خیبر پختون خوا پر اپنی اجارہ داری حاصل کرنا ہے اور یہ اہم حکمت عملی حکمران کمیٹی کی نظروں سے اوجھل ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں