"KDC" (space) message & send to 7575

بین المذاہب مکالمے کی ضرورت

پاکستان کی نظریاتی اساس میں سب سے پہلی دراڑ عوامی لیگ کے قیام سے شروع ہوئی جس نے حسین شہید سہروردی اور شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں ملک کو علاقائی سیاست کی تباہ کاریوں سے روشناس کرایا، ان تباہ کاریوں کا نقطہ عروج بالآخر سقوطِ مشرقی پاکستان کا عظیم المیہ بنا اور آج کے پاکستان کی سیاسی تقسیم اس بنیاد پر ہوتی چلی جارہی ہے کہ سیاست اور ریاست میں اسلام کا کوئی کردار ہونا چاہیے یا نہیں۔ ایک طرف وہ سیاسی قوتیں ہیں جو مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دے کر دین کو سیاست سے جدا رکھنا چاہتی ہیں اور دوسری طرف کی سیاسی قوتیں عملاً نہ سہی، فکری طور پر ملک کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے کی مؤید ہیں۔ ایک طرف لبرل سیکولر کیمپ ہے تو دوسری طرف وہ منتشر کیمپ ہے جس نے ابھی تک نظریۂ پاکستان سے انحراف نہیں کیا۔
اس ضمن میں حکومتی حلقوں کے اہم دانشوروں نے آرٹیکل 2-A میں‘ جو قرارداد مقاصد کی روح ہے‘ تبدیلی کے لئے لابنگ شروع کر دی ہے۔ انہیں سرکار کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی حاصل ہے۔ یہ لوگ گمراہ کن لٹریچر کے ذریعے سیکولر کیمپ کی سرپرستی کر رہے ہیں کہ مذہب آدمی کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہ یہ بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اسلام ایک مذہب کے طور پر نہیں بلکہ ایک امت، اجتماعی نظام اور انسانی معاشرے کی اجتماعی تشکیل کے لئے نازل ہوا۔ کردار، مساوات اور انصاف ہی اسلام کی اصل روح ہے۔ 
تخلیق کائنات اور انسانی زندگی کے آغاز کے حوالے سے ایک نظریہ یہ ہے کہ کرۂ ارض موجودہ شکل میں آنے سے پہلے پانی تھا۔ سورج کی تپش سے پانی خشک ہوا تو بعض جزیرے وجود میں آئے، ان پر پانی کے جانور پہنچے اور ترقی کرتے کرتے انہوں نے انسان کی صورت اختیار کر لی اور یہ سب کچھ حادثاتی (Accidental) طور پر وقوع پذیر ہوا۔ ڈارون کا نظریہ ارتقاء تقریباً یہی ہے۔ اس کے برعکس اسلام سمیت الہامی مذاہب کا عقیدہ یہ ہے کہ اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور وہی اس کا انتظام و انصرام چلانے والا ہے۔ نیز تخلیق آدم علیہ السلام کے واقعہ کا سبھی الہامی مذاہب میں یکساں ذکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے تخلیق کیا اور پھر ان سے تمام انسانوں کو پیدا کیا۔ ایسے متضاد نظریات کا ایک منہج کے تحت جائزہ لینا اور انہیں غلط یا صحیح قرار دینا آسان نہیں۔ 
ایک سوال یہ بھی ہے کہ خدا کے وجود کے بغیر مذہب کا تصور کس طرح قائم ہوسکتا ہے؟ یہ اور اس طرح کے کئی مسائل اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں، کہ وہ کون سا نقطہ ہو گا، جس سے '' بین المذاہب مکالمے‘‘ کا آغاز ہو سکتا ہے؟ ان تمام مشکلات، الجھنوں اور عملی دشواریوں کے باوجود ہماری رائے میں ''بین المذاہب مکالمے ‘‘کو فروغ دیا جانا چاہیے کیونکہ مذہب اور بالخصوص ذہنوں میں غلط معلومات اور نظریات کا قلع قمع صرف مکالمے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ 
قرآن حکیم اس امر کی تصریح کرتا ہے ، کہ تمام انسان ایک ہی اُمّت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں اپنے انبیاء و رسل علیہم السلام مبعوث فرمائے، تاکہ وہ انسانوں میں پیدا ہونے والے جدید امور اور اختلافات کا فیصلہ کر سکیں۔ اس لئے ''مکالمہ بین المذاہب ‘‘کا خمیر بھی انسانی وحدت سے ہی اٹھایا جائے اور انسانی وحدت کا قیام ہی مکالمے کا اساسی مقصد ہونا چاہیے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ''لوگ ایک ہی اُمت (دین پر ) تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے خوش خبری دینے اور ڈرانے والے نبی بھیجے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں‘‘(البقرہ: 213)۔یہ آیت اس حقیقت کی نشان دہی کرتی ہے ، کہ بنیادی طور پر تمام انسان ایک ہی دین پر تھے۔ بعد میں انسانوں میں مختلف افکار اور متنوع خیالات نے جنم لیا اور ان میں ہدایت اور گمراہی پر عمل کرنے والے الگ الگ گروہ پیدا ہو گئے۔ انسانوں کے ان دونوں گروہوں کو متحد اور متفق کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء مبعوث کئے اور کتابیں نازل کیں۔ آج کے مذہبی مکالمے کا بنیادی مصدر اور ماخذ آسمانی کتابیں ہی ہوںگی‘ اس لئے مکالمے کا آغاز اس نقطہ سے ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے ہر مذہب یا عقیدہ یہ ثابت کر دے ،کہ اُس کی کتاب آسمانی ہے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے انسانی ہدایت کے لئے نازل کیا اور وہ اپنے نزول سے لے کر آج تک مِن و عن محفوظ، متداول اور قابلِ عمل ہے۔
قرآن حکیم وحدت انسانی اور وحدت ادیان کی تعلیم دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق و صداقت کو ایک ہی دین میں محفوظ کر دیا ہے‘ اس لئے انسانِ اول سے لے کر کائنات کے آخری فرد تک تمام انسانوں کا ایک ہی دین ہے۔ آج چونکہ انسانیت بہت سے ادیان، مذاہب، عقائد اور نظاموں میں تقسیم ہو گئی ہے‘ اس لئے جدید'' بین المذاہب مکالمے ‘‘کا مقصد وحدت ادیان ہی ہونا چاہیے، کہ انسان یہ حقیقت تلاش کرے کہ وہ کون کون سے حقائق ہیں‘ جو موجودہ الہامی مذاہب و ادیان میں مشترک ہیں‘ اس موضوع کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ''آپ کے لئے دین کی وہی راہ ڈالی۔ جس کا اُس نے نوح کو حکم دیا، اور جو کچھ ہم نے آپ کی طرف وحی کیا، اور ہم نے جس کا حکم ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، کہ آپ سب دین کو قائم رکھیں اور اس میں پھوٹ نہ ڈالیں‘‘۔ (الشوریٰ: 13) 
جدید دور کے ''بین المذاہب مکالمے‘‘ کی مشروعیت کے باب میں اس آیت مبارکہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ، کیونکہ یہ آیت نشان دہی کرتی ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء اور رسولوں کو مختلف ادوار میں مبعوث کیا‘ ان کے مخاطبین بھی الگ الگ تھے‘ ان کی زبانیں اور عادات بھی جداگانہ تھیں‘ ان رسولوں کی جانب الگ الگ کتابیں نازل کی گئیں لیکن ان سب کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی پیغام دیا، کہ انسان اپنے کوایک دین و مذہب کا پابند بنائے۔اس آیتِ مبارکہ میں وَالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ بہت اہم ہے کیونکہ اس میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ کو مخاطب کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے ، کہ اللہ تعالیٰ نے جو پیغام حضرت نوح علیہ السلام کو دیا تھا، وہی پیغام حق حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیھم السلام کو دیا گیا اور اُسی روح پرور پیغام سے خاتم الانبیاء و المرسلینﷺ کو نوازا گیا ۔ چنانچہ عصری مکالمے کا مقصد یہ بھی ہونا چاہیے کہ انبیاء علیہم السلام کو دیا گیا وہ مشترک پیغام تلاش کیا جائے، تاکہ پوری انسانیت کو اس کا پابند بنایا جائے۔
''ولا تتفرقوا فیہ‘‘ اس آیت مبارکہ کا دوسرا اہم جزو ہے، جو وحدت ادیان کا پیغام دیتا ہے، کہ ایک حدیث نبوی کی روشنی میں گمراہی کے ستر سے زیادہ راستے ہیں‘ جبکہ صراط مستقیم ایک ہی ہے۔ اس لئے دین میں تفرقہ نہ ڈالنے کا منشاء یہ ہے ، کہ انسان گمراہی کے تمام راستے ترک کر کے واحد صراط مستقیم کو اپنائے۔ واضح رہے کہ ایسا کرنا تبھی ممکن ہو گا ، جب باہمی افہام و تفہیم‘ بحث و تمحیص اور مکالمے کے ذریعے تمام ادیان و مذاہب یہ طے کر لیں ، کہ صراط مستقیم کیا ہے؟ اور سب انسان اس کی کس طرح پابندی کر سکتے ہیں؟ قرآن حکیم کا مطالعہ'' بین المذاہب مکالمے ‘‘کے لئے مزید کئی دلائل سے ہمیں آگاہ کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں انسانوں کے بہت سے مذہبی رویوں کی نشان دہی کی گئی ہے‘ جو آج کے انسانی مذاہب کا طرۂ امتیاز ہے؛ چنانچہ چاند سورج کی پوجا، آتش پرستی، کئی کئی خدائوں کے پیرومذاہب کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح دو خدائوں؛ یزدان اور اہرمن کے پیرو مجوسیوں کا بھی سورۃ الحج میں ذکر ہے ۔عیسائوں کا عقیدہ تثلیث بھی سورۃ المائدہ میں مذکورہے، نیز یہودیوں اور عیسائیوں کے اس مشترکہ عقیدے کا بھی قرآن حکیم نے سورۃ توبہ میں حوالہ دیا ہے کہ یہودی حضرت عزیرؑ کو اور عیسائی حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔
دیگر مذاہب کے ان رویوں اور عقائد کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم نے دوسرے مذاہب کے لئے ایک اور اصطلاح ''اہل الکتاب‘‘ بھی استعمال کی ہے ۔ جو اس امر کی عکاس ہے ، کہ اسلام نے مسلمانوں کو دعوت دی ہے ، کہ وہ اہلِ کتاب سے مکالمہ کریں‘ چنانچہ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :''اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں حق کے سوا اور کچھ نہ ہو‘‘۔ (النساء:171) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں