"KDC" (space) message & send to 7575

وزیرستان کو صوبے کی حیثیت دی جائے!

کچھ شخصیات اس وقت ایک خاص حکمتِ عملی وضع کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک ایسی جذباتی فضا بنانے کے لئے سرگرم ہیں‘ جس میں حق و صداقت‘ انصاف اور توازن کی بات سوالیہ نشان بن جائے۔ انجام کار ملک کو ایک ایسے آپریشن میں مصروف کر دیا جائے جو امریکہ کے مقاصد‘ مفادات اور ورلڈ آرڈر کا حصہ بن جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان‘ جو ہمارا گھر ہے‘ میں آگ لگ چکی ہے۔ اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے باہر سے کوئی نہیں آئے گا۔ قوم نے متحد ہو کر ہی اس آگ کو ٹھنڈا کرنا ہو گا۔ قوم سے مسلسل جھوٹ بولنے اور اسے اندھیرے میں رکھنے کی پالیسی ملک کو مزید مسائل کی دلدل میں دھکیل سکتی ہے۔ کئی طرح کی عملی مشکلات کے باوجود حکومت اور طالبان کے درمیان کمیٹیوں کی سطح پر مذاکراتی عمل آگے بڑھنے میں ناکام ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتی کمیٹی میں پاکستان کی متعدد ممتاز مذہبی شخصیات اور جماعتیں شامل نہیں اور مذاکراتی عمل سے باہر ہیں۔ حکومتی ٹیم مذاکرات کر رہی تھی لیکن میرے خیال میں اس سلسلے میں نہ تو ریاستی ادارے حقیقی معنوں میں یکجا تھے‘ نہ ہی سیاسی قیادت کے درمیان ہم آہنگی موجود تھی۔ چوہدری نثار علی خان کے برعکس وزیر اعظم نواز شریف کے بعض قریبی ساتھی مذاکرات کے مخالف محسوس ہوئے۔ حکومتی کمیٹی کے بعض ارکان کو چونکہ حکومتی امور کا تجربہ واجبی سا ہے لہٰذا وہ مذاکراتی عمل کو حکومتی صفوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے استعمال کرتے رہے اور ان کی ان کوششوں پر وزیر اعظم کے سیاسی ساتھی شدید برہم نظر آئے۔ یوں لگتا تھا کہ مذاکراتی عمل کو کچھ لوگوں نے ہائی جیک کر رکھا ہے۔
حکومت اور طالبان کے مذاکرات بے یقینی کا شکار ہو چکے ہیں۔ دونوں جانب سے آنے والے تندوتیز بیانات اور سخت لب و لہجے نے مذاکرات کے امکانات کو معدوم کر دیا ہے۔ ملکی تاریخ کے تجربات کو مدنظر رکھا جائے تو میرے خیال میں یہ اچھی حکمت عملی نہیں ہوگی کہ فوج کو وزیرستان میں الجھایا جائے۔ سوات میں جو آپریشن کیا گیا تھا‘ وہ سو فیصد مثبت نتائج کے حوالے سے مثالی نہیں تھا۔ اب تک سول نظام وہاں ذمہ داری قبول کرنے کی پوزیشن میں نہیں آیا۔ اصولی طور پر یہ کام زیادہ سے زیادہ دو سال میں ہو جانا چاہیے تھا۔ ملالہ یوسف زئی کی ملکی اور بین الاقوامی پذیرائی نے بھی حالات کو شک و شبہات میں تبدیل کر دیا۔ 
وزیرستان اور فاٹا میں دائمی امن قائم ہو سکتا ہے اور قائم رہ سکتا ہے۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا جب ہم اس پالیسی کو بحال کریں جو قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948ء میں اختیار کی تھی اور جس کی بدولت پچاس برس تک کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ میں نے ایبٹ آباد کمیشن کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے روبرو یہ تجویز پیش کی تھی کہ آزاد قبائل کے سلسلے میں جو غلطیاں حکومت سے ہو رہی ہیں‘ یہ ہیں کہ حکومتِ پاکستان نے ان قبائلی تقاضوں کو پورا نہیں کیا اور سیاسی ارتقا کا جو عمل قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق 1948ء کے بعد شروع ہونا چاہیے تھا‘ وہ دستور سازی کے باوجود شروع نہیں ہوا۔ ہماری قیادتوں نے دستور کے عمل دخل سے فاٹا اور وزیرستان سمیت پورے شمالی علاقہ جات کو حکومتی عمل داری سے باہر قرار دے دیا۔ وہاں کے روایتی نظام کو‘ جو ملک، جرگہ اور پولیٹیکل ایجنٹ پر مشتمل ہے، باقی ملک کے نظام سے مربوط نہ کیا گیا۔ ایبٹ آباد کمیشن کو میں نے تحریری طور پر تجویز دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ بلا تاخیر فاٹا اور شمالی علاقہ جات کو اس کے تاریخی نظام اور روایات کی روشنی میں باقی ملک کے نظام سے پیوست کیا جائے۔ وہاں پاکستان کے دستور اور عدالتی نظام کا پورا پورا اطلاق ہونا چاہیے۔ میں نے ایبٹ آباد کمیشن کے سامنے اپنے دلائل میں یہ اہم سفارشات بھی پیش کی تھیں کہ فاٹا اور وزیرستان کو وہاں کے عوام کے مشورے سے ایک علیحدہ صوبہ کی حیثیت دے دی جائے۔ اس طرح گورنر، وزیر اعلیٰ اور صوبائی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سینٹ میں ان کی 26 نشستیں موجود ہوں گی۔ یوں ان علاقوں کے عوام کو سیاسی اور آئینی حقوق دستیاب ہو جائیں گے‘ وہاں کی حکومت غیرملکی خاندانوں کو بے دخل کر دے گی اور یہ خطہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کے خوبصورت ترین صوبے کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ صوبہ بنانے کے نتیجے میں اس علاقے میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کا عمل دخل شروع ہونے سے قبائلی ریشہ دوانیوں سے بھی نجات مل جائے گی اور قائد اعظم کا فرمان بھی عملی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ وزیرستان کے لوگ ایک صوبہ کی حیثیت ملنے سے پاکستان کی تعمیرو ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ جو مضحکہ خیز صورت اس وقت پائی جاتی ہے‘ یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں اس علاقے کے بارہ بارہ ارکان کی نمائندگی موجود ہے‘ مگر قومی اسمبلی اور سینٹ کو اس علاقے کے بارے میں کوئی اختیار نہیں۔ یہ دو عملی ختم ہونی چاہیے۔ میرے خیال میں تجویز کردہ اس بنیادی تبدیلی کے نتیجے میں بہت سی خرابیاں خود بخود ختم ہو جائیں گی اور سیاسی، معاشی، سماجی اور تعلیمی ترقی کا وہ عمل موثر ہو سکے گا‘ جو اس وقت منجمد ہے۔ شمالی علاقہ جات کے مستقبل کا انحصار اسی بنیادی تبدیلی پر ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن نے میری اس تجاویز کو اپنی رپورٹ کا حصہ تو بنا لیا‘ لیکن اس پر عمل درآمد کرانے کی نوبت نہیں آئی۔
شمالی علاقہ جات میں آپریشن بادی النظر میں حالات پر قابو پانے کی راہیں استوار نہیں کر سکتا‘ کیونکہ حکومتی ٹیم میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے عسکری اداروں کے ساتھ معاملات خراب ہو رہے ہیں۔ عسکری حلقے افواجِ پاکستان پر تنقید کی وجہ سے ناراض نظر آتے ہیں جبکہ پاکستان کے محبِ وطن حلقے اس تنقید کو ایک منظم عمل سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہم عالمی ایجنڈے کے مطابق مسائل کی دلدل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں حکومت تنائو اور ٹکرائو کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ سوال یہ ہے کہ نادانستگی میں ہم کسی بین الاقوامی سازش کا حصہ تو نہیں بننے جا رہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں