"KDC" (space) message & send to 7575

توجہ سے محروم قبائلی علاقہ جات

وزیرستان پاکستان کا حصہ ہے، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی اسے پاکستان کا حصہ نہیں سمجھا۔ وہاں نہ پہلے آئین پاکستان کا اطلاق تھا اور نہ اب ہو رہا ہے۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے 9سال کی کاوشوں کے بعد وحدانی طرز کی بنیاد پر 23مارچ1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین نافذ کیا ۔ اس دستور ساز اسمبلی نے بھی ان علاقوں کو پاکستان کے آئین کے تابع نہیں کیا۔ اِسی طرح فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے جسٹس شہاب الدین کی سربراہی میں ملک کا نیا آئین بنانے کے لئے جو کمیشن بنایا تھا‘ اس کی رپورٹ میں صوبہ سرحد کے آزاد علاقوں‘ گلگت‘ بلتستان کو پاکستان میں آئینی طور پر شامل کرنے کے لئے سفارشات پیش کی تھیں لیکن ایران کے دبائو کی وجہ سے ان سفارشات کو اس کمیشن کی رپورٹ سے حذف کرا دیا گیا اور 8جون 1962ء کو آئین نافذ کیا گیا تو قبائلی علاقے سرزمین بے آئین تھے۔ جنرل ضیا الحق کے دور سے جنرل پرویز مشرف تک کے دور میں بھی انہیں پاکستان کا حصہ نہ سمجھا گیا۔ آئین پاکستان میں اس ملک کے ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا‘ لیکن قبائلی علاقوں کے عوام کے بنیادی حقوق کی یہ آئین ضمانت نہیں دیتا۔
صدر آصف علی زرداری نے اپنے پانچ سالہ دور میں کبھی قبائلی علاقوں کا دورہ نہ کیا۔ ان سے پیشتر بھی کوئی صدر قبائلی علاقوں میں نہیں گیا۔ کسی معاشرے میں تنازعات اور اختلافات کا پیدا ہوناحیرت انگیز ہے نہ تشویش ناک۔ مختلف معاملات میں لوگوں کی رائے کا مختلف ہونا انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ تنازعات کا تصفیہ کیسے کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے کسی معاملے میں اختلاف رائے رکھنے والے دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال کا راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ طاقت کا استعمال معاشرے میں تخریب اور تباہی کا سبب بنتا ہے‘ جب کہ بات چیت سے اختلافات کا تصفیہ سماجی استحکام اور خوشگوار نتائج کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔ انہی بنیادی حقیقتوں کے پیشِ نظر پوری قوم تحریک طالبان سے مذاکرات کے ذریعے اختلافات طے کرنے پر متفق تھی۔
امریکی صدر جارج بش اور ان کے مہرے ڈک چینی نے نہایت مہارت اور کامیابی کے ساتھ اور اپنے منصوبے کے عین مطابق بین الاقوامی نقشے پر مغربی تہذیب کی یلغار کے مقابل اسلام کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی روکنے کے لئے یورپ اور مغرب کے عوام کو یقین دلایا کہ اگر اسلام کے پھیلائو کو نہ روکا گیا تو اسلام کی طاقت کو کچلنے کے لئے تیسری جنگ عظیم لڑنی پڑے گی۔ لہٰذا اسلام کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ساتھ اس شدت اور مہارت کے ساتھ جوڑ دیا گیا کہ جب بھی اسلام کی بات ہو تو فوراً چشم تصور میں وحشت و بربریت کے مناظر گھومنے لگیں۔ اس سلسلہ میں سب سے اہم ذمہ داری رمزفیلڈ نے اٹھائی جو صدر جارج بش کے وزیر دفاع تھے۔ انہوں نے طالبان اور القاعدہ کی اصطلاحوں کو گالی کا درجہ دلانے کے لئے اپنے طالبان اور اپنی القاعدہ بنانے کا پروگرام بنایا۔اس مشن کی تکمیل کے لئے انہیں کروڑوں ڈالروں کے فنڈز مہیا کیے گئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عسکری خدمات مہیا کرنے والی پرائیویٹ امریکی تنظیم بلیک واٹر کی خدمات بھی بڑے پیمانے پر حاصل کیں۔ پینٹاگون اور سی آئی اے کے ایجنٹوں کے لئے جنگ کے اسباب پیدا کر دئیے۔ ایک افغانستان اور ملحقہ پاکستانی علاقہ اور دوسرا عراق۔ یہاں پر امریکی فوجی حکمت عملی سے پاکستان نے امریکی مفادات کی جنگ لڑی ہے۔ 
گزشتہ دورِ حکومت میں اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے 
لئے واشنگٹن اور لندن کو مؤثر اور نتائج آفریں افراد بھی میسر آگئے۔ اس ضمن میں ان ہزاروں سفارت کاروں کو جاری کردہ ویزوں کا ذکر کرنا ہی کافی ہے‘ جن کے لئے پاکستان نہایت خطرناک اور پراسرار سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ آج بھی نجانے کتنے ریمنڈ ڈیوس کس کس پلیٹ فارم سے کیسی کیسی خدمات کی ادائیگی میں مصروف ہوں گے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کے نام غیر ملکی ہوں۔ ہمارے اپنے ملک میں‘ ہماری اپنی صفوں میں ایسے خدمات فروش کثرت کے ساتھ موجود ہیں‘ جن کے نام تو اسلامی ہیں لیکن جن کی تمام تر قوتیں اور صلاحیتیں اس موقف اور تاثر کو پھیلانے پر صرف ہو رہی ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ریاست اور سیاست سے اسلام کا لفظ خارج کرنا لازمی ہے۔ یہی وہ وطن فروش ہیں جو جانے پہچانے امریکی فرمان کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ امریکی دانشور سیم ہیرس نے اپنی مشہور تصنیف "The End of the faith" میں لکھا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ تہذیب و تمدن کو خطرہ صرف اسلام کے انتہا پسندوں سے ہے‘ انتہا پسند تو بے نقاب ہو چکے ہیں‘ حقیقی خطرہ ان مسلمانوں سے ہے جنہوں نے اعتدال پسندی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ کتاب کے ملعون 
مصنف کا کہنا ہے کہ مغربی تہذیب کا اصل دشمن اسلام ہے۔ اسی طرح ایک ملعون امریکی دانشور ملٹن دیورسٹ نے اپنی تصنیف "The Shadow of the Prophet" میں لکھا کہ اسلامی مہم جوئی اور دہشت گردی کو روکنا ہے تو اس کی بنیادی کتاب کو نظرثانی کے عمل سے گزارنا ضروری ہے۔ اب حقیقت انتہائی المناک ہوتی جارہی ہے کہ ہماری صفوں میں سیم ہیرس اور ملٹن دیورسٹ کے ہم خیال دندناتے پھر رہے ہیں اور جنہوں نے کئی ممالک میں جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ نادرا کے ذریعے ان کی جائیدادوں کا پتہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔ میمو گیٹ سکینڈل کا فیصلہ ہی نہیں سنایا گیا‘ جس کے مدعی اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل، جنرل احمد شجاع پاشا اور موجودہ وزیراعظم نواز شریف تھے۔ جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے تحت تشکیل پانے والے میمو کمیشن کے سربراہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز علی نے حسین حقانی کو ملک سے غداری کرنے کا فیصلہ سنا دیا تھا اور کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری‘ جن کو کورٹ نمبر1 بنانے کا استحقاق تھا‘ نے اپنے بنچ کا فیصلہ ہی نہیں سنایا۔ اس معاملے کا فیصلہ ہو جاتا تو صورتحال تبدیل ہو سکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں جس جنگ کا ہمیں سامنا ہے اس کے پسِ منظر میں بھارت اور مغربی ممالک ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں