"KDC" (space) message & send to 7575

ذاتی مفادات کا تحفظ اور ’’جمہوریت ‘‘

منتخب اسمبلیوں کے ارکان عوام کے رہنما ہوتے ہیں۔ قواعد و ضوابط کی پاس داری کے حوالے سے ان سے بجا طور پر ایسے طرزِ عمل کی توقع کی جاتی ہے جس سے وہ اپنے ہم وطنوں کے لئے قابل تقلید مثال بن سکیں‘ لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں اب تک ایسا کم ہی نظر آتا ہے۔ قومی بینکوں سے اربوں روپے قرض لے کر واپس نہ کرنا‘ ٹیکس ادا نہ کرنا اور بجلی، گیس، پانی اور ٹیلی فون کے بلوں کی عدم ادائیگی کو معمول بنا لینا‘ یہ سب اس ملک میں عام ہے۔ ایسا ہی ایک مظاہرہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ کے موقع پر ہوا۔ سیاسی قیادت سمیت ہمارے مقتدر طبقات کی خفیہ آمدنی کا کچھ اندازہ ستمبر2011ء میں کئے گئے ایک سوئس بنک کے ڈائریکٹر کے اس انکشاف سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی شہریوں کے 97ارب ڈالر سوئس بنکوں میں جمع ہیں۔ ڈائریکٹر سوئس بنک کا کہنا تھا کہ سوئس بنکوں میں موجود پاکستان کے 97ارب ڈالر پاکستان اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کئے جائیں تو پاکستان تیس سال تک ٹیکس فری بجٹ بنا سکتاہے ۔ روزگار کے 60ملین مواقع پیدا کر سکتا ہے۔ ملک کے تمام دیہی علاقوں سے اسلام آباد تک جدید شاہرا ہیں تعمیر کر سکتا ہے۔ پانچ ہزار سماجی منصوبوں کے لیے مسلسل بجلی فراہم کرسکتا ہے۔ ہر شہری کو آئندہ ساٹھ سال تک بیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دے سکتاہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بنک کی امداد سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایسی ناجائز رقوم ہیں جو قومی وسائل کو لوٹ کر سوئس بنکوں کے خفیہ کھاتوں میں جمع کرائی جاتی ہیں۔ اس عمل میں بالعموم حکمران اور ارکان پارلیمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ شخصیات شامل ہوتی ہیں‘ جب کہ ان افراد کو آئین اور قانون پر عمل درآمد کے حوالے سے عوام کے لیے نمونہ بننا چاہیے۔ دنیا کے تمام مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں ارکان پارلیمنٹ پر دیانتداری کی کڑی شرائط عائد ہیں۔ نا دہندہ اور بد عنوان افراد کے لئے منتخب ایوانوں کے دروازے بند ہیں۔ ہمارے آئین میں یہ سارے نکات شامل ہیں‘ لیکن اصل ضرورت ان پر عمل کرنے کی ہے‘ جبکہ خودارکان اسمبلی کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور بدقسمتی سے پاکستان میں 1977ء سے 2013ء تک جو قومی انتخابات ہوئے‘ ہمارے ریٹرننگ افسران نے اپنے آئینی اور قانونی فرائض ادا کرنے میں کوتاہی برتی اور اپنی سیاسی وابستگی کی وجہ سے انہوں نے آئین کے آرٹیکل 62,63کو نظر انداز کیا۔
قومی اسمبلی کے آزاد رکن جمشید دستی نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اعلانیہ انکشاف کیا ہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں ماہانہ چار سے پانچ کروڑ روپے کی شراپ پی جاتی ہے۔ ہر وقت چرس کی بو پھیلی رہتی ہے۔ پارلیمنٹ لاجز میں عیاشیاں ہوتی ہیں، کال گرلز منگوائی جاتی ہیں، مجرے ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ لاجز میں شراب، چرس اور کال گرلز کیسے پہنچتی ہیں؟ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور لاجز میں رہنے والے ارکان اسمبلی کا میڈیکل ٹیسٹ بھی لازمی کروایا جائے۔
27فروری کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر اظہارِ خیال کے دوران سنسنی خیز انکشافات کرتے ہوئے یہ سنگین الزامات جمشید دستی نے عائد کئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا یہ تھا کہ یہاں غیرقانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیاں ایک عرصے سے ہورہی ہیں۔ ایم کیو ایم کے ممبر قومی اسمبلی نبیل گبول، اسرار اللہ زھری اور کئی دیگر ارکان اسمبلی نے جمشید دستی کے اس موقف کی حمایت کی ہے۔ جمشید دستی کے الزامات کے بعد میڈیا کے پوچھے گئے سوال پر نبیل گبول کا کہنا تھا کہ دستی ٹھیک کہہ رہے ہیں ، کال گرلز تو آتی ہیں اور پارلیمنٹ لاجز میں رات گئے انہوں نے خودان کو گھومتے پھرتے دیکھا ہے۔ جمشید دستی کی جانب سے عائد کردہ الزامات نے پارلیمنٹ کے ارکان کے کردار پر کئی سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ دراصل یہ سلسلہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجہ میں معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ سے شروع ہوا تھا‘ جب صدر ضیاء الحق نے اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے آئین میں نام نہاد اصلاحات کے ذریعے نومبر 1984ء میں خواتین کے لئے مخصوص نشستوں میں اضافہ کیا تو مخصوص نشستوں کے لیے تجویز کنندہ اور تائید کنندہ ارکان اسمبلی کی تلاش کرنے میں بہت سی خواتین کو بہت کچھ دائو پر لگانا پڑا اور اس وقت کی قومی اسمبلی کے ارکان نے اخلاق و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ‘ جبکہ بااثر خواتین نے صدر ضیا الحق سے تحریری طور پر شکایات بھی کی تھیں اورصدر ضیا الحق نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان سے تحقیقات کروانے کا حکم بھی دیا تھا۔ اسی طرح 1988ء میں انتخابات کے نتیجہ میں جو پارلیمنٹ وجود میں آئی تھی، تب بھی قومی اسمبلی کے ہوسٹل (سابق گورنمنٹ ہوسٹل) میں ایسی ہی خرافات دیکھنے میں آتی تھیں اور ایم کیو ایم کے کنور خالد یونس اور ان کے ساتھیوں نے طاقت کے زور پر یہ سلسلہ بند کرا دیا تھا ۔
جمشید دستی نے جو کہا ہے ‘وہ سراسر جھوٹ نہیں ہے، اور بادی النظر میں حقیقت معلوم ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اکثریت خود تو ان اخلاقی برائیوں سے دور ہے مگر عام معاشرے کی طرح وہ اس اقلیت کے خلاف بولنے اور برائی کو روکنے کیلئے کچھ کرنے سے گریزاں ہے جو سب کو بدنام کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ پاکستان کا موجودہ آئین عوامی نمائندگی سے انحراف کرنے والوں کے لئے سزا کا تعین کرنے سے قاصر نظر آتا ہے اور پاکستان کے انتخابی قوانین ٹیکس نادہندگان، کرپٹ اور جعلی ڈگری والوںتک کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے کیونکہ ریٹرننگ افسران ایسے لوگوں کے لیے پارلیمنٹ تک رسائی کے دروازے کھول اور راہ ہموار کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے عوام حیرت زدہ ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پارلیمنٹ لاجز میں ہر ماہ پانچ کروڑ روپے کی شراب قانون ساز اسمبلی کے بعض ارکان استعمال کرتے ہیں؟ اسلامی اصول ہوں یا ہمارا آئین ‘ بلکہ مغرب کے اعلیٰ ترین اخلاقی معیارات کو بھی اس حوالے سے نہایت واضح ہیں مگرہمارے ریٹرننگ افسران نے ان کو ہمیشہ نظر انداز کئے رکھا۔ 
مجھے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان مشرق بعید کے بعض ممالک اور یورپی یونین کے چند ممالک کے انتخابی نظام اور انتخابات کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔ وہاں انتخابات کے دن ملک بھر کے تمام شراب خانوں کو عملاً بند کر دیا جاتا ہے۔ ایسا ہی نقشہ سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش میں بھی دیکھنے میں آیا۔ جہاں تک اس مسئلے کو جمہوریت کے خلاف ساز ش قرار دینے والوں کا تعلق ہے تو جب حکمرانوں اور پارلیمنٹ ارکان پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے‘ جعلی ڈگریوں والے ارکان گرفتار ہوئے‘ دہری شہریت رکھنے والوں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی اور اسی طرح آئین کے آرٹیکل 62,63کے اطلاق کی بات کی گئی تو تب بھی کہا جاتا رہا کہ یہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے بیانات محض ذاتی مفادات کے تحفظ اور منفی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ہی داغے جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں