"KDC" (space) message & send to 7575

حکومت بے یقینی کا شکار ہے

اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹس میں انتہا پسند گروپوں کی فائرنگ اور خودکش بم دھماکے نے دارالحکومت کو غیر محفوظ ثابت اوروزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان کو بند گلی میں کھڑا کر دیا ہے۔ وزارتِ داخلہ نے اسلام آباد کو نہایت غیر محفوظ قرار دیا تھا، لیکن چودھری نثار علی خان نے اپنی ہی وزارت کے خدشات کی تردید کرتے ہوئے اس کے محفوظ ترین ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اسلام آباد میں دہشت گردی نے حکومت کو بے یقینی کا شکارکر دیا ہے۔ دہشت گردوں نے حکومت اور افواجِ پاکستان کوبرملا پیغام دیا ہے کہ وہ جب چاہیں، جہاں چاہیں کارروائی کرسکتے ہیں۔انہوں نے مبینہ طور پراسلام آباد، مری، کوٹلی ستیاں اورکشمیر کے بعض علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے۔
وزیراعظم کی اپنی حکومت پر گرفت کمزور ہوتی نظر آرہی ہے۔ ان کی کابینہ کے ارکان کی پالیسی میں تضاد کے آثار ہیں، ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ ان حالات میں دارالحکومت خود کش حملوں اور فائرنگ سے ہل گیا۔ اس نازک صورت حال کے پسِ منظر میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ طالبان کا اعلان جنگ بندی دراصل ایک گہری منصوبہ بندی ہے۔ کابینہ کے ارکان کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم کا اصل امتحان یہ ہے کہ فوجی قیادت کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ فوجی ماہرین کاخیال ہے کہ فوج اور فضائیہ نے جو محدود کارروائی کی‘ اس کے نتیجے میں شمالی وزیرستان میں طالبان انتشارکا شکار ہوگئے ہیں،اب ان کی خواہش ہے کہ انہیں دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملے۔ذرائع کے مطابق فوج حکومت سے کہہ رہی ہے کہ وہ محتاط رہے،کسی مسلح گروہ کو پاکستان کی فوج یا ریاست کے ہم پلہ تسلیم کرتے ہوئے مذاکرات نہ کئے جائیں اور طالبان کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کااحتیاط سے تجزیہ کیاجائے۔ 
اس تناظر میں وزیراعظم نوازشریف اور ان کی حکومت کوسخت امتحان کا سامنا ہے۔ قوم کا حکومت پر سے اعتماد اٹھتانظر آرہا ہے۔ ضروری ہو چکا ہے کہ وزیراعظم قوم کے اعتماد کی بحالی کے لیے کابینہ میں ردو بدل کریں اور از سر نو ماہرین اور پارلیمنٹ کے تجربہ کارارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیں کیونکہ مذاکراتی ٹیم ان صلاحیتوں سے محروم محسوس ہوتی ہے جو معاملات درست سمت میں لے جانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ 
مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابی نتائج کے خلاف عوامی تحریک کا سیلاب روکنے کے لیے پاکستان نیشنل الائنس سے مذاکرات کے لیے جو سرکاری کمیٹی بنائی تھی، اس کے بعض ارکان اپوزیشن کے سرکردہ رہنمائوں سے خفیہ طور پر روابط میں تھے اوروزیر اعظم کی کمزوریوں اور ان کی خفیہ چالوں سے متحدہ اپوزیشن کو آگاہ کرتے رہتے تھے۔ حکومتی ارکان کے بعض حلقوں نے ہی ائرمارشل اصغر خان، سردار شیر باز مزاری، مولانا مفتی محمود اور نواب زادہ نصراللہ خان کو یہ باورکرایا تھا کہ وزیراعظم بھٹو انہیں ہاتھ دکھانے والے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ اپوزیشن اپنا موقف بدلتی رہی اوردوسری جانب حکومتی ارکان کی نااہلی کے باعث مذاکرات ناکام ہو گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہواکہ 5 جولائی 1977ء کو ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔اس تلخ تجربے کی روشنی میںاب طالبان سے مذاکرات کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری کمیٹی ختم کر 
کے معاملات متعلقہ حکومتی اداروں اور سکیورٹی حکام کے سپرد کرے۔ بہتر ہوگا کہ وزیر داخلہ، خیبر پختون خواکے گورنراور وزیراعلیٰ ، افواجِ پاکستان اور آئی ایس آئی پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے جو مذاکرات کے دوران ملک کی سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیتی رہے تاکہ اسے پارلیمنٹ کی حمایت میسر رہے۔
اس دوران آزاد رکن قومی اسمبلی جمشید دستی ارکان پارلیمنٹ پر غیر شرعی حرکات کا الزام لگاکر قوم کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ یہ باتیں سن کر قوم سوچ میں پڑ گئی ہے کہ ان حالات میں نفاذِ شریعت کے لیے قانون سازی ہوسکتی ہے یا پارلیمنٹ ایسا کرنے کی اہل ہے؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے بالائی طبقوں میں شراب نوشی کا رجحان بڑھ چکا ہے۔اس وقت پاکستان دنیا میں شراب نوشی کے حوالے سے آٹھواں بڑا ملک ہے۔ ان مسائل پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ ہماری اشرافیہ، بالائی طبقے اور بااثر حلقے قانون شکنی پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ انہی طبقوں کے نمائندے پارلیمنٹ میں موجود ہیں جو خود قانون سازی کر کے انہی قوانین کا عملی طورپر مذاق اڑاتے ہیں۔ بلا شبہ پارلیمنٹ میں شرفاء، مذہبی تعلیمات پر کاربند اور صاف ستھرے کردار کے ارکان بھی موجود ہیں لیکن یوں محسوس ہوتاہے کہ وہ اقلیت میں ہیں۔ اس صورت حال نے طالبان کے نفاذِ شریعت کے مطالبے کو تقویت پہنچائی اورہمارے قومی کردار کا راز بھی فاش کردیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے باوجود سیاسی جماعتیں ایسے اشخاص کو ٹکٹ دیتی ہیں اور انہیں منتخب کرواکر وزارتوں سے نوازتی ہیں۔ دوسری جانب ووٹر امیدواروں کے کردارسے واقف ہونے کے باوجودانہی کے حق میں ووٹ دیتے ہیں ۔
ان حالات میں نفاذِ شریعت تو دور کی بات، ہمارے سیاسی رہنما بشمول وزیرداخلہ،جمشید دستی کے انکشافات پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دین کے حوالے سے ہماری قوم منافقت کا شکار ہے۔ ٹکٹ دینے والوں سے لے کر ووٹ دینے والوں تک سب منافقت کر رہے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات آئین کی روشنی میں کرانے کے حوالے سے معاشرے کے باشعور اور دینی حلقوں نے امیدواروں کے لیے صادق اور امین کی شرط کا مطالبہ کیا تھالیکن انتخابی اور ملکی انتظام کو جوں کاتوں رکھنے والی قوتوں نے اسے غیر مؤثر کر دیاتھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63کی روح کے مطابق عوامی نمائندوں کو منتخب کرنے کے لیے بنگلہ دیش کی طرز پر عوام کو یہ حق دینے کی تجویز پیش کی تھی کہ بیلٹ پیپرز پر ایک کالم کا اضافہ کیا جائے جس کے مطابق عوام انتخابی امیدواروں کو مسترد کرسکیں‘ لیکن نگران حکومت نے کمیشن کی اس اہم اور قومی مفاد پر مبنی سفارش کو مستردکر دیاتھا۔ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور دعائوں کی قبولیت سے محروم ہو چکا ہے کیونکہ جب قوم کے رہنما ایسے ہوں گے تو معاشرے میں خوفِ خدا اورقانون کااحترام بھی اسی طرح کاہوگا۔
پاکستان میں انتہا پسندوں نے بیس سال سے تشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس سے ملک کے صاحب ثروت طبقے زیادہ متاثر نہیں ہوئے بلکہ جب سے دہشت گردی بڑھی ہے تب سے غریب اور امیر کے درمیان خلیج بڑھتی چلی جارہی ہے ۔ اس اعتبار سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتہا پسندی امیر طبقے کے لیے معاون ثابت ہورہی ہے ۔ اگر انتہا پسندی نے امیر طبقے کو براہِ راست فائدہ نہیں پہنچایا تواتنا ضرورہوا ہے کہ اس نے پاکستان کے عوام کی توجہ بنیادی معاشی مسائل سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ حکومت، میڈیااورسول سوسائٹی سب مل کرانتہا پسندی اور فرقہ واریت کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن کسی کو وہ معاشی دہشت گردی نظر نہیں آتی جو دولت مند طبقے کھلم کھلا دن رات کر رہے ہیں۔
کوئی کچھ کہتا رہے مگر ایک بات ماننا پڑے گی کہ قومی، صوبائی اور سینٹ کے ارکان، سیاسی لیڈر، بڑے بڑے دانشور،مفتی، شیخ اورعالم سب مل کربھی پاکستانیوں کو ایک قوم نہیں بنا سکے لیکن ایک کھلاڑی نے خیبرسے کراچی اورکشمیر سے گوادر تک سب کو ایک لڑی میں پرو دیا۔مذہبی اختلاف ، سیاسی اختلاف، مسلک وفکر کا بغض وکینہ، کچھ بھی آڑے نہیں آیا،خالص بائیس کیریٹ سونے سے بنی قوم ہم آواز نظر آئی۔آئیے دعا کریں کہ اللہ پاک ہم سب کو اسی طرح ایک قوم بنا کر ہر میدان میں کامیابیاں عطا فرمائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں