"KDC" (space) message & send to 7575

بلاول زرداری فیصلے کریں!

سندھ کے قحط اور خشک سالی سے متاثرہ ضلع تھرپارکر میں 130کے قریب بچے بھوک اور فاقوں کا شکار ہو کر جاں بحق ہو گئے۔ قحط اور خشک سالی سے مجموعی طور پر دو لاکھ کے لگ بھگ خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے اس انسانی المیے کا نوٹس لے لیا ہے‘ اس طرح یہ جاننے میں یقینا مدد ملے گی کہ اس المیہ کے اصل ذمہ دار کون ہیں۔ چیف جسٹس کو وفاقی و صوبائی حکومتوں سے باز پرس کرنی چاہیے‘ جن کے نااہل حکمرانوں نے شان و شوکت کے اظہار کے لئے ثقافتی میلوں، ٹھیلوں سمیت غیر ترقیاتی مدوں پر اربوں روپے اُڑا دئیے۔ بلاول زرداری کے دل میں سندھ کی محبت جاگی اور انہوں نے سندھ ثقافت کے نام پر تقریباً 5ارب روپے اس کی نذر کر دئیے۔ اب ظاہر ہے کہ حکمران طبقے اور ان کے نوعمر بچوں کو ثقافت بچانے کی فکر ہونی چاہیے۔ اس میں چار پانچ ہزار اگر روٹی اور پانی کی خاطر موت کے منہ میں چلے جائیں تو سندھ کے نوعمر رہنما کی صحت پر کیا فرق پڑتا ہے۔ بلاول زرداری کو دیکھتے ہوئے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف بھی اپنے دوست بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کی روایت کو نبھاتے ہوئے اربوں روپے کے خرچ سے ناریل تڑوانے کے مظاہرے کروا رہے ہیں۔ عمران خان سے قوم نے بڑی اُمیدیں وابستہ کر رکھی تھیں کہ وہ جاندار، فعال اور جرأت مند اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے لیکن انہوں نے اِدھر توجہ ہی نہیں دی۔ سندھ کے تاریخی شہر تھرپارکرمیں خشک سالی اور قحط نے یہ دکھا دیا کہ ملک میں ذہنی قحط بھی خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ کوتاہ بین لیڈروں نے فیڈریشن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تھرپارکر کے لئے حکومت سندھ نے 60ہزار بوریاں گندم بھیجیں‘ لیکن بیوروکریسی کی نااہلی کے باعث ساری گندم گوداموں میں پڑی خراب ہوگئی۔ یہ ناقابل معافی نااہلی ہے۔ لوگ بھوکوں مر رہے ہیں اور گندم گوداموں میں پڑی سڑ رہی ہے۔ بلاول زرداری کو پیپلزپارٹی کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے وزیراعلیٰ کو فوراً ہٹا دینا چاہیے تھا۔ بلاول زرداری نے اگرچہ گزشتہ ماہ سندھ کی ثقافت کو فروغ دینے کے لئے میلے بھی منعقد کئے، رقص و سرود کی محفلیں سجائیں، لیکن پارٹی اور پارٹی کی سندھ حکومت کو تھرپارکر کی سرزمین پر معصوم بچے بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر موت کے منہ میں جاتے نظر نہیں آئے۔ جس سرزمین پر ایک طرف ناچ گانے کی محفلیں ہو رہی ہوں اور چند کلومیٹر دور لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہوں‘ ایسی سرزمین اللہ تعالیٰ کے قہر سے نہیں بچ سکتی۔ حضرت عمرؓ نے کہا تھا '' اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو عمر خدا کے سامنے جواب دہ ہو گا‘‘۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کی سوچ یوں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حنا پرویز بٹ نے ٹویٹ کیا کہ جب حکومت سندھ فیسٹیول منا رہی تھی تو تھر کے بچے مر رہے تھے، جس کے جواب میں شرمیلا فاروقی نے بھڑک کر کہا کہ جب پنجاب حکومت فیسٹیول منا رہی تھی تو عورتوں کو جسم فروشی کے لئے دوبئی بھیجا جا رہا تھا۔ افسوس اس امر کا ہے کہ ہمارے رہنمائوں کو اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کی عادت نہیں۔
سرکار دو عالم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ افلاس بسا اوقات انسان کو کفر کی سرحدوں تک لے جاتا ہے اور یہ کفر محض ذاتِ باری کا انکار نہیں بلکہ اس کی نعمتوں کی ناشکری بھی ہے۔ تھرپارکر کے قحط کو ہرگز مذاق نہیں سمجھنا چاہیے۔ وفاق کو تمام غریب اور پسماندہ علاقوں کی طرف توجہ دینا ہو گی۔
ممتاز سرمایہ کار ملک ریاض حسین نے تھرپارکر کے لئے بیس کروڑ روپے کی اِمداد کا اعلان کر کے اچھی مثال قائم کی۔ اسی طرح سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ نے بھی سینکڑوں کی تعداد میں ٹرکوں کے ذریعے امدادی سامان پہنچانا شروع کر دیا ہے۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو بھی تھرپارکر کے عوام کی امداد کے لئے پیش قدمی کرنی چاہیے۔ وہ ان کے حقیقی ووٹر بھی ہیں۔ جب صدر پرویز مشرف نے میر ظفر اللہ جمالی کے متبادل کے طور پر اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز کو وزیراعظم بنانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا۔ ان میں سے ایک اٹک اور دوسرا حلقہ یہی تھرپارکر تھا‘ جو آج کل قحط کی زد میں ہے۔ سندھ کے اُس زمانے کے وزیراعلی ٰ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم نے انہیں اس حلقہ سے ایک لاکھ 80ہزار ریکارڈ ووٹ لے کر دیئے۔ اگرچہ شوکت عزیز نے تھرپارکر کی نشست خالی کر دی اور اٹک کی نشست برقرار رکھی اور بعدازاں وہ 30جولائی 2004ء کو پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔
اس خطہ کی مستقل تعمیر و ترقی کے لئے خصوصی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ کوئلے اور دیگر معدنیات کی مناسبت سے صنعتیں لگا کر اس غریب اور پسماندہ علاقے کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ بجلی بنانے کے منصوبوں میں علاقہ کے افراد کو روزگار کی فراہمی میں ترجیح دی جانی چاہیے۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو بھی اس علاقے کی تعمیر و ترقی میں اپنی مہارت کو بروئے کار لانا چاہیے۔ ضلع تھرپارکر اسی ملک کا حصہ ہے۔ اس کا کل رقبہ بیس ہزار مربع کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔ 1998ء میں اس وقت کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی دس لاکھ سے کم تھی۔ قحط زدہ بچوں کی جو تصاویر سامنے آئی ہیں‘ انہیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ افریقہ کے کسی دور دراز ملک کے بچے ہوں۔ یہ کیفیت محض حکومتوں ہی کے لئے نہیں‘ ملک کے تمام رفاہی اداروں، مخیر حضرات اور بحیثیتِ مجموعی پوری قوم کے لئے لمحہ فکر یہ ہے۔
تھر میں بھوک اور افلاس کے شکار لوگوں کی مدد کے لئے آنے والے وزیراعلیٰ اور دیگر وزراء کی سرکٹ ہائوس آمد پر ان کی دنبے، بکرے، ہرن کے کوفتوں، مچھلی ، بریانی اور دیگر ڈشوں سے تواضع کی گئی جب کہ مٹھی ہسپتال میں 2500 مریض پینے کے پانی سے بھی محروم تھے۔ تھر کی خشک سالی اور قحط نے ثابت کردیا ہے کہ سندھ کے حکمران کرپٹ ہی نہیں بے حس بھی ہیں۔ لہٰذا بلاول زرداری کوسندھ کی نااہل اور بے حس حکومت کو معزول کر دینا چاہیے۔ سندھ میں پارٹی کی نااہلی اور کرپٹ حکومت کی برطرفی اُن کے سیاسی قدو قامت کو بلند و بالا کردے گی اور انہیں وہ مقام حاصل ہو گا جو سندھ فیسٹیول پر اربوں روپے خرچ کے بعد بھی حاصل نہیں ہو سکا بلکہ اُلٹا وہ بے رحمانہ تنقید کا نشانہ بنے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں