"KDC" (space) message & send to 7575

خلیجی ممالک کی وحدت

پاکستان میں فرقہ واریت معاشرے کو گُھن کی طرح کھا رہی ہے۔ یہ اللہ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: فرقہ فرقہ نہ ہو جائو۔ لیکن مسلمان اس عمل کی خلاف ورزی میں حد سے گزر گئے ہیں۔ پہلے فرقوں میں تقسیم ہوئے، پھر ایک دوسرے کے لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ حالانکہ حکم الٰہی ہے کہ ایک شخص کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہدایات پسِ پشت ڈال کر صرف اپنے فرقے کے مفادات کو ترجیح دینے لگے۔ اسلام نے جس عصبیت کی مذمت کی تھی ہم اس کا شکار ہو گئے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے سعودی عرب اور قطر پر عراق میں عدم استحکام پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے۔ المالکی کہتے ہیں کہ دونوں ملک عراق میں باغی گروپوں کی حمایت اور ان کی مالی امداد کرتے ہیں۔ بادِی النظر میں عراقی وزیراعظم کے الزامات میں وزن نہیں؛ کیونکہ عراق کی نام نہاد پارلیمنٹ نے اقلیتی عقیدہ رکھنے والے (المالکی) کو وزیراعظم مقرر کر رکھا ہے۔ دوسری طرف مصر کی جماعت اخوان المسلمون اور اس کی دوسرے ملکوں میں شاخوں پر خلیجی عرب ریاستوں کے دبائو میں اضافہ ہو گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی وزارتِ خارجہ نے دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کیلئے سعودی عرب کی ہر طرح سے مدد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کا بیان پاکستان کے مدبر سیاست دان مرحوم حسین شہید سہروردی کے بیان جیسا ہے۔ انہوں نے نہر سویز پر برطانوی حملہ کے وقت1956ء میں یہ متنازع بیان دے کر پاکستان کے عوام اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں تہلکہ مچا دیا تھا کہ سارے عرب ملکوں کی قوت ایسے ہے جیسے صفر جمع صفر مساوی صفر۔ لہٰذا امارات کا اعلامیہ عربوں کی اندرونی کشمکش کا آئینہ دار ہے۔
پاکستان کے عوام کی توجہ اہم حساس معلومات سے ہٹانے کیلئے ہر روز نئے نئے فتنے پیدا کیے جا رہے ہیں اور اصل حقائق کا اِدراک نہیں۔ دوست اسلامی ممالک کے درمیان جو کشیدگی اور تنائو ہے اس سے پاکستان میں انتشار کے بڑھنے کا خدشہ ہے۔ بعض خلیجی ریاستوں کے باہمی تعلقات اچانک خراب ہو گئے ہیں اور پاکستان اس سلسلہ میں مخمصہ سے دوچار ہے۔ کم از کم وہ حلقے ضرور پریشان ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اس تنائو کے پاکستان پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں۔ 
خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی کے باعث پاکستان پراکسی وار کا میدان بن سکتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کا ہر اسلامی ملک اس وقت کسی نہ کسی وجہ سے داخلی خلفشار، اقتصادی بدحالی اور دہشت گردی کا شکار ہے اور امتِ مسلمہ بد ترین بحرانی دور سے گزر رہی ہے۔ کچھ اپنوں کی غلطیوں اور کچھ غیروں کی سازشوں کی وجہ سے پاکستان دولخت ہو گیا۔ انڈونیشیا مشرقی تیمور سے محروم ہو گیا اور سوڈان اپنا جنوبی حصہ کھو بیٹھا۔ عراق، لیبیا ، شام اور افغانستان میں لاکھوں بے گناہ مسلمان مارے گئے۔ اسلامی ممالک افرادی قوت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود مسائل و مشکلات کا شکار ہیں۔ توانائی، معاشی ترقی و تعلیم، صحت اور دوسرے سماجی شعبوں میں دولت صرف کرنے کی بجائے آپس کی لڑائیوں اور داخلی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ اختلافات پاکستان اور اس کے عوام کے لئے بھی تکلیف دہ ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان اور اسلامی ممالک کے باہمی تعلقات شروع سے ہی دوستی اور خیر سگالی کے جذبات پر مبنی ہیں۔ لیکن ان ملکوں کے باہمی اختلافات پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ خلیجی ممالک انتشار کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ کا 11ستمبر2001ء کے بعد کا پلان اور ورلڈ آرڈر یہی ہے۔ صدیوں سے ایک وحدت میں رہنے والے ملکوں کی تقسیم ہوتی ہے تو شدید فسادات کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔یوکرائن بحران سے امریکی طاقت و قوت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ کیونکہ یوکرائن کی سوویت یونین میں واپسی کے امکانات بڑھ رہے ہیں اور روس اپنا کھویا ہوا عالمی مقام واپس حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ روس کے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں اثر و رسوخ بڑھنے سے سعودی عرب کی وحدت پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ 
خلیجی ممالک کے مابین اختلافات کی صورت میں پاکستان کو لبنان اور یوگو سلاویہ جیسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان میں وژن رکھنے والی لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ ملک کے بعض ادارے کمزور ہونے سے قوم 18ویں ترمیم کے بعد تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جارہی ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف 3 نومبر2007ء کی ایمرجنسی کو آئین سے انحراف تو قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس جرم کو غداری قرار دینا مناسب نہ ہوگا۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے میاں نواز شریف نے 11مئی 2013ء کے الیکشن سے دو دن پہلے ایک بھارتی اینکر پرسن اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کارگل کمیشن بنانے پر اور اس میں بھارتی افواج کو بھی نمائندگی دینے کی تجویز پیش کی۔ کارگل کشمیر کی شہ رگ ہے۔ 1965ء کی جنگ میں بھارتی افواج نے حاجی درہ پیر اور کارگل پر قبضہ کر لیا تھا۔ جسے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے تاشقند معاہدہ میں روسی وزیراعظم کوسیگن کی مداخلت سے واپس حاصل کر لیا تھا اور اِسی صدمے کے تحت لال بہادر شاستری دل کے دورے سے جاں بحق ہو گئے تھے۔ بھارت کے ممتاز صحافی کلدیپ نائر نے سیکرٹ آف تاشقند اعلامیہ میں تفصیل سے ان تمام واقعات کا انکشاف کیا ہے۔ یہی کارگل‘ بھٹو نے اندرا گاندھی کی خفیہ خواہش پر شملہ کانفرنس کے آخری روز بھارت کی تحویل میں دینے کے معاہدہ پر دستخط کر دئیے تھے اور اسی دن شملہ اعلامیہ کے بعد بادی النظر میں کشمیر تقسیم ہو گیا تھا۔ 
خلیجی ملکوں کے مابین کشیدگی سے پاکستان کے مسائل بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔ افغان طالبان ہوں یا پاکستان کے‘ دونوں ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا مطمحِ نظریہ ہے کہ وہ افغان طالبان اور القاعدہ سے مل کر افغانستان اور فاٹا بشمول وزیرستان کو یکجا کر کے اسلامی امارت تشکیل دے۔ افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کا نیٹ ورک مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ اس بات کے قوی خدشات موجود ہیں کہ نیٹو فورسز کی روانگی کے بعد وہ اس خطے کی غالب قوت بن جائیں گے۔ افغانستان میں بننے والی آئندہ حکومت ان کے سامنے مزاحمت نہیں کرسکے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں