"KDC" (space) message & send to 7575

فیڈرل یونٹوںکی تعداد میں اضافہ ناگزیرہے

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد آئین ساز اسمبلی کا اجلاس بین الاقوامی قانون اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمود الرحمن کے اس تاریخی فیصلے کے منافی تھا جس میں جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے 25مارچ 1969ء کولگائے گئے مارشل لاء کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے انہیں غاصب قراردیا گیا تھا۔ اس فیصلے کی روشنی میں جنرل یحییٰ خان کی طرف سے اقتدار سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کو سپرد کرنا آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان میں 7دسمبر1970ء کے انتخابات کا مطمح نظر متحدہ پاکستان کے لیے آئین مرتب کرنا تھا، قومی اسمبلی کو آئین سازی کے لیے چار ماہ کی مہلت دی گئی تھی، ایل ایف او کے تحت اس مدت میں آئین مرتب کرنا قومی اسمبلی پر لازم تھا کیونکہ یہ باور کرادیا گیا تھا کہ اگر چار ماہ میں آئین منظور نہیں کیا جاتا تو آئین ساز اسمبلی برطرف کر دی جائے گی اور ملک میں از سر نو انتخابات کرائے جائیں گے۔ 16دسمبر1971ء کومشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ ملک کوسول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکے آرڈرکے تحت پاکستان کا نام دیاگیا۔اس وقت باقی ارکان کو آئین ساز اسمبلی کی رکنیت پربرقرار رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ 25مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن اور شیخ مجیب الرحمن کی گرفتاری کے بعد آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کوکالعدم قرار دے دینا چاہیے تھا۔اگر جنرل یحییٰ خان انتخابات کالعدم قرار دے دیتے تو ملک کی سالمیت محفوظ رہتی۔
ذوالفقارعلی بھٹو نے 12اپریل1972ء کو آئین سازاسمبلی کا اجلاس بلاکر مغربی پاکستان کے ارکان قومی اسمبلی کو آئین سازاسمبلی کا حصہ بنا دیا۔انہیں آئین کا ڈھانچہ مرتب کرنے کے اختیارات دینا ایل ایف اوکی روح کے بھی منافی تھا۔انہوں نے ملک کا آئین اس طرح مرتب کروایا جو 1935ء کے ایکٹ کے علاوہ 1956ء اور 1962ء کے آئین سے مماثلث رکھتا تھا۔ان حقائق کے گہرے ادراک کے لیے ملک کے موجودہ انتشاراورسیاسی بحران کوپیشِ نظررکھیے ۔
میں سول بیوروکریسی کے طویل تجربے کی روشنی میں پاکستان کو ایک وفاق نہیں بلکہ ایک قوم کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ میری رائے میں پاکستان کووفاق بنانا دو قومی نظریے کی نفی ہے۔ میں سمجھتا ہوںکہ اٹھارویں ترمیم ایک المیے سے کم نہیں تھی کیونکہ اس کے ذریعے وفاق کی اکائیوں کواحساس دلایا گیا کہ تاریخ کے کسی موڑ پر اگر وہ چاہیں تواپنی خود مختاری کو زیادہ مؤثر اور فعال بنانے کا اعلان کر سکتی ہیں۔ پاکستان کو یقینی طور پر وفاق کی حیثیت میں ہی سامنے آنا چاہیے تھا کیونکہ قائداعظم محمد علی جناح برصغیرکے مسلمانوں کے لیے وفاقی نظامِ حکومت کو ہی بہتر تصور کرتے رہے جبکہ انڈین کانگریس نے بھارت کو یونین کا درجہ دیا۔ آج بھارت یونین کے تابع ہے جوسٹیٹ آف انڈیا کے آئینی دائرے میں کام کر رہی ہے۔ بھارت نے یونین کو مضبوط کرنے کے لیے 16ریاستوں کو 30 ریاستوں میں تبدیل کر دیا ۔ قائداعظم کے فرمان کے مطابق پاکستان کو یقینی طور پر وفاق کی حیثیت میں ہی سامنے آنا چاہیے تھا جو ایک لازمی ضرورت تھی ۔ 1973ء کے آئین کے تحت جو وفاق بنایاگیا اس کی بنیاد سیاسی مفادات کے پیش نظر جداگانہ شناختوں اور لسانی و نسلی تعصبات پررکھی گئی جس 
سے علیحدگی کے فتنوں کا بیج بو دیا گیا۔ اگر قائد اعظم چند برس زندہ رہتے تووفاق پاکستان 50کے لگ بھگ انتظامی یونٹوں پر مشتمل ہوتا جن کے پاس مکمل مالی و انتظامی اختیارات ہوتے۔ جہاں تک مرکز کا تعلق ہے وہاں حکومت ایک ایسے صدرکی ہوتی جسے قوم نے بلاواسطہ طور پر ایک شہری ایک ووٹ کی بنیاد پر منتخب کیا ہوتا۔ یقینی طور پر ایک پارلیمنٹ بھی ہوتی جس کا کام قانون سازی اور احتساب کے علاوہ اورکچھ نہ ہوتا۔
موجودہ وفاق نے پاکستان کو ایسی چاراکائیوں کا درجہ دے رکھا ہے جس میں پاکستان کے دانشور، آئینی و قانونی ماہرین اور ارکان پارلیمنٹ اسے متحدہ عرب امارات کے انداز میں آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ اگر یہ صورت حال قائم رہی تو پاکستان کو ایک قوم کبھی نہیں بنایا جاسکے گا اور حکمرانی صوبائی جاگیرداروں اور سرداروں کے ہاتھوں میں رہے گی۔ اگر فاٹا، وزیرستان اور شمالی علاقہ جات ایک خودمختارانتظامی یونٹ ہوتا تو اسے اپنی بہتری اور اپنے عوام کی فلاح کے لیے ایوانِ صدر، پاکستان کی بے فکر سیاسی قیادت ،گورنر اور فاٹا کی کرپٹ افسر شاہی کا محتاج نہ رہنا پڑتا۔
اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں میں جو عرب امارات کی طرز پر وحدانی حکومت قائم ہوئی ہے‘ انہیں ملک کے دور دراز تک پھیلے ہوئے علاقوں اور ان کی آبادیوں کے معاملات سے صرف اس قدر دلچسپی ہے کہ وہ سندھی، بلوچی، پختون ، کشمیری اور پنجابی شناخت کی بنیاد پر اپنے ووٹوں کا استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔
میں ان علاقوں کی شناخت کی مخالفت نہیںکررہا ، ہر نسلی اور لسانی شناخت کو اپنے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کے ذہن میں پاکستان کے اندر بھی برطانیہ جیسا کائونٹی سسٹم نافذکرنے کا تصور تھا۔اگر پاکستان اور پاکستانیت کو ایک غیر فانی شناخت دینی ہے تو ہمیں وفاق پاکستان کو صوبوں کے بجائے انتظامی یونٹوں پر مشتمل کرنا ہوگا۔ اگر ملک کی ہر ڈویژن کو ایک صوبے کا درجہ دے دیا جائے اور اس کی اپنی حکومت ہو تو سندھی، پنجابی، بلوچی اور پختون شناختیں ختم نہیں ہوجائیںگی اور وہ ایک ایسے وفاق میں ضم ہو جائیں گی جوخود ایک عظیم اکائی ہوگی اور یہی تصور قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں بطور صدر آئین ساز اسمبلی 11اگست 1947ء کو اپنے تاریخی خطاب میں پیش کیا تھا۔ 
آئین یقیناً ایک مقدس دستاویز ہونی چاہیے مگر پاکستان میں جتنے آئین نافذ کیے گئے وہ حکمران طبقوں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے بنائے اورکسی ایک آئین کو ریفرنڈم کے آئینی حق سے نہیں گزاراگیا۔ موجودہ آئین میں صرف آرٹیکل 6 ہی ایسی شق نہیں جس پر پورا اترنامحب وطن کہلانے کے لیے لازم ہے بلکہ آرٹیکل 2،3، آرٹیکل 30 سے 40 اور آرٹیکل63,62 بھی اس امرکے متقاضی ہیں کہ ان پر پوری دیانت داری سے عمل کیا جائے۔ ان میں آرٹیکل 2-A، قرارداد مقاصد اور 38 میں کہا گیا ہے کہ ہر شہری کو غذا، پانی، رہائش،صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانامملکت کی ذمہ داری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر جنرل پرویز مشرف کے خلاف ایمرجنسی کے نفاذ پر آئین سے انحراف پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے توآئینی ذمہ داری سے روگردانی کرنے پرکارروائی کیوں نہیں ہوسکتی۔ مردم شماری اور لوکل گورنمنٹ الیکشن جو اگست2010ء میں آئینی طور پر ہونے چاہئیں تھے‘ نہیں ہوئے جو آئین کے آرٹیکل 2-Aکالازمی تقاضا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ وفاق پاکستان کی تشکیل نئی بنیادوں پر ہونی چاہیے اور اس کے لئے نیا سوشل کنٹریکٹ بننا چاہیے۔ حقیقی آئین پاکستان کا وہی ہوگا جو ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی اکثریت کی منظوری کا مرحلہ کامیابی سے طے کرے۔ پاکستان کا 1973ء کا دستور بین الاقوامی آئین کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اس آئین نے سقوطِ مشرقی پاکستان کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ جب آئین تیار کیا جارہا تھا ، قوم سانحہ مشرقی پاکستان کے صدمے کے باعث سکتے کے عالم میں تھی۔ آئین کی آئین ساز اسمبلی سے منظوری سے پیشتر پاکستان کی عوام سے ریفرنڈم کے ذریعے منظوری حاصل کرنی چاہیے تھی اور یہی جمہوری طریقہ ہوتا ہے۔ برطانیہ میں انتخابی اصلاحات میں ایک ترمیم کی منظوری سے پہلے ریفرنڈم کوروایا گیا تھاجسے برطانوی عوام نے ریفرنڈم کے ذریعے مسترد کر دیا تھا۔ 
(کالم نگار کے ذاتی خیالات سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں