"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات اور مردم شماری کی اہمیت

منتخب بلدیاتی اِدارے جمہوری ممالک میں شہری مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ شہری زندگی کی تمام سہولتیں انہی اداروں کے ذریعے عوام کو فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ اِدارے عوام کو اپنے روزمرہ معاملات خود چلانے کے قابل بناتے ہیں اور وہ مسائل کے حل کے حوالے سے ذمہ داروں کا محاسبہ بھی کر سکتے ہیں۔ سرکاری افسروں یا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے مقابلے میں بلدیاتی نمائندوں کو خود بھی اپنی آبادیوں کے حالات بہتر بنانے کی زیادہ فکر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شہری امور کے حوالے سے زیادہ اختیارات بلدیاتی اِداروں کو دیے جاتے ہیں جبکہ اعلیٰ منتخب ایوان ملک اور صوبوں کے معاملات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ بلدیاتی ادارے عوام کی صفوں سے قومی قیادت کی تیاری میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 32 اور 141-A منتخب بلدیاتی اِداروں کا قیام لازمی قرار دیتے ہیں، لہٰذا ان کا بروقت انتخاب آئینی تقاضا ہے، لیکن ہماری موروثی سیاسی جمہوریت کا عجب تضاد ہے کہ جو سیاسی جماعتیں ملک اور صوبے میں منتخب حکومتوں کو ناگزیر قرار دیتی ہیں وہ بلدیاتی اِداروںکو منتخب قیادت فراہم کرنے سے بالعموم راہ فرار اختیارکرنے کے لیے کوشاں نظر آتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات عموماً فوجی حکمرانوں کے ادوار میں کرائے جاتے رہے ہیں جبکہ منتخب جمہوری حکومتوں نے اکثر ان سے گریز کی پالیسی اختیار کی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ضلعی حکومتوں کے نام سے نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا گیا تھا اور یونین کونسل کی سطح تک منتخب نمائندوں کو شہری امور چلانے کے اختیارات دے کر عوام کو اپنے مسائل حل 
کرنے کے قابل بنانے کی کوشش کی گئی تھی جس کے مجموعی طور پر بہت اچھے نتائج سامنے آئے۔ اس نظام کو بین الاقوامی جمہوری اِداروں سے قریب تر کرنے کے لیے اس وقت قومی تعمیر نو کے چیئرمین جنرل (ر) تنویر حسین نقوی اور ان کی ٹیم نے کینیڈا، سپین، برطانیہ، آسٹریلیا، امریکہ، ترکی اور بھارت سمیت دوسرے کئی جمہوری ممالک کے تجربات سے استفادہ کیا اور 31 دسمبر 2000ء کو اس نظام کے تحت لوکل گورنمنٹ الیکشن شروع ہوئے تو ان ممالک نے اس سسٹم کو کامیاب کرانے میں تکینکی سپورٹ فراہم کی۔ اس نظام کے تحت دوسرے بلدیاتی انتخابات جولائی 2005ء میں ہوئے۔ چار سال بعد پھر یہ انتخابات کرائے جانے تھے لیکن 18 فروری 2008ء کو ملک میں عام انتخابات کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات سے گریز کیا۔ 
جنرل پرویز مشرف دور کے ضلعی نظام کو ختم کرکے جنرل ضیاالحق دور کا غیرجمہوری بلدیاتی قانون بحال کیا گیا، اس کے باوجود بلدیاتی انتخابات جو اگست 2009ء میں ہو جانے چاہئیں تھے، کسی بھی صوبے میں نہیں کرائے گئے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی بار بار ہدایات کو نظرانداز کیا جاتا رہا، یہاں تک کہ ملک میں نئے عام انتخابات کا وقت آ گیا اور 2013 ء میں نئی وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم ہو گئیں۔ سپریم کورٹ نے نئی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کے آئینی تقاضے کی تکمیل کی ہدایت کی لیکن اب تک بلوچستان کے سوا کسی بھی صوبے میں بلدیاتی انتخابات نہیں 
کرائے گئے۔ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور وفاق کو 15 نومبر تک بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔ حلقہ بندیوں کا اختیار صرف الیکشن کمیشن کو حاصل ہو گا اور اس فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 224 میں ترمیم کرانا ہو گی کیونکہ آئین کے آرٹیکل 219 اور 224 کے تحت الیکشن کمیشن قومی و صوبائی حلقہ بندیاںکرنے کا مجاز ہے۔ سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کو خلافِ آئین قرار دیا ہے، لیکن اس فیصلے کا آئینی و قانونی جائزہ لیا جائے تو لوکل گورنمنٹ الیکشن کرانے کے لیے مردم شماری کو بھی مدِنظر رکھا جانا چاہیے۔
مردم شماری پاکستان میں انتہائی متنازع قومی مسئلہ رہا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں پہلی مردم شماری 1911ء اور بعدازاں 1921ء، 1931ء اور 1941ء میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1951ء، 1961ء اور سقوط ڈھاکہ کے بعد 1972ء پھر 1982ء اور آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی۔ اس کے بعد چھٹی مرتبہ مردم شماری کے لیے کئی کوششیں ہوئیں مگر کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔
جب ایک قوم درست طور پر اپنی آبادی کی تعداد معلوم کرنے سے قاصر رہتی ہے تو سیاسی، معاشی اور عمرانی اعتبار سے اس کے اہم نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ 1991ء کی مردم شماری میں خانہ شماری کے اعدادوشمار پر کئی سیاسی جماعتوں نے شدید اعتراضات کیے اور یہ مردم شماری التوا کا شکار ہو گئی۔ مردم شماری کے اعدادوشمارکی بنیاد پر ہی صوبوں کو قومی وسائل میں سے حصہ دیاجاتا ہے۔ بدقسمتی سے 16 سال گزرنے کے باوجود مردم شماری نہیں ہوئی۔2011ء میں یہ کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن کچھ ایسے حالات پیش آئے جنہوں نے 1990ء کی دہائی کی یادیں تازہ کر دیں۔ 18ویں ترمیم کے تحت مردم شماری کے فیصلے کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل سے لی جانی تھی لیکن کئی وجوہ کی بنا پر کونسل نے مردم شماری ملتوی کر دی۔ بعدازاں یہ بات منظر عام پر آئی کہ مردم شماری سے پہلے جو خانہ شماری کرائی گئی تھی اس کے اعدادوشمار میں کچھ غلطیاں اختلاف کا باعث ہوئیں۔ خانہ شماری کے مطابق آبادی کا تخمینہ 19 کروڑ 20 لاکھ تھا جبکہ غیرجانبدار تنظیموں کا اندازہ 17 کروڑ 50 لاکھ تھا۔ بنیادی طور پر سندھ اور بلوچستان کے اعدادوشمار میں تضادات پائے گئے۔ خانہ شماری کے مطابق سندھ کی آبادی کا تخیمنہ 5 کروڑ 50 لاکھ تھا جبکہ نقل مکانی جیسے محرکات کے پیش نظر آبادی کا تخمینہ تقریباً چار کروڑ بیس لاکھ لگایا گیا تھا۔ اس تخمینے میں ایک کروڑ تیس لاکھ نفوس کے فرق نے اعدادوشمار کو ناقابلِ یقین بنا دیا۔ بلوچستان کے اعدادوشمار میں بھی اس قسم کے متضاد انکشافات ہوئے۔
نئی مردم شماری کے عدم انعقاد کی صورت میں قومی اور صوبائی حلقوں کی حلقہ بندیاں 1998ء کی مردم شماری کی بنیاد پر ترتیب دی گئی تھیں جن میں نئے ضلعوں اور تحصیلوں کو شامل کرنے کے لیے حلقوں کی حدود میں معمولی ردوبدل کیا گیا، اس لیے انتخابی حلقہ بندیاں آج کے زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتیں۔ دیہی علاقوں کو زیادہ جبکہ شہری علاقوں کو کم نمائندگی حاصل ہے کیونکہ گزشتہ بیس برسوں میں ملک میں شہری آبادی میں زیادہ اضافہ ہوا جس کی وجہ دیہی علاقوں سے عوام کی شہروں کی جانب منتقل ہونا ہے۔ ہمارے ملک کی شہری آبادی جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ جون 2002ء میں پارلیمانی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا تھا لیکن انتخابی حلقہ بندیاں 1998ء کی مردم شماری کی بنیاد پر مرتب کردہ تھیں۔ اس فارمولے کے تحت مختلف سیاسی جماعتوں کو نقصان اور کچھ کو فائدہ ملا۔ اس طریقہ کار سے جمہوریت کی بنیادی نمائندگی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ آج کی صورت حال میں لوکل گورنمنٹ الیکشن کے لیے حلقہ بندیاں کرنے سے پیشتر ملک میں مردم شماری کرانے پر زور دینا چاہیے کیونکہ 1998ء کی مردم شماری کے استعمال کے نقصانات سیاسی نتائج سے کم اہم نہیں، الیکشن کمیشن اور نادرا نے 19 کروڑ بیس لاکھ کی آبادی پر انتخابی فہرستیں اور شناختی کارڈ جاری کئے جبکہ اندرونی خانہ آبادی کا تخمینہ 17 کروڑ 50 لاکھ تھا۔ اس طرح صوبہ سندھ میں آبادی کا تخمینہ تقریباً چار کروڑ 20 لاکھ لگایا گیا تھا اور اسی بنیاد پر سندھ میں جو الیکشن رزلٹ آئے ان کی بھی اسی تناظر میں جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت تھی۔ ملک میں 11 مئی 2013ء کے انتخابات سے پہلے مردم شماری کے التوا میں سابق حکومت کا ہاتھ تھا جس کا مقصد انتخابی نتائج کو اپنے موافق کروانا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں