"KDC" (space) message & send to 7575

دوہری شہریت: آئین پر نظر ثانی کی ضرورت!

جمہوریت کو جوہری طور پر سنگین ساختیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ 19ویں صدی کے آخر میں جدید جمہوری دورکے زوال کے بعد اس نے خود کو قومی ریاستوں اور قومی اسمبلیوں کے ذریعے متعارف کروایا۔ لوگ اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو ایک مقررہ مدت تک قومی اختیارکی باگ ڈورسنبھالتے ہیں، لیکن اس عمل کو اب اوپر اور نیچے دونوں اطراف سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر ہم اوپرکی سطح یعنی حکمرانوں کی بات کریں تو گلوبلائزیشن نے قومی سیاست کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ سیاست دانوں نے بھی پہلے سے زیادہ اختیارات سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ مثال کے طور پر ترقی یافتہ جمہوری ممالک کے سیاست دانوں نے تجارت اور زر مبادلہ کے بہائو پر عالمی مارکیٹوں اور عالمی اداروں کے سامنے بے بسی کی وجہ سے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ ووٹرز سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور یورپی یونین جیسے عالمی اداروں نے پاکستان میں انتخابی عمل میں مداخلت اور رسوخ بڑھا لیا ہے۔ یورپی یونین نے انتخابی جائزے کی آڑ میں اکتوبر2002ء میں پاکستان کے قومی انتخابات میں مداخلت کا آغازکیاتھا۔ یورپی یونین کے نمائندے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر، سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات، ان کے منشور اور پارلیمانی بورڈ کے ارکان تک کے معاملات کا تنقیدی جائزہ لیتے رہے۔ پاکستان کے انتخابات کے بارے میں منفی رجحانات کی حوصلہ افزائی کے لیے وہ پاکستان میں این جی اوزکوکروڑوں روپے کی امداد حکومت پاکستان کی اقتصادی امورکی وزارت کے مرتب کردہ رولز آف بزنس کے برعکس دیتے رہے۔
جمہوریت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج نہ اوپرسے ہے اور نہ ہی نیچے سے ‘بلکہ یہ خود اس کے اندر موجود ہے اور یہ ووٹرز کی طرف سے ہے۔ ارسطو نے جمہوریت کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ ٹھیک ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا: ''شہری صرف اپنے معاملات سے سروکار رکھیں گے‘‘۔ ترقی پذیر ممالک میں جمہوریتوںکو اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے جیسے ترقی یافتہ ممالک کو درپیش ہیں۔ انتخابی عمل میں حصہ لینا بھی ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے، بیرون ملک اور اندرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کے درمیان فرق نہیں کیا جانا چاہیے۔ آئین کی نظر میں دونوں برابر ہیں۔ سیاسی ، جمہوری اور انتخابی عمل میں حصہ لینا بھی ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے۔ آرٹیکل 25 بھی تمام پاکستانیوں کو ایک نگاہ سے دیکھتا ہے۔ لہٰذا پارلیمنٹ کو یہ تفریق ختم کرنی چاہیے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی وہاںکی علاقائی سیاست کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ ناگہانی اور قدرتی آفات میں امداد کے حوالے 
سے ان کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ وہ ایک طرح سے پاکستان کے سفیر ہیں۔ اس وقت ہماری معیشت کو اگرکوئی سہارا مل رہا ہے تو وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے زرمبادلہ کی ترسیل کے طفیل ہے۔اتنی بڑی حصہ داری کے باوجود انہیں اس بنیادی حق سے محروم رکھا جائے تو یہ ان کے ساتھ ناانصافی اورامتیازی سلوک روا رکھنے کے مترادف ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ان کی حب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل پر آئینی اعتراضات اٹھائے تھے اور موقف اختیارکیا تھا کہ جون2011ء میں آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کی تشکیل آئین کے آرٹیکل 213سے متصادم ہے، لہٰذا سپریم کورٹ اسے تحلیل کرکے آئین کے آرٹیکل 213 کی روح کے مطابق الیکشن کمیشن کی ازسر نو تشکیل کرے ۔ سابق چیف جسٹس نے اپنے روایتی طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری کی آئینی پٹیشن خارج کردی اور ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر طاہر القادری دوہری شہریت کے حامل ہیں اور دوہری شہریت رکھنے والے کو پاکستان کے الیکشن سسٹم میں مداخلت کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ان کے ریمارکس سے بیرون ملک پاکستانیوں کی حب الوطنی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کے اس رویے نے ملک کے اندر خصوصاً بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مایوس کیا۔
دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں دوہری شہریت کی اجازت ہے۔۔۔۔۔ امریکہ، برطانیہ، اٹلی، ہالینڈ،جنوبی کوریا،ملائشیا اورکئی دوسرے ممالک میں دہری شہریت کی اجازت ہے اور اس کے لیے قوانین موجود ہیں۔ جن ممالک کے ساتھ دوہری شہریت رکھی جاسکتی ہے ان میں ( دہری شہریت رکھنے والے فرد کو ) انتخاب لڑنے کا بھی حق حاصل ہوتا ہے؛ بلکہ اب کچھ ممالک میں تو یہ بھی ہورہا ہے کہ دہری شہریت رکھنے والوں کو نہ صرف اپنے ملک میں انتخاب لڑنے کا حق دیا جارہا ہے بلکہ ان کے لیے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں مختص کی جارہی ہیں۔ ان ممالک میں اٹلی، ہالینڈ اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ جن ممالک میں دوہری شہریت کا قانون موجود ہے ان میں کوئی ملک ایسا نہیں جس میں انتخاب لڑنے پر پابندی ہو۔ پاکستان میں دوہری شہریت کے حامل شہریوں کا مسئلہ متنازع رہا ہے۔ 1993ء میں پاکستانی نژاد برطانوی شہری یاسمین خان نے سب سے پہلے دوہری شہریت کے حامل شہریوں کے حق میں آواز اٹھائی تھی اور اس وقت کے چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے یاسمین خان کے موقف کو تسلیم کر لیا تھا۔ پاکستان کے قانون دان اکرم شیخ نے اس کیس کی تیاری میں بڑی محنت کی تھی، بعد ازاں یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں سات سال تک زیر غور رہا اور اس کے لیے جوکمیٹی بنائی گئی تھی میں اس کا چیئرمین تھا۔ اس کمیٹی میں وزارت داخلہ ، وزارت خارجہ، وزارت خزانہ، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی وزارت اور وزارت قانون و انصاف کے سینئر نمائندے شامل تھے ، لیکن کمیٹی وزارتِ خارجہ کی تکنیکی رائے کے بعد غیر موثر ہوکر رہ گئی تھی۔
آئین کے آرٹیکل 25 اور 17 کی روح یہ ہے کہ ہر شہری کو انتخاب لڑنے کا حق حاصل ہے۔ آرٹیکل 63 (I.C) میں یہ خامی ہے کہ اس کا آدھا جملہ نظر اندازکردیاگیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی دوہری شہریت حاصل کرے گا تو نااہل ہو جائے گا۔ اصولی طور پر ایسا نہیں ہونا چاہیے، اگرکوئی پاکستان کی شہریت سے دستبردار ہو جائے تو وہ نااہل ہوسکتا ہے، لیکن دوہری شہریت سے نااہل نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا مفاہمت سے اس اہم قومی مسئلے کا حل نکالنا چاہیے اورآئین کے آرٹیکل63 (I.C) پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں