"KDC" (space) message & send to 7575

معاملے کو ٹیڑھا بنانے کی کوشش

سفارتی ذرائع کے مطابق سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا نام ایگزٹ لسٹ میں برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں رہا‘ باخبر حلقوں کے مطابق آرمی کی ہائی کمان نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ پرویز مشرف کو علیل والدہ کی عیادت اور اپنے علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آرمی چیف نے وزیراعظم سے تازہ ملاقات میں سابق صدر پرویز مشرف کی ممکنہ بیرون ملک روانگی اور ان کے ''مستقبل‘‘ پر تبادلہ خیال کیا۔ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام بھی اس موقع پر موجود تھے۔ سابق جنرل پرویز مشرف کا نام ایگزٹ لسٹ سے خارج کرنے پر بھی بات چیت ہوئی۔ 
خصوصی عدالت نے 31مارچ کو سابق صدر جنرل پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کرنے کے موقعہ پر کہا تھا کہ اگر وفاقی حکومت علاج معالجے کیلئے پرویز مشرف پر سفری پابندی اُٹھانا چاہتی ہے اور انہیں بیرون ملک بھیجنا چاہتی ہے تو عدالت کو کوئی اعتراض نہیں۔ سفارتی اور غیر جانبدار ذرائع کا کہنا ہے کہ اس رولنگ کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کا نام ایگزٹ لسٹ میں بدستور رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ یہ سیدھا سادا قانونی اور آئینی معاملہ تھا‘ جسے بعض وزراء کے بیانات نے سیاسی بنا دیا۔ وزیر دفاع کے اس مؤقف پر کہ: 3نومبر 2007ء کو ایمرجنسی لگاتے وقت جن عسکری قوتوں‘ وفاقی حکومت کے ارکان اور عدلیہ نے پرویز مشرف کا ساتھ دیا اور ان کے حکم نامے پر انگوٹھے لگائے وہ بھی قومی مجرم ہیں‘ ان کا بھی احتساب ہوگا‘ عسکری قیادت نے یقینا ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہوگا۔ خواجہ آصف نے عدالتی فیصلے کے بغیر انہیں قومی مجرم ٹھہرا کر نوازشریف کی حکومت کو اندھے کنوئیں میں دھکیلنے کی کوشش کی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف بڑی احتیاط سے قدم اُٹھا رہے ہیں‘ ان کے عقابی وزراء ان کی راہ میں مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔ انہیں اس نوعیت کی رائے زنی سے احتراز کرنا چاہیے‘ جو بعض اداروں کے باہمی تعلقات پر اثرانداز ہو سکتی ہو۔ 
درست ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئین شکنی کے الزام میں پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں مقدمے کا سامنا ہے۔ عدلیہ کی جانب سے آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے عزم صمیم کے نتیجہ میں جنرل پرویز مشرف عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور ان پر فردِ جُرم عائد کر دی گئی۔ ماضی میں عدلیہ عام طور پر منتخب حکومتوں ، پارلیمنٹ اور آئین کے خاتمے یا معطل کئے جانے کے اقدامات کو، جن سے قوم کو کئی بار سابقہ پیش آیا‘ نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیتی رہی۔ لیکن عدلیہ کی آزادی کی قومی تحریک کی کامیابی کے بعد اعلیٰ عدالتوں نے تمام معاملات میں آئین اور قانون کی بالادستی کو قائم رکھنے کا عزم کیا اور اس کے نتیجہ میں پاکستان میں پہلی بار ایسے طاقتور حلقے بھی قانون کی گرفت میں آتے نظر آ رہے ہیں‘ جن کے بارے میں چند سال پہلے تک یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ان کے اقدامات پر ان سے کسی عدالت میں باز پرس کی جائے گی۔ اصولی طور پر اور آئین کے مطابق جسٹس فیصل عرب کو کراچی کے حلقہ 254سے سابق صدر پرویز مشرف کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد نہیں کرنا چاہئیں تھے۔ ریٹرننگ آفیسر ان کے کاغذاتِ نامزدگی منظور کر چکے تھے اور جنرل پرویز مشرف سزایافتہ بھی نہیں تھے۔ 
بہرحال خصوصی عدالت کے حالیہ فیصلے سے غیر جانبداری کی جھلک نظر آرہی ہے؛ تاہم دبئی میں جنرل پرویز مشرف کی ضعیف اور 95سالہ بیمار والدہ کی حالت کی خرابی کی بناء پر ان کی جانب سے والدہ کی الوداعی دعا کے لئے بیرونِ ملک جانے کی درخواست نے ایک نئی صورتِ حال پیدا کر دی ہے۔ اس درخواست پر عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بیرونِ ملک جانے پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ حکومت ہی کر سکتی ہے کیونکہ جنرل پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں حکومت کی ہدایت پر شامل کیا گیا ہے۔ گذشتہ روز کابینہ میں اس سوال پر غور کیا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جس طرح سیاسی جماعتوں کے اندر اس معاملہ میں اختلاف رائے ہے‘ اسی طرح کابینہ میں بھی ہے۔ کابینہ کی سطح پر جنرل پرویز مشرف پر ایمرجنسی کے دوران آئین میں چند ترامیم کرنے کا الزام عائد کئے جانے کے بعد معاملہ کو یوں ہی ختم نہیں ہونا چاہیے بلکہ مقدمے کو حتمی فیصلے تک جاری رکھا جانا چاہیے اور الزامات ثابت ہونے کی صورت میں کم از کم عدالتی سزا لازمی دی جانی چاہیے تاکہ آئندہ کے لیے آئین شکنی کے خدشات کا خاتمہ ہو سکے۔ اس کے مقابلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف سے بھی پہلے 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تھا اور عام طور پر سمجھا گیا کہ جن حالات میں فوجی مداخلت ہوئی ان میں ملک کی بقاء کے لئے ایسا کرنا ضروری تھا۔ عدالتیں بھی اس طرزِ فکر کو نظریہ ضرورت کا نام دے کر آئین شکنی کی تمام سابق کارروائیوں کو جائز قرار دیتی رہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مارشل لاء حکومتیں مجموعی طور پر ملک کے مفاد میں نہیں رہیں اور اس کے نتیجہ میں قوم کو بڑے دور رس نقصانات کا سامنا کرنا پڑا؛ تاہم یہ رائے بالکل درست ہے کہ اس فیصلے کو سیاسی اور عسکری حلقوں کے درمیان تعلقات کی خرابی کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ اس لئے جو بھی فیصلہ کیا جائے وہ تمام پہلوئوں اور ممکنہ اثرات و مضمرات کو پیش نظر رکھ کر کیا جانا چاہیے۔
آئین مقدس دستاویز ہے، مہذب معاشرے اس پر صدق دلی سے عمل کرتے ہیں۔ برطانیہ میں تو تحریری آئین ہی نہیں ہے، روایات ہیں‘ مگر ایک مستحکم نظام ہے۔ کئی صدیوں کی کاوشوں کے بعد یہ نظام مضبوطی سے جڑ پکڑ چکا ہے۔ پاکستان میں بھی اگر مارشل لاء سے بچنا ہے تو آئین میں آرٹیکل چھ شامل کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ پہلے بھی کچھ نہیں ہوا، آئندہ بھی کوئی اُمید نہیں رکھنی چاہیے۔ ایک مستحکم جمہوری نظام ہی ملک کو مارشل لاء سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ ساری کوششیں اسی کے لئے ہونی چاہئیں۔ غیر مستحکم جمہوری نظام کی موجودگی میں یہ دھڑکا لگا رہے گا کہ کل کوئی طالع آزما کسی حکومت کا تختہ اُلٹ دے‘ اقتدار پر قابض ہو جائے اور یہ امکان بھی ختم کر دے کہ کوئی اس کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کرا سکے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں