"KDC" (space) message & send to 7575

حالات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت!

چند برسوں سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے کیس کی آڑ میں عوام کے دلوں سے افواجِ پاکستان کا اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بعض افراد کی جانب سے افواجِ پاکستان پر تنقید ظاہر کرتی ہے کہ وہ اظہارِ رائے کی آزادی کی آڑ میں ایک مخصوص لابی کا ایجنڈہ لے کر قومی یک جہتی کا شیرازہ بکھیرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بھی بظاہر آئینی اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے افواج پاکستان کے بارے میں ایسے ریمارکس دیے‘ جن کا جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کو نوٹس لینا پڑا تھا۔ اب جنرل پرویز مشرف کے بارے میں بعض حکومتی وزرا احتیاطی حدود عبور کر گئے ہیں‘ جن میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے تند اور تلخ بیانات شامل ہیں۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ بھی بعض اوقات صوبائی حیثیت سے باہر نکل کر قومی معاملات پر بیان جاری کر دیتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کچھ تجزیہ کاروں نے بھی جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کی آڑ میں فوج کی تضحیک کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ 
اس وقت پرویز مشرف کے مقدمات عدالتوں میں ہیں، وہ جو بھی فیصلہ دیں گی سامنے آ جائے گا، مگر مذکورہ عناصر کی طرف سے عدالتیں لگا اپنی اپنی فردِ جرم عائد کرنا ناقابل فہم ہے۔ قانون اور اعلیٰ عدالتی روایات کا تقاضا یہ ہے کہ کسی زیر سماعت مقدمے کے بارے میں کوئی حاشیہ آرائی نہ کی جائے۔ مسلمہ عدالتی آداب کے مطابق کسی ملزم کا مذاق نہیں اُڑایا جا سکتا اور اس کے بارے میں طنز آمیز گفتگو نہیں کی جا سکتی۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف زیر سماعت مقدمے کے حوالے سے بعض حکومتی وزرا، سیاسی رہنمائوں اور میڈیا مبصرین کے تجزیوں اور تبصروں سے قومی سطح پر جو ناخوشگوار تاثر پیدا ہوا ہے اس کے پسِ منظر میں آرمی چیف کے اظہارِ خیال کو ان کی طرف سے ایک محتاط ردِ عمل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ کئی دہائیوں کے ناخوشگوار تجربات سے گزرنے کے بعد سول حکومت اور فوج کے درمیان فکر و عمل کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، اس لیے مناسب یہی ہے کہ کسی مسئلے پر تلخی بڑھانے والا کوئی بیان آئے‘ نہ اس کا ردِ عمل۔ ملک کو اس وقت مدبرانہ قیادت کی ضرورت ہے جو اِداروں کو تصادم کے بجائے تعاون کی راہ پر لے جائے۔ یہ حقیقت تسلیم کی جانی چاہیے کہ ملک کے ہر آئینی اِدارے کا اپنا ایک خاص مقام اور ذمہ داری ہے۔ پارلیمنٹ سب سے مقتدر اِدارہ ہے مگر اس کی حیثیت کا تعین ' فرسٹ ورلڈ ڈیموکریسی‘ کے معیار کے مطابق انتخابات سے کیا جانا چاہیے۔ مئی 2013ء کے انتخابات کے بارے میں پاکستان کی تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں کو تحفظات ہیں اور عام تاثر یہ ہے 
کہ عدالت نے نادرا پروگرام کے تحت انگوٹھوں کی جانچ پڑتال کرانے کے سلسلے میں اپنا آئینی کردار ادا نہیں کیا۔
حکومتی اِدارے اعتدال کی راہ اپنائیں تو جمہوری نظام مستحکم ہوتا جائے گا۔ حکومتی وزراء کو پاکستان کی ممتاز مذہبی اور سماجی شخصیت میاں محمد شریف مرحوم کے12 اکتوبر 1999ء کے دو دن بعد دل سوزی کے ساتھ دیے گئے بیان پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے اس سانحے کی ذمہ داری میاں نواز شریف کے نادان مشیروں اور وزرا پر عائد کی تھی اور ان سب کے نام بھی لیے تھے۔ میاں محمد شریف مرحوم کا ملک کا تقریباً ہر مکتبہ فکر احترام کرتا رہا ہے، ان کے بیان کو موجودہ تناظر میں ضرور پرکھنا چاہیے۔
چند برس قبل مصر میں فوجی سربراہ نے ایمرجنسی نافذ کر دی تھی، حساس مقامات پر فوج اور پولیس کے دستے تعینات تھے لیکن چونکہ وہاں صدر مرسی کی منتخب حکومت تھی‘ اس لیے فوجی ایمرجنسی کے خلاف لاکھوں لوگوں نے ملک گیر احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے تھے‘ جن کے نتیجے میں بالآخر فوجی حکمرانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ کچھ عرصے کے بعد صدر مرسی کی حکومت نے اصلاحات نافذ کرنے کے بجائے اپنی جماعت کے نوخیز نوجوانوں کو اہم کلیدی اسامیوں پر تعینات کرنا شروع کر دیا اور تجربہ کار اشخاص کو نظرانداز کرنے لگی تو ملک کی معیشت کی عمارت بوسیدہ ہونا شروع ہو گئی جس کی تعمیر صدر جمال عبدالناصر نے 1951ء میں کی تھی۔ یہ صورت حال پیدا ہوئی تو افواج نے آگے بڑھ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم بھی صدر مرسی کی پالیسی اختیارکرتے ہوئے اہم عہدوں پر اپنے ہی مخصوص وفاداروں کو آگے لا رہے ہیں۔
ہمارے ہاں کی صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ جمہوری حکومت قائم ہے اور پاکستان کی افواج ہر قسم کی مشکلات میں حکومت کا ساتھ دے رہی ہیں، اس کے باوجود فوج پر تنقید سے کسی سازش کی بو آ رہی ہے اور اس سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ بعض ملک دشمن عناصر اس میں ملوث ہیں۔ کچھ افراد ان سازشی عناصر کے آلہ کار بنے ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی جمہوری ملک میں اگر آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے تو اس لیے کہ حکومت اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے سکے۔ آئین میں اس کی پامالی کی سزا بھی مقرر ہے۔ کچھ حکومتوں نے آئین کے آرٹیکل 2-A, 65, 63, 62, 48, 42, 38, 32 اور 141 اور 209 کی مسلسل خلاف ورزیاں کیں مگر ہماری عدالتوں نے ان کا پوری طرح نوٹس نہیں لیا۔
اس میں شک نہیں کہ قانون سازی اور اس میں ترامیم کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے تاہم آئین کی شارح عدلیہ ہے جو کسی بھی معاملے کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد کوئی فیصلہ کرتی ہے۔ ہمارے ہاں چند برسوں سے ایک غلط روش یہ دیکھنے میں آ رہی ہے کہ عدلیہ میں زیر سماعت مقدمات اور فیصلوں پر بلا سوچے سمجھے نہ صرف تبصرے کر دیے جاتے ہیں بلکہ تنقید سے بھی گریز نہیں کیا جاتا، اب اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے معاملے پر اس وقت قیاس آرائیوں کا ایک طوفان اُمڈا ہوا ہے، کوئی اسے ڈیل سے تعبیر کر رہا ہے اور کوئی انہیں بیرون ملک بھجوانے کی کاوش پر محمول کر رہا ہے۔ ان قیاس آرائیوں میں میڈیا کے مخصوص حلقے خاص کردار ادا کر رہے ہیں۔ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ پرویز مشرف کے معاملات میں پاکستان کی افواج کو ملوث کرنے کی بات نہ کی جائے۔ افواج پاکستان نے ملک سے وفاداری کا حلف اُٹھایا ہوا ہے، ملک کو اندرونی انتشار اور بیرونی جارحیت سے محفوظ رکھنے کا فرض بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کواپنے ان عقابی وزراء پر نظر رکھنی چاہیے جو ایک مخصوص لابی کے ہاتھوں میں کھیل کر عسکری حلقوں میں بدگمانیاں پیدا کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں