"KDC" (space) message & send to 7575

افغان انتخابات اورمستقبل کے امکانات

افغانستان اس اعتبار سے ایک بدقسمت خطہ ہے کہ ہمیشہ سے جنگ و جدل کامیدان بنا رہا۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ افغانستان پُرامن ملک کیسے بن سکتا ہے؟ اس ضمن میں حالیہ افغان انتخاب کا تجزیہ معاون ثابت ہوسکتا ہے ۔ اچھا ہوا کہ اب افغان عوام نے جمہوریت کو بہترین نظامِ حکومت تسلیم کر لیا ہے اور وہ جمہوریت میں اپنی اور ملک کی فلاح دیکھ رہے ہیں۔ حالیہ صدارتی انتخاب میں ایک کروڑ پندرہ لاکھ افراد نے اپنے ووٹ کاحق استعمال کیا۔ اس موقع پرکچھ ہلاکتیں ہوئیں اور انتخابی عمل کے سلسلے میں برائے نام قسم کی شکایات بھی موصول ہوئیں لیکن خوش قسمتی سے افغان الیکشن کمیشن نے اپنے فرائض مجموعی طور پر خوش اسلوبی سے انجام دیے۔ 
افغانستان کے باشندوں کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ گزشتہ انتخابات کی طرح امریکہ اورکچھ دوسرے ممالک صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہوں گے لیکن انہیں یہ بھی یقین تھا کہ ووٹ کے درست استعمال کا حق صرف اور صرف ان کے اپنے پاس ہے۔ افغانستان کے صدارتی انتخابات کے لئے گیارہ امیدوار میدان میں اُترے ، تین امیدواروں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی واپس لے لئے، یوں آٹھ اُمیدوار ایک دوسرے کے مقابل رہ گئے۔ ملکی اور غیر ملکی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حقیقی مقابلہ ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ ، زلمے رسول اور اشرف غنی کے مابین ہی رہا۔ واضح رہے کہ موجودہ صدر حامد کرزئی ملکی آئین کے مطابق دو مرتبہ صدر منتخب ہونے کے باعث تیسری بار صدارتی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ افغانستان کے اس الیکشن پردنیا بھرکی نظریں لگی ہوئی تھیں کیونکہ امریکی فوج کی واپسی کے بعد افغانستان کے مستقبل سے اس کا گہرا تعلق ہے۔الیکشن کے بعد بھی افغانستان دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور سب یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ملک کا آئندہ صدرکون بنتا اورکلیدی عہدوں پر کون فائز ہوتا ہے۔ نئی قیادت کے بارے میں جاننا اس لیے بھی اہم ہے کہ اسی کے دور میں امریکی افواج یہاں سے واپس جارہی ہوں گی اور اسے امریکہ اور نیٹو کے ساتھ کئی اہم امور طے کرنا ہوں گے ۔ افغانستان کے اپنے ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کا فیصلہ بھی نئی قیادت کرے گی ۔ اس کے علاوہ اندرونی طور پر امن و امان کی جو صورت حال ہے، نئی حکومت کے لیے وہ بہت بڑا چیلنج ہوگی ۔ملک میں امن قائم رکھنے کے لیے اسے سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بیرونی سطح پر دنیا، خاص طور پر خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اہم ترین معاملہ ہو گا۔ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان کی خارجہ پالیسی میں کیا تبدیلی آئے گی، پاکستان اور بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات میں کیا موڑ آئے گا، یہ معاملات پورے خطے کی سیاست میں تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ 
یہ بھی واضح رہے کہ صوبائی کونسل کی ستائیس نشستوں کے لئے تین سو آٹھ خواتین انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں جو اب تک سب سے بڑی تعداد ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ 2009ء کے انتخابات میں صدرکرزئی کے خلاف اہم اُمیدوار تھے مگر واضح برتری حاصل نہ کر پائے ۔ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے تقریباً 30 لاکھ ووٹوںنے صدرکرزئی کے حق میں پانسہ پلٹ دیا تھا۔ اس وقت پاکستان کی حکومت نے صدرکرزئی کی کامیابی کی خاطر افغان مہاجرین کے لئے پاکستان میں پولنگ سٹیشن قائم کرائے تھے اوران کو مکمل تحفظ بھی فراہم کیا گیا تھا ۔ وزارتِ داخلہ نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ۔ صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ نے اس الیکشن کو غیر شفاف قرار دیا تھا۔ اس وقت ان کا اہم نعرہ یہ تھا کہ وہ ملک میںصدارتی نظام ختم کر کے پارلیمانی نظام رائج کریں گے ، وہ صدارتی نظام کو مسائل کا نظام تصور کرتے ہیں۔ وہ آئین میں بھی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ ماضی میں عبداللہ عبداللہ کو احمد شاہ مسعود کا اعتماد حاصل رہا۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں عبداللہ عبداللہ کے نائب صدر اوّل محمد خان جبکہ محمد محقق نائب صدر دوئم ہیں۔ احمد شاہ مسعود جب وزیر دفاع تھے، عبداللہ عبداللہ وزارتِ دفاع کے ترجمان اور وزارتِ خارجہ کے نائب وزیر تھے۔ انہوں نے اس دوران افغانستان کی خارجہ پالیسی میں اہم کردار ادا کیا۔ احمد شاہ مسعود کے قتل کے بعد عبداللہ عبداللہ سیاسی جماعت حبیبہ متحدہ کے ترجمان رہے۔ موجودہ الیکشن میں انہیں حزب اسلامی، حزب وحدت اسلامی مردم، حزب جمعیت اسلامی اور چند دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔
زلمے رسول عمر رسیدہ شخص ہیں مگر سیاسی سطح پر بہت متحرک ہیں۔ موجودہ صدر حامد کرزئی نے ان کو وزیر خارجہ نامزدکیا تھا۔ وہ حامد کرزئی کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں اوران کے کئی اہم بیرونی دوروں کا حصہ رہے ہیں۔ زلمے رسول طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد حامدکرزئی کے ہمراہ کابل آئے تھے۔ وہ 2010ء تک صدر کے سکیورٹی مشیر بھی رہے۔ 2010ء میں انہیں وزیر خارجہ نامزد کیا گیا اوروہ 2013ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اشرف غنی امریکن یونیورسٹی آف بیروت اورکولمبیا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ اشرف غنی بہت پڑھے لکھے ہونے کے علاوہ وسیع تجربے کے حامل ہیں۔ انہوں نے کئی برس عالمی بینک میں کام کیا۔کئی بین الاقوامی اِداروں میں تجزیہ کارکے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔ وہ ایک امریکی یونیورسٹی میں پروفیسر بھی رہ چکے ہیں۔2001ء میں وہ اقوامِ متحدہ میں افغان اُمور کے خصوصی نمائندے ابراہیمی کے مشیر تھے۔ بعد میں وہ حامد کرزئی کی حکومت میں سینئر مشیرکے طور پر شامل ہوگئے۔ جون 2002ء سے ستمبر 2004ء تک وہ وزیر خزانہ کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔ بعد میں وہ صدرکرزئی کے مخالف کے طور پر سامنے آئے، وہ ان کی حکومت کو بدعنوان کہتے ہیں۔ افغان شہریوں اور تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ انتخابی عمل پر امریکہ اور دنیا کے دوسرے ممالک اثر انداز ہوں گے کیونکہ افغانستان میں سب اپنی مرضی کا صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔
افغانستان کی نئی قیادت پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کن بنیادوں پر استوار کرے گی؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن اگر نئی قیادت نے پاکستان کو نظر اندازکرکے بھارت کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو افغانستان کے عوام جن کے دل پاکستان کے ساتھ ہیں، افغان حکومت کا شیرازہ بکھیر دیںگے۔ یہ امکان بھی ظاہرکیا جارہا ہے کہ حامدکرزئی اپنی نئی سیاسی جماعت بنائیں گے اورافغان عوام میں امریکہ مخالف جذبات ابھاریں گے۔انہوںنے انخلاء کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کی تعیناتی کے لیے امریکہ کے ساتھ معاہدہ کرنے سے انکارکردیا ہے۔
خوش قسمتی سے افغانستان جمہوریت کی طرف خوش اسلوبی سے بڑھ رہا ہے۔ اسی افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ نے اپنے ملک کے اندرونی خلفشار، خانہ جنگی اور مقامی وار لارڈزکی علاقائی خود مختاری، لوگوں کی بے روزگاری اور دیوالیہ پن سے گھبرا کر 1956ء میں صدرسکندر مرزاکو پیشکش کی تھی کہ افغانستان کو پاکستان میں شامل کرلیا جائے ۔ پاکستان کے ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے ظاہر شاہ کی اِس خواہش کو مسترد کر دیاتھا حالانکہ ظاہر شاہ نے اپنی دلیل میں کہا تھا کہ مغل دورِ حکومت میں کابل ہمیشہ پنجاب کا حصہ رہا اور مغلیہ دور میں افغانستان دہلی حکومت کا صوبہ تھا۔ 
افغانستان سے دائمی تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاک افغان کمیشن محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں بنایا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں