"KDC" (space) message & send to 7575

تمام فریق ذمہ داری کا ثبوت دیں!

وفاق پاکستان کو اس وقت مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کو معاملات قابو میں رکھنے میں مشکلات درپیش ہیں جس کی بڑی وجہ یہ محسوس ہوتی ہے کہ تحریکِ انصاف کے رہنما زمینی حقائق سے اچھی طرح آگاہ نہیں‘ چند شخصیتوں نے عمران خان کو اپنے حصار میں لیا ہواہے۔ پہلے انہوں نے عمران خان کو زمینی حقائق سے دورکردیا جس کانتیجہ11مئی 2013ء کو سامنے آگیا‘ اب وہ اپنی ناکام حکمت عملی پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنے سربراہ سے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگوا رہے ہیں۔
اس وقت مجموعی طور پر ملک کے حالات تشویشناک رُخ اختیار کر رہے ہیں۔ حکومت اوراس کے اِداروں کے مابین ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ بعض وزراء اپنے بیانات سے غلط فہمیاں پیدا کررہے ہیں جس سے جمہوریت کے غیر مستحکم ہونے کی راہ ہموار ہورہی ہے۔ چند روز قبل فوج کے سربراہ کی جانب سے بیان جاری ہوا کہ فوج کے وقارکا ہرحال میں تحفظ کیا جائے گا۔ 1999ء میں حالات اسی طرح بگڑے تھے۔ بلوچستان کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز نے اپنے کزن اوروفاقی وزیر واٹر اینڈ پاورراجہ نادر پرویز کے ہمراہ وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی تھی جس کے لیے انہوں نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔اس پرآرمی چیف نے لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز کو برطرف کر کے ان کاکورٹ مارشل کرنے کا حکم دے دیا تھا جس سے وزیراعظم نوازشریف اور افواجِ پاکستان کے درمیان اختلافات کی خلیج پیدا ہوگئی اور 12اکتوبر1999ء کا قومی سانحہ پیش آگیا۔ اِسی طرح کا واقعہ 1950ء میں بھی رونما ہوا تھا جب ایک میجر جنرل نے اپنے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کے علم میں لائے بغیر وزیراعظم لیاقت علی خان کو ان کی یومِ پیدائش کے موقع پرگلدستہ بھیج دیا تھا۔ اس پر کمانڈر انچیف نے اس میجر جنرل کوبرطرف کر دیا تھا۔وزیراعظم لیاقت علی خان نے اس پر خاموشی میں عافیت سمجھی تھی۔ 
اب ملک کے دوسرے حالات کی طرف آتے ہیں۔ بلوچستان میں ریاستی اور حکومتی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے۔ کہاجاتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور 11مئی2013ء کے صوبائی انتخابات کے نتائج ایک خاص جگہ پر بیٹھ کر مرتب کئے گئے تھے۔ بظاہر لگتا ہے کہ بلوچستان میں قومی، جمہوری اور لبرل سیاسی قوتیں کمزور ہو چکی ہیں۔ پختون علاقوں میں فرقہ وارانہ انتہا پسند تنظیمیں مضبوط ہیں اور بلوچ علاقوں میں علیحدگی پسند عناصر کا کنٹرول ہے۔ پنجاب میں بھی حالات اطمینان بخش قرار نہیں دیے جاسکتے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بارے میں بعض حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ طالبان اور دوسرے انتہا پسند گروہ اس کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ اسی صوبے میں بھی قومی، جمہوری، لبرل اور روشن خیال سیاسی قوتیں کمزور ہیں اور جاری پالیسیاں ان قوتوں کودیوار سے لگارہی ہیں۔
وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے اچانک دوروں، سول اور پولیس افسروںکے خلاف سخت کارروائی کی وجہ سے صوبائی اداروں پر ریاست اور حکومت کا کنٹرول کم ہورہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کی چند بڑی سیاسی شخصیتوں کے ایما پر سابق صدر پرویز مشرف اور ان کی پارٹی کو الیکشن کے عمل سے باہر رکھاگیا تھا اوراس مقصد کے لیے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 62-63کا غلط استعمال کیا گیا۔
سندھ کے حالات 1990ء سے ہی خراب چلے آرہے ہیں، وہاں خون ریزی ہورہی ہے۔ فوج کی معاونت کے باوجود ریاست اور حکومت اِس کا سد باب کرنے میں ناکام رہی ہے۔ سیاسی قوتوں نے اپنے طور پرجو کوششیں کی تھیں‘ وہ بھی کامیاب نہیں ہوسکیں۔ 
اس صورت حال میں پاکستان کو جس طرح کی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے‘ وہ اس سے محروم ہے۔ خارجہ پالیسی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو وزیراعظم میاں نوازشریف بھارت کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دوستوں نے انہیں نظریہ پاکستان کے بارے میں کسی غلط تعبیر پر قائل کررکھا ہے۔دوسری جانب پاکستان کی فوج جس فلسفے پر اب تک عمل کرتی آئی ہے اس کے مطابق بھارت ایک دشمن ملک ہے۔اس کے مطابق افغانستان کے اندر سٹریٹیجک گہرائی کے لئے کچھ گروہوں کو سپورٹ کرنا اور پاکستان کے اندر ملک دشمن انتہا پسندوں کا خاتمہ کرنا ضروری ہے ۔ اس میں ممکنہ طور پر اپنے سابق آرمی چیف کا دفاع بھی شامل ہو سکتا ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے سابق آرمی چیف کا ٹرائل، بھارت کے ساتھ دوستی کی خواہش، طالبان سے مذاکرات ، وزیرستان کے ان علاقوں سے فوج کی واپسی پر آمادگی جو فوج نے کئی ہزار جوانوں کی قربانی دے کر حاصل کیے ہوں اورطالبان کی رہائی جیسے معاملات حکومت اور فوج میں خلیج پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ 
اس سارے پس منظر کو مدنظر رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی صورت حال خطرناک موڑ پرپہنچ گئی ہے۔ شاید ملک کو یہاں تک لانے والے سوچ رہے ہوں کہ انہوں نے بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ وزراء کے بیانات اور میڈیا کی وجہ سے معاملات ہاتھ نکل بھی سکتے ہیں۔ 
ادھر بھارت میں بی جے پی کے امیدوارنریندرا مودی کے وزیراعظم بننے کے قوی امکانات ہیں جس سے پاکستان کے لیے بڑی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کنٹرول لائن پر چھیڑ خانی شروع کردی جائے، بلوچستان اور سندھ میں تخریب کاری میں اضافہ ہوجائے اور افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے بعد وہاں کی صورت حال پاکستان کے لئے مشکل کا باعث بن جائے ۔ ان حالات میں بالواسطہ طور پر افواجِ پاکستان سے تقاضا کرنا کہ وہ اپنے فلسفے کو تبدیل کرے ، شاید ممکن نہ ہوگا۔ ایک سینیٹر کے حالیہ ہلکے پھلکے ریمارکس نے بھی فوج کے لئے مشکل پیدا کر دی ہے جس کے مضمرات 11مئی 2014ء کوسامنے آسکتے ہیں کیونکہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اسی دن سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کر دیا ہے۔اس دن ڈاکٹر طاہرالقادری انقلاب کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے بقول حکمران ، طالبان سے مذاکرات اور سابق صدر پرویز مشرف کے ٹرائل کی آڑ میں قومی اِداروں کی نجکاری کے ذریعے اَربوں روپے کماناچاہتے ہیں ۔ 
حکومت جس طرح کاروباری معاملات میں بے ضابطگیاں کر رہی ہے‘ اس سے بھی کئی جگہ خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ بعض دوست ممالک نے کوشش کی ہے کہ وہ سابق صدر کو باہر لے جائیں مگر اب معاملہ کافی آگے بڑھ چکا ہے۔ ان حالات میں حکومت ، فوج اور دوسرے تمام سٹیک ہولڈرز کو انتہائی ذمہ داری سے معاملات سے نمٹنا ہوگا تاکہ ملک کو کسی بڑے سانحے سے محفوظ رکھا جاسکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں