"KDC" (space) message & send to 7575

مملکتِ پاکستان کا چوتھا ستون

سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی احکامات کے باوجود وفاقی حکومت ابھی تک مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے کوئی قدم اُٹھانے میں اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے‘ جس پر قانونی، سیاسی اور سول سوسائٹی کے حلقوں نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اس کا نوٹس لے سکتی ہے۔ بادی النظر میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو چیف الیکشن کمشنر کے تقرر میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ آئین سے انحراف کی ہمارے ہاں طویل روایات ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 32اور141-Aکے تحت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بارے میں حکومت نے آئین کی خلاف ورزی کی‘ اسی طرح مردم شماری جو 2008ء میں آئینی طور پر کروانا لازمی تھی‘ اس آئینی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے مطابق وزیراعظم نے اپوزیشن لیڈر کو تین نام بھجوائے ہیں‘ جس کے بعد وہ بھی کوئی دو نام تجویز کر سکتے ہیں‘ جب کہ متحدہ اپوزیشن کے لیڈر کا کہنا ہے کہ حکومت نے ابھی تک چیف الیکشن کمشنر کے لئے کوئی نام نہیں بھجوایا‘ اس لئے اس معاملہ پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کے استعفیٰ کے بعد اس وقت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی کو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا جو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی 12دسمبر 2012ء کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس بن گئے اور اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس ناصر الملک قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اصولی طور پر ریٹائرڈ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کے استعفیٰ کے فوراً بعد وزیراعظم آئین کے مطابق قائدِ حزب اختلاف سے مشاورت کر کے نیا چیف الیکشن کمشنر مقرر کر دیتے کہ جمہوری ملک میں یہ انتہائی ضروری اور اہم عہدہ ہے۔ پارلیمنٹ گریٹ ڈِیبیٹ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ 
ہمارے داخلی عدم استحکام اور خلفشار میں انتخابات کا خوف بہت بڑا عامل رہا ہے۔ صدر سکندر مرزا نے مغربی پاکستان کی دائیں بازو کی جماعتوں سے جداگانہ انتخابات کا نعرہ بلند کرا دیا جب کہ مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعتیں مخلوط انتخابات کی حامی رہیں اور اِسی کشمکش میں الیکشن کمیشن آف پاکستان ملک میں انتخابی فہرستیں مرتب کرانے میں ناکام رہا کہ مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتیں مخلوط انتخابی نظام کے خلاف مہم چلا رہی تھیں۔ اسی سیاسی تنائو میں وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے فروری1959ء میں ملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ انتخابی طبلِ جنگ بجتے ہی ایوانِ صدر میں ہلچل مچ گئی اور سہروردی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کی کوششیں شروع ہو گئیں تو انہوں نے حالات کو دیکھتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کے بعد یکے بعد دیگرے دو وزیراعظم آئے۔ اسی دوران خان عبدالقیوم خان کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے 28 میل لمبا جلوس نکالا اور جداگانہ طرزِ انتخاب کا مطالبہ کیا گیا۔ اس پر امریکہ میں گہری تشویش پیدا ہوئی کہ انتخابات میں وہ جماعتیں برسر اقتدار آجائیں گی جو اس کے مفادات کے خلاف ہوں گی۔ لہٰذا صدر سکندر مرزا نے 8اکتوبر1958ء کو 23مارچ1956ء کا آئین منسوخ کر کے ملک میں مارشل لاء لگادیا اور کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا ۔ تقریباً گیارہ سال بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک تاریخی منظر اُبھرا۔ وہی فیلڈ مارشل محمد ایوب خان‘ جنہوں نے پارلیمانی جمہوریت کو عوام کے مزاج اور 
ملکی سا لمیت کے خلاف قرار دیا تھا‘ عوامی احتجاج کے سامنے سرنگوں ہو کر 14مارچ1969ء کو اپوزیشن جماعتوں کے دو بڑے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ ملک میں پارلیمانی نظام بحال کیا جاتا ہے اور آئندہ انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوں گے اور 1962ء کے آئین میں مطلوبہ قانون سازی کرنے اور اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر عبدالجبار خان کو سپرد کرنے کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس 4اپریل 1969ء کو طلب کر لیا گیا‘ مگر حالات روز بروز شعلہ بداماں ہوتے جارہے تھے اور اس وقت کے فوج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد یحییٰ خان نے انتخابات کا راستہ روکتے ہوئے 25مارچ 1969ء کو مارشل لاء نافذ کر دیا اور بعدازاں آئین ساز اسمبلی کے انتخابات 7دسمبر 1970ء کو کروانے کا اعلان کر دیا گیا۔
جنرل یحییٰ خان کے ایماء پر اس عرصے میں بڑی بڑی سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئیں۔ ایئرمارشل محمد اصغر خان‘ جو مسٹر بھٹو کے مدِ مقابل کھڑے تھے‘ کی سیاسی جماعت پاکستان جسٹس پارٹی کو متحدہ سیاسی جماعتوں میں مدغم کر کے ان کو تیسرے درجے کے سیاسی رہنمائوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ اس طرح دیگر علاقائی عصبیتیں اور طبقاتی نفرتیں بڑھتی گئیں۔ مشرقی پاکستان میں بنگلہ عصبیت کے نام پر عوامی لیگ نے ایک فاشسٹ جماعت کا روپ دھار لیا اور جنرل یحییٰ خان نے انتخابات کو فری فار آل کے تحت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے دھاندلیاں کرنے کا راستہ کھول دیا۔ انتخابی نتائج نے پاکستان کو سیاسی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا کہ مشرقی پاکستان میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت کا ایک بھی اُمیدوار مغربی پاکستان میں کامیاب نہیں ہوا اور یہی معاملہ مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا تھا۔پھر یہ خوفناک حقیقت سامنے آئی اور پاکستان دو لخت ہو گیا ۔
ذوالفقار علی بھٹو سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد 21دسمبر 1971ء کو برسراقتدار آئے تو انہوں نے کمال دانشمندی سے 1973ء میں ایک متفقہ دستور دیا اور الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اس کے ارکان مکمل طور پر اعلیٰ عدالتوں کے فاضل جج صاحبان سے لئے گئے جس کی شروعات جنرل محمد یحییٰ خان نے ایل ایف او کے تحت یکم جولائی 1970ء کو کی تھی۔ بظاہر یہ سوچ اور فلسفہ بڑا دلکش اور حد درجہ خوش آئند نظر آتا تھا‘ مگر بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وہ ایک خوش فہمی کے سوا کچھ نہ تھا اور اس کی تعبیر میں بہت بڑی خرابی مضمر تھی۔ 7مارچ1977ء میں انتخابات جس الیکشن کمیشن کے تحت منعقد ہوئے‘ اس کے سربراہ سپریم کورٹ کے سابق جج مسٹر جسٹس سجاد احمد خان تھے اور پوری قوم ان انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے خلاف اُٹھ کر کھڑی ہوئی۔ میں نے بطور ڈپٹی الیکشن کمشنر اس عظیم المیہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ چار ماہ کی جلائو گھیرائو اور خون ریز مہم اور ملک گیر احتجاج کے بعد جنرل ضیاء الحق کو 4جولائی 1977ء کو مارشل لاء نافذ کرنا پڑا۔ اس کے بعدہونے والے انتخابات ملتوی کر دئیے گئے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان جسٹس مشتاق حسین کی سربراہی میں خاموش اور بے بس نظر آتا رہا۔ 4اپریل 1979ء کو 
مسٹر بھٹو کی سزائے موت دینے کے بعد انتخابی عمل نومبر 1984ء تک معطل رہا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان 11مئی 2013ء کے انتخابات میں اپنی انتظامی صلاحیتیں بروئے کار لانے میں ناکام رہا ۔
میں نے بطور وفاقی سیکرٹری کمیشن آف پاکستان اور چیئرمین انتخابی اصلاحات کمیشن کے تجاویز پیش کی تھیں کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل میں بنیادی تبدیلی لائی جائے اور انتخابی عذرداری داخل کرتے ہوئے انتخابی درخواست دہندہ کو متعلقہ ریٹرننگ آفیسر کو اپنی انتخابی عذر داری میں فریق اول قرار دینے کی اجازت دی جائے۔ موجودہ انتخابی قوانین میں عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی شق 57-52کے مطابق ریٹرننگ آفیسران کو فریق بنانے کی قانونی طور پر اجازت نہیں ہے۔ اگر ریٹرننگ آفیسران کو فریق بنایا جائے تو وہ اپنے حلقے میں انتخابی دھاندلی کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا اور اس کا مستقبل دائو پر لگ جائے گا اور اس کی حتی المقدور کوشش ہو گی کہ اس کے حلقے میں انتخابات آرٹیکل 219کی روح کے مطابق ہوں؛ چنانچہ وہ انتظامی قوتوں اور سیاسی جماعتوں کے دبائو میں آنے سے گریز کرے گا۔ پارلیمانی جماعتوں کو انتخابی اصلاحات کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں