"KDC" (space) message & send to 7575

چند حقائق

جب تک ہمارے سیاستدان اور دانشور اس سوچ سے باہر نہیں نکلیں گے کہ افواجِ پاکستان بھی ایک سرکاری اِدارہ ہے جس کی کمان اسی انداز میں کسی وزیراعظم یا وزیر داخلہ یا کسی طاقتور حکومتی اہل کار کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے جس انداز میں پولیس یا دوسرے سرکاری محکموں کی ہوا کرتی ہے، اس وقت تک اس ملک کو حقیقی سیاسی استحکام نصیب نہیں ہو گا۔ جب ہمارے جمہوریت پرست اور دانشور طبقے سول سوسائٹی کی مکمل بالادستی اور فوج کی طرف سے مکمل اطاعت شعاری کی بات کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں وہ مغربی ممالک ہوتے ہیں جنہیں سیاسی استحکام کی موجودہ سطح تک پہنچنے میں کم از کم دو صدیاں ضرور لگی ہیں۔ وہ یہ حقیقت فراموش کر جاتے ہیں کہ جن ممالک یا معاشروں کی اندھی تقلید کے وہ متمنی ہیں ، ان میں سے کسی کا قیام پاکستان کے انداز سے عمل میں نہیں آیا اور کسی کی تشکیل ایسے کسی چیلنج کا سامنا کر کے نہیں ہوئی جیسے چیلنج وطنِ عزیز کے حصے میں آئے ہیں۔ جس قسم کی سول بالادستی کی بات ہمارے دانشور طبقے کرتے ہیں اس کے مختصراً چشم کشا حقائق سامنے آرہے ہیں کہ گوجرانوالہ ، شیخوپورہ بیلٹ جہاںپر لوہے اور تانبے کے ذخائر دریافت ہونے کا امکانات ہیں،اس علاقے کے 100سے زائد مربع جات پر مشتمل زمینیں خریدی جارہی ہیں۔ اور یہی منظر چنیوٹ کے اس پہاڑی علاقے کا ہے جہاں ایشیا کے سب سے زیادہ معدنی ذخائر موجود ہیں ۔وہ تمام زمین بھی بااثر سیاسی گھرانے کے اہم افراد خرید رہے ہیں۔ 
پاکستان بنیادی طور پر ایک سکیورٹی مملکت ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہے گی کہ سکیورٹی ہماری اولین ترجیح ہے اور جب تک سکیورٹی ہماری اولین ترجیح رہے گی اس وقت تک قومی معاملات میں فوج کا کردار بہرحال کلیدی نوعیت کا رہے گا۔ فوجی جرنیل تو پھر بھی زیادہ سے زیادہ 3سال یا 5سال میں ریٹائر ہو جاتے ہیں، ہمارے سیاسی جنرل تو تاحیات حاضر سروسز رہنے کے شوقین ہیں اور جانشینی کے لیے اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کا انتخاب بھی زندگی میں ہی کر لیتے ہیں۔
آج جب ہم اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں، ہمارے ہاں قیادت کا بحران ہے۔ دراصل سول حکومت نے عسکری قیادت کی سمت کا تعین کرنا ہوتا ہے، اس کے ساتھ تنازع میں نہیں الجھنا ہوتا، لیکن ہماری موجودہ حکومت ایسا کرنے میں ناکام ہے۔ جس دوران قوم منقسم تھی، طالبان کا خطرہ شدید ہوتا جارہا تھا کہ ایک حادثے کی بنیاد پر قوم کو کنفیوژن میں مبتلا کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ جمہوری قومیں اپنے سانحات کا مقابلہ کنفیوژن سے نہیں عقل و فہم اور عزم سے کرتی ہیںجبکہ حکومت کی نااہلیت کنفیوژن میں اضافے کا موجب بن جاتی ہے ۔
سابق صدر پرویز مشرف کے مقدمہ کے حوالے سے گزشتہ روز ایک اہم پیش رفت تو یہ ہوئی کہ خصوصی عدالت نے بیرسٹر فروغ نسیم کی جانب سے اس اپیل کو مسترد کر دیا جس میں انہوں نے استدعا کی تھی کہ 3نومبر2007ء کی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے جن اِداروں سے مشاورت کی گئی ان کو شاملِ تفتیش کیا جائے جن کے بارے میں نوٹیفیکیشن میں مشاورت کرنے کا ذکر ہے۔ تاہم عدالت نے کہا کہ ریکارڈ پر کسی اور کے خلاف شواہد آئے تو غور کیا جائے گا۔ اس مقدمہ کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی طرف سے جن شخصیات کو شریک جرم ہونے کی بناء پر اس مقدمہ میں شامل کرنے کی درخواست کی گئی تھی ،جن میں شامل اس وقت کے وزیراعظم ، گورنر پنجاب اور اہم وفاقی سیکرٹریز اور سینئر سٹاف ممبران میں سے کسی نے بھی ایف آئی اے کی انکوائری ٹیم کے سامنے جنرل پرویز مشرف کے اس دعویٰ کی توثیق نہیں کی کہ 3نومبر2007ء کے اقدام میں سینئر فوجی اور سول قیادت میں معاونت یا مشاورت کا کوئی عمل دخل موجود تھا۔ اس صورتحال میں جو حقائق بعض میڈیا پرسنز کے ذریعے حکومتی اہل کار منظر عام پر لارہے ہیں ، حقائق کے برعکس ہیں۔ اس کی مختلف جھلکیاں ملاحظہ ہوں ۔جب 3نومبر2007ء کو رات آٹھ بجے ایوانِ صدر میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اُٹھا رہے تھے ، اس وقت کیبنٹ سیکرٹری نے صدارتی فرمان پڑھ کر سنایا۔ اس میں واضح طور پر لکھا ہوا تھا کہ صدر مملکت نے وزیراعظم کے مشورے پر جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کر دیا ہے۔تقریب میں وزیراعظم شوکت عزیز، اہم عسکری شخصیات ،وفاقی وزراء،اور سفارتی نمائندے موجود تھے اور بطور، وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان، میں بھی وہاں موجود تھا۔ کیا ان کی موجودگی ایمرجنسی کے معاملہ میں مشاورت کے زمرے میں نہیں آتی؟
اسی رات چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں گورنر پنجاب خالد مقبول، گورنر سندھ عشرت العباد، گورنر بلوچستان اویس غنی اور گورنر صوبہ سرحد جنرل علی قلی خان اورک زئی نے اپنے اپنے صوبے کے چیف جسٹسوں سے حلف لیا اور اسی طرح لاہور، پشاور، بلوچستان اور سندھ کے ججوں نے بھی اپنے اپنے چیف جسٹسوں کے سامنے حلف اٹھایا اور3نومبر2007ء کے بعد پارلیمنٹ نے غالباً 15نومبر2007ء کو قومی اسمبلی اور چاروں اسمبلیاں اپنی اپنی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہو گئیں اور اس ایمرجنسی آرڈر کے تحت متعلقہ چیف جسٹسوں کی مشاورت سے ریٹرننگ آفیسران کا تقرر اور اپیلٹ الیکشن ٹربیونلز کے لئے متعلقہ ہائی کورٹ کے ججوں کا تقرر بھی کیا گیا اور ایمرجنسی آرڈر کے تحت ہی جب آئین معطل تھا،الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن شیڈول جاری کیا اور الیکشن کمیشن کے ارکان ،جو متعلقہ ہائی کورٹس کے حاضر سروسز ججز تھے ،نے ایمرجنسی آرڈر کے تحت ہی حلف اٹھایا تھا۔ جوں جوں یہ مقدمہ آگے چلتا رہا توں توں حقائق کے دَر کھلتے رہیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ اس معاملہ کو مزید طول نہ دیا جائے۔
ہمارے ملک کے وجود میں آتے ہی آئین ساز اسمبلی گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کو ضروری ترامیم کے ساتھ عارضی آئین کے طور پر نافذ کر دیا گیا تھا۔ بھارت نے بھی 1935ء ایکٹ میں مزید ترامیم کے بعد 26جنوری 1951ء کو بھارت کا آئین نافذ کر دیاتھا۔ پاکستان میں 1935ء ایکٹ میں اپنی خواہش اور ذاتی مفادات پر مبنی مزید ترامیم کر کے اسے 23مارچ1956ء میں مستقل آئین بنالیا گیاتھا۔ آئین بننے تک عارضی آئین ہی مستقل آئین کے طور پر نافذ رہا۔ اس کی پہلی بڑی خلاف ورزی فوجی نہیں بلکہ سویلین حکمران کے ہاتھوں ہوئی، جب گورنر جنرل غلام محمد نے 24اکتوبر1954ء کو آئین ساز اسمبلی توڑ دی۔ 1956ء کا آئین بھی اِسی آئین کے تحت 18ماہ پہلے حلف اٹھانے والے ایک سویلین صدر سکندر مرزا نے 7اکتوبر1958ء کو منسوخ کیا اور مارشل لالگا دیا۔ جنرل محمد ایوب خان نے جب بیس دن بعد صدرِ مملکت کا عہدہ سنبھالا تو صرف عارضی آئین نافذ تھا۔ چنانچہ نہ صرف انہوں نے آئین شکنی نہیں کی تھی بلکہ 8جون 1962ء میں نئی آئین ساز اسمبلی کے منظور کردہ نیا مستقل آئین نافذ ہونے تک جس نے بھی عارضی آئین کے تحت حلف اٹھایا اس نے کوئی خلاف ورزی نہیں کی ۔
جنرل یحییٰ خان نے 25مارچ1969ء میں آئین منسوخ کیا۔ بعد میں اس نے بغیر حلف اٹھائے صدر کا عہدہ سنبھال لیا کیونکہ صدر ایوب خان نے اسے صرف امن بحال کرنے کے لئے آئین کے تحت خط لکھا تھا کہ بطور کمانڈر انچیف پاکستان آرمی ملک کو اندرونی خلفشار سے بچانے کیلئے آئینی قدم اٹھائے۔ کیونکہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کو سپرد کرنے کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس 4اپریل 1969ء کو طلب کئے ہوا تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سپرد نہیں کیا تھا بلکہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان تقریباً ڈھائی سال غیر آئینی صدر مملکت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔یہ حقائق ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں جو ماضی کی ہر غلطی کا ذمہ دار عسکری حلقوں کو ٹھہراتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں