"KDC" (space) message & send to 7575

11 مئی کے انتخابات

میرے خیال میں حکومتیں اپنی طاقت کے بارے میں غلط اندازے لگا لیتی ہیں۔ فوج کے ساتھ محاذ آرائی ہو تو جمہوریت نہیں چل سکتی۔ ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا جاتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تباہی پھر سر پر کھڑی نظر آنے لگتی ہے۔ جمہوریت کی ناکامی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ کہا جانے لگتا ہے کہ آئندہ چند ماہ بہت اہم ہیں۔یہ منظر ہر دور میں دیکھا گیا اور شاید اب بھی ہے۔ گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کو خود سیاست دانوں نے بے توقیرکر دیا ہے۔ ملک کو جن مسائل کا سامنا ہے، لگتا ہے وہ حکومت کی ویژن سے باہر ہیں۔ پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ ملک میں نہ کوئی وزیر خارجہ ہے نہ وزیر قانون، وزیر دفاع بھی بے اختیار محسوس ہوتا ہے۔ خاندانی حکومت ہے اور ہر ادارے کے ساتھ محاذ آرائی جاری ہے۔ اربوں، کھربوں روپے دوستوں اور پارٹی کے ساتھیوں کو مفادات پہنچانے کے لیے خرچ کیے گئے جو عملاً ضائع ہو گئے۔ تمام بڑے منصوبے ماضی میں پلاننگ کمشن نے بنائے تھے۔ کیا اب ایسا ہو رہا ہے؟
پاکستان میں جامع انتخابی اصلاحات کے لیے بہاولپور سمیت انتظامی بنیادوں پر مزید صوبے بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ 11 مئی 2013ء کے انتخابات میں بے جا مداخلت کی گئی اور 18ویں ترمیم کے نتیجے میں چیف الیکشن کمشنر کمزور ہو گئے۔ شاید اسی وجہ سے وہ ویسی کارکردگی نہ دکھا سکے‘ جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی۔ سابق چیف جسٹس نے 25 مارچ 2009ء کو اپنی بحالی کے بعد آئندہ انتخابات کے لیے ماتحت عدلیہ کے افسران کی بطور ریٹرننگ افسر تعیناتی ختم کر دی تھی، لیکن ان کی خدمات دوبار الیکشن کمشن کو تفویض کرنے کے لیے الیکشن کمشن کی جانب سے پراسرار طور پر ریفرنس چیف جسٹس کو بھجوا دیا گیا۔ اس وقت چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخرالدین جی ابراہیم تین روزہ دورے پر دہلی گئے ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ 2009ء میں جوڈیشل افسروں کی خدمات واپس لینے کا فیصلہ سامنے آنے پر الیکشن کمشن نے انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے دیانتدار افسروں کی بطور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر ٹریننگ کا آغازکر دیا تھا‘ مگر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے عدلیہ ہی کے افسروں کی خدمات الیکشن کمشن کے حوالے کر دیں۔ اس فیصلے کی روشنی میں جو ریٹرننگ افسر تعینات کیے گئے، انہوں نے الیکشن کمشن کے احکامات نظر انداز کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا کھلم کھلا مذاق اُڑایا۔
اب 11 مئی کو پاکستان کے عوام اس انتخابی نظام کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ ہر الیکشن میں جعل سازی، دھونس اور غنڈہ گردی کر کے نام نہاد اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے اسمبلیوں میں جمہوریت کا حسن بکھیرنے کے لیے چلے جاتے ہیں۔ ملک کے دانشور، عدلیہ کے معزز ارکان اور میڈیا کے لوگ بتائیں کہ کیا پاکستان میں تمام برائیوں کا ذمہ دار انتخابی نظام نہیں؟ اسی نظام کے تحت ملک کی دولت لوٹنے والے کو پارلیمنٹ تحفظ دیتی ہے۔ کیا کرپشن کے اربوں ڈالر بیرون ملک لے جا کر محلات تعمیر کرکے ملک کو دیوالیہ نہیں کیا جا رہا؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے‘ وہ آئین کے آرٹیکل 62,38,3,2-A اور 63 کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ پاکستان کا موجودہ آئین بھی ملک کے سنگین مسائل حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ عام آدمی پوری زندگی انصاف کا متلاشی رہتا ہے۔
11 مئی کے انتخابات میں مبینہ طور پر وسیع پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ بیلٹ پیپرز کھلے عام حامیوں میں تقسیم ہوتے دیکھے گئے۔ انگوٹھوں کی تصدیق کے حوالے سے سابق چیف جسٹس نے ہر درخواست مسترد کر دی۔ الیکشن ٹربیونلز انتخابی انصاف دینے میں ناکام رہے۔ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ریٹرننگ افسروں نے کرپٹ امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی منظور کیے۔ سابق چیف جسٹس نے چاروں صوبوں کے ریٹرننگ افسروں سے خطاب کیا اور انہیں خطوط بھی لکھے جبکہ آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت شفاف اور غیرجانبدارانہ الیکشن کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمشن پر عائد ہوتی ہے۔ سابق چیف جسٹس نے بلاوجہ الیکشن کمشن کے آئینی معاملات میں مداخلت کی۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کس حیثیت سے کیا؟
پاکستان کے لیے بنگلہ دیش کا انتخابی نظام بہترین نمونہ تھا۔ اس میں بیلٹ پیپرز پر ایک خالی خانے کا اضافہ کیا گیا تھا‘ جس کا مطلب یہ تھا کہ جس ووٹر کو کسی بھی امیدوار سے اتفاق نہیں وہ خالی خانے پر نشان لگا دے اور اگر کسی حلقے میں ناپسندیدگی کے نشانات کی تعداد 50 فیصد سے زائد ہو جائے تو اس حلقہ میں الیکشن کالعدم اور الیکشن لڑنے والے تمام امیدواروں کو پانچ سال کے لئے نااہل قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح الیکشن میں حصہ لینے والوں کے علیحدہ بینک اکائونٹ کھولنا لازمی ہوتا ہے اور الیکشن کے اخراجات اسی اکائونٹ سے ادا کیے جاتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وفاقی سیکرٹری اور چیئرمین انتخابی اصلاحات نے 11 مارچ 2009ء کو انتخابی تجاویز کی الیکشن کمیشن سے منظوری لے کر اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو پیش کر دی تھیں، لیکن حکومت نے انہیں سرد خانے میں رکھ چھوڑا۔ الیکشن کمشن نے اپنے اختیارات کو جزوی طور پر بروئے کار لاتے ہوئے 11 مئی 2013ء کے انتخابات کے لیے بیلٹ پیپرز پر None of Above کے کالم کا اضافہ کر دیا اور چیف الیکشن کمشنر نے اس کی منظوری کا عندیہ بھی دے دیا تھا لیکن 18 اپریل 2013ء کو جب بیلٹ پیپرز کی چھپائی شروع ہونے لگی تو پُراسرار طریقے سے یہ کالم نکال دیا گیا۔ اس کے علاوہ الیکشن کمشن نے بیلٹ پیپرز کے لیے کاغذ جرمنی سے درآمد کرنے کا اعلان کیا لیکن اندرونی حقیقت یہ ہے کہ آخری لمحے پر حکومت کے پرنٹنگ پریس نے اس تجویز کو فنی بنیادوں پر نامنظور کر دیا اور عذر یہ پیش کیا کہ ان کی مشینری جرمنی سے درآمد کردہ کاغذ پر پرنٹنگ نہیں کر سکتی۔ جس ادارے نے تکنیکی اور سائنسی بنیادوں پر انمٹ سیاہی تیار کی، اس کی کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا گیا اور ریٹرننگ افسران کی ملی بھگت سے پولنگ تھیلوں میں جعلی سیاہی کے پیکٹ رکھوا دیے گئے جس کی وجہ سے نادرا جعلی انگوٹھوں کی تصدیق کرنے میں ناکام رہی۔ پولنگ کا عملہ، پولیس اور بیوروکریسی ان معاملات میں ملوث رہی۔ قوم کو ایسے انتخابی نتائج دیے گئے جن پر تمام سیاسی جماعتوں کو تحفظات رہے۔ یورپی یونین کے مبصرین اور پاکستان کی سول سوسائٹیاں بھی انتخابی عمل کی نگرانی کرتی رہیں لیکن یہ مصلحت کا شکار ہیں۔ 
عسکری ادارے اور حکومت کے مابین مبینہ طور پر بعض قومی معاملات پر اختلافات سامنے آ رہے ہیں‘ جن کے باعث مشکلات درپیش ہیں۔ حساس اداروں کو مبینہ طور پر تین بڑے معاملات پر تحفظات ہیں۔ وہ وزیر اعظم کی افغان اور بھارت پالیسی سے خوش نہیں۔ مقتدر حلقوں کو اس پالیسی پر بھی شدید اعتراض ہے کہ انہوں نے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے ووٹ افغان الیکشن میں ڈالنے کے لیے سابق روایات کے برعکس پولنگ سٹیشن بنانے کی اجازت نہیں دی اور امریکہ کی خفیہ تجویز پر عمل کیا۔ ان کے اس اقدام سے افغان انتخابات میں پاکستان کا ایک اہم کارڈ بے اثر ہو گیا جو انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے اسے پسندیدہ ملک قرار دینا بھی اس کے لیے قابل قبول نہیں۔ بھارت میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کا خدشہ ہے جو پاکستان کا مخالف ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کے ساتھ مسلسل مذاکرات سے وزیر اعظم نے طالبان کو باور کرا دیا ہے کہ ملک میں وہی ان کے خیر خواہ ہیں۔ مقتدر حلقوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم طالبان کے خلاف آپریشن کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان 11 مئی کو احتجاج کر رہے ہیں اور حکومت کے ممکنہ خاتمے کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ ایک نظریہ یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کی طرف سے دیے گئے 35 حلقوں میں اگر الیکشن ٹربیونلز نے الیکشن کالعدم قرار دینا شروع کر دیے تو حکومت کی اکثریت دنوں میں اقلیت میں بدل جائے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں