"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی نظام تنقید کی زد میں

ملک میں الیکشن ہوئے ایک سال گزر گیا مگر سیاسی جماعتوں، اداروں، میڈیا اور عوام میں جو ٹھہرائو اور برداشت کی قوت پیدا ہوئی تھی‘ وہ کہیں نظر نہیں آ رہی۔ ملک کے مستقبل کے بارے میں کوئی اعتماد سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ہر سیاسی رہنما یا ادارہ ایک دوسرے پر الزام دھر اور ذمہ داری ڈال رہا ہے۔ کوئی اپنا کام دیانتداری سے نہیں کر رہا۔ ٹوٹ پھوٹ کا عمل بجائے ختم ہونے کے بہت تیز ہو گیا ہے۔ 
پاکستان میں آج تک جتنے بھی الیکشن ہوئے‘ ان پر انجینئرڈ الیکشن کا الزام لگایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پارلیمنٹ عوام کے اعتماد سے محروم رہی‘ جو ایک جمہوری ملک کا تقاضا ہے۔ یہاں اگر پاکستان کے مسائل کا سرسری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اداروں کے آزاد اور خود مختار نہ ہونے کی سزا ملک و قوم کو ہر وقت تصادم کا خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑ رہی ہے۔ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی طرف نظر دوڑائیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہاں پر اداروں نے خود کو آئین و قانون کے حقیقی روح پر چل کر مضبوط اور توانا کیا‘ جب کہ پاکستان میں صورت حا ل اس کے بالکل برعکس ہے۔ حقیقی اور با اختیار الیکشن کمیشن کا مطالبہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں کیا گیا‘ اس سے قبل بھی ایسے مطالبات پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ ہمارے یہاں الیکشن میں ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دینے کا رواج ہے۔ حکومتی اور اپوزیشن حلقے عوام کی توقع کے برعکس اپنے ذاتی مفادات کو ہی پیش نظر رکھتے ہیں۔ اب جب کہ عمران خان کی طرف سے نئے اور با اختیار الیکشن کمیشن کا مطالبہ سامنے آ چکا ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر اپوزیشن سیاسی جماعتیں بھی پوری طرح اس سے متفق نظر آتی ہیں۔ اگر یہ جماعتیں حکومت پر دبائو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئیں اور الیکشن کمیشن کے ارکان کو عوامی دبائو کے تحت فیصلہ کرنا پڑاتو پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت بکھر جائے گی۔ اگر سیاسی جماعتوں نے عمران خان کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے متحدہ طور پر کام کرنے کی دعوت قبول کر لی تو گرینڈ الائنس بننے کی صورت میں حکومت کے لئے دبائو برداشت کرنا ناممکن نہیںتو مشکل ضرور ہو سکتا ہے۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی طرف سے کیے گئے احتجاج کو اس وسیع پس منظر میں دیکھے۔ خدشہ ہے کہ یہ صرف چند نشستوں کا معاملہ نہیں رہے گا اور نہ ہی جلسے جلوسوں تک محدود رہے گا۔ ملک میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ اگر حکومت کی دانائی چند قریبی دوستو ں کے گرد گھومتی رہی تو پھر ملک میں موجودہ حکومت کو اپنی بقاء برقرار رکھنے میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
اصولی طور پر ہم سب کو آئین کی حکمرانی کی بات کرنی چاہیے۔ یہ کون سا قانون ہے کہ وفاقی وزراء‘ جن پر اپنے اپنے محکموں کے امور کی انجام دہی کا فریضہ عائد ہوتا ہے‘ بے سرو پا بیانات دینے کو اپنے شعار بنالیں‘ حالانکہ کچھ وفاقی وزراء کو آئین و قانون کی کوئی سمجھ ہی نہیں ہے۔ حکومتی ارکان اور وفاقی و صوبائی وزراء اپنے اپنے خوابوں اور خواہشات کے محل تعمیر کر رہے ہیں۔ امریکی صدر اختلافات کے باوجود پینٹاگون کو نیچا دکھانے کے لیے ان پر حملہ آور نہیں ہوتے۔ برطانوی وزیر اعظم ملک کی طاقتور خفیہ ایجنسی ایم آئی 6-کے ساتھ تصادم کی راہ پر گامزن نہیں ہوتے‘ لیکن ہمارے حکمران پہلی اور دوسری مرتبہ اقتدار میں آئے تو عسکری قیادت سے الجھ گئے۔ قابل اعتراض بیانات دینے والے دو تین وزراء نے وزیراعظم نواز شریف کو بند گلی میں کھڑا کر دیا ہے۔ اسی تناظر میں بظاہر اچانک شروع ہوجانے والی احتجاجی تحریکوں کی پشت پر حکومت اور دفاعی اداروں کے درمیان تنائو ایک محرک کے طور پر کار فرما ہو سکتا ہے۔ اگر یہ خدشہ درست ہے اوراگر ہم اپنی تاریخ سے صرف نظر نہ کریں تو پھر احتجاج کا پھیلتا ہوا دائرہ بہت سے سنگین نتائج کی سمت جا سکتا ہے۔ 
20ویں ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نام نہاد با اختیار بنایا گیا‘ مگر افسوس کہ مئی 2013ء میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے سابق چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم از خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کے پاس مکمل اختیارت نہیں تھے۔ یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان میں چیف الیکشن کمشنر ہمیشہ سیاسی حکومتوں کے زیر اثر رہا ہے‘ جس کے باعث صاف و شفاف الیکشن کا انعقاد پاکستان میں تاحال ایک خواب ہے۔ 
پاکستان کا انتخابی نظام ہمیشہ تنقید کی زد میں رہا ہے۔ ماضی میں جتنے بھی انتخابات ہوئے‘ ان کے شفاف ہونے کو کامیاب ہونے والوں کے سوا کسی نے تسلیم نہیں کیا۔ بعض تو جیت کر بھی مطمئن نہیں ہوئے۔ اسی وجہ سے جھرلو، چمک، جعل سازی اور الیکشن چوری کی اصطلاحات وجود میں آئیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت جو جماعتیں حکومت میں ہیں وہ بھی ان انتخابات میں بے ضابطگیوں کی شکایت کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی تو انتخابی دھاندلیوں کے بارے میں باقاعدہ وائٹ پیپر لا رہی ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی موجودہ انتخابی نظام سے مطمئن نہیں۔ خود الیکشن کمیشن آ ف پاکستان میں سیاسی
جماعتوں نے انتخابی قوانین میں دور رس تبدیلیاں لانے کے لئے حکومت سے درخواست کی ۔ اسی پس منظر میں 18فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد بین الاقوامی مبصرین ، سیاسی جماعتوں اور پاکستان میں سول سوسائٹیوں‘ جو انتخابی اصلاحات پر ریسرچ کر رہی تھیں‘ کی سفارشات کی روشنی میں اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جناب جسٹس قاضی محمد فاروق نے الیکشن کمیشن کی منظوری سے میری سربراہی میں انتخابی اصلاحات کمیشن بنایا۔ میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آ ف پاکستان انتخابی اصلاحات کی رپورٹ پیش کی۔ اس میں یہ تجویز بھی شامل تھی کہ انتخابی عمل میں مداخلت یا انتخابات کے شفاف‘ پُرامن اور آزادانہ انعقاد میں رکاوٹ ڈالنے کی صورت میں الیکشن کمیشن چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس سمیت کسی بھی آفیسر کو معطل کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ 55سے زائد ترامیم تجویز کی گئیں۔ یہ رپورٹ 11مارچ 2009ء کو‘ اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور صدر مملکت کو پیش کی گئی اور ابھی حال ہی میں 31مارچ 2014ء کو میں نے صدر مملکت جناب ممنون حسین کو بھی انتخابی اصلاحات کی رپورٹ پیش کی۔ سیاسی جماعتوں کوچاہیے کہ وہ بھی انتخابی اصلاحات کی اس رپورٹ سے استفادہ کریں۔ دستور پاکستان میں چند معمولی نوعیت کی ترامیم سے پاکستان کا انتخابی سسٹم بہترین جمہوریت کا عکاس ہو سکتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ وطن عزیز میں جمہوریت کے استحکام اور شہریوں کی مساوی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں