"KDC" (space) message & send to 7575

1977ء جیسی احتجاجی تحریک کا آغاز ہو سکتا ہے!

ملک کی چند بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر کڑی تنقید اور اس کے ارکان پر مستعفی ہونے کے لیے شدید دبائو سے ان ارکان میں سخت تشویش پائی جا رہی ہے؛ تاہم ارکان کی اکثریت کی رائے ہے کہ کسی قسم کے دبائو کو خاطر میں نہ لایا جائے اور کام جاری رکھا جائے۔ ان ارکان کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے احتجاج کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اپنا آئینی کردار ادا کرتے رہنا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے کسی سیاسی جماعت کو شکایات ہیں تو وہ آئین کے آرٹیکل 209کے تحت سپریم جوڈیشل کمیشن سے رجوع کرنے کے لیے صدر مملکت کو ریفرنس بھجوائے۔ 
سیاسی جماعتوں کی جانب سے دبائو کے بعد اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 11مئی 2013ء کے انتخابات میں ایک سے زائد ووٹ ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی اور اس جرم کا ارتکاب ثابت ہونے پر تین سال قید اور جرمانے کی سزا کا اعلان ملک میں انتخابی دھاندلی کو روکنے میں یقینا نہایت مؤثر ثابت ہو گا، بشرطیکہ اس پر عمل درآمد میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جمہوری 
نظام میں انتخابات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دیانتدارانہ اور منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں ملک کو عوام کی حقیقی طور پر حمایت یافتہ قیادت ملتی ہے۔ ایسی قیادت ملک و قوم کے مفادات کے لیے کام کرتی ہے‘ جب کہ جعلی اور دھاندلی پر مبنی انتخابات سے جعل ساز اور مفاد پرست برسر اقتدار آتے ہیں‘ جن کا اصل مقصد قومی وسائل لوٹ کر غیر ممالک میں جائیدادیں بنانا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اب تک مکمل طور پر شکوک و شبہات سے پاک و شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد محض ایک خواب ہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بوگس ووٹنگ کا رواج ہے جس کے نتیجہ میں مختلف علاقوں میں رہنے والے کرایہ دار درجنوں اور سینکڑوں ووٹ ڈالتے ہیں۔ نادرا کے تیار کردہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ووٹ ڈالنے کے لیے لازمی قرار دیے جانے اور بیلٹ کے کائونٹر فوائل پر ووٹر سے انگوٹھے کا نشان لگوانے کا اہتمام اسی لیے کیا گیا تھا کہ ایک فرد ایک سے زائد ووٹ نہ 
ڈال سکے ۔ گزشتہ انتخابات میں انگوٹھوں کے نشان کے لئے مقناطیسی سیاہی بھی اسی لیے استعمال کی گئی تھی کہ ضرورت پڑنے پر سائنسی طریقے سے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق ممکن ہوسکے مگر پورے ملک میں انتخابی دھاندلیوں کی لاتعداد شکایات کے باوجود ووٹروں کے انگوٹھے کے نشانات کی جانچ پڑتال کے حوالے سے کوئی نتیجہ خیز کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور نادرا کے چیئرمین کا تنازع کھڑا ہو گیا جس کی وجہ سے سارا انتخابی معاملہ ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ 
اب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی غیر جانبدارانہ ساکھ بچانے کے لئے انتخابات کے ایک سال بعد اس سمت میں پیش رفت کا فیصلہ کیا ہے تو اس پر عمل درآمد کے سلسلے میں کسی بھی طرف سے کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ 11مئی 2013ء کے انتخابات کو غیر جانبدارانہ اور شفاف رکھنے کی ذمہ داری نگران سیٹ اپ پر عائد ہوتی ہے۔ آئین کے متعلقہ آرٹیکل 219اور224اس کی ضمانت دیتے ہیں‘ لہٰذا سیاسی جماعتوں کو احتجاجی تحریک چلانے کے بجائے آئین کے آرٹیکل 219کی صریح خلاف ورزی پر نگران سیٹ اپ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6(i)کے تحت کارروائی کا مطالبہ کرنا چاہیے کیونکہ نگران سیٹ اپ شفاف، غیر جانبدارانہ انتخابات کروانے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی حقیقی معنوں میں معاونت کرنے میں ناکام رہا۔ اسی طرح نادرا کی رپورٹ پر متعلقہ پولنگ اسٹیشن کے عملے کے خلاف اور اس حلقہ کے ریٹرننگ آفیسر کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے کیونکہ پولنگ اسٹیشن کے عملے کی ملی بھگت ہی سے کوئی ووٹر ایک سے زائد ووٹ ڈالنے کے جرم کا ارتکاب کر سکتا ہے۔ انتخابات کے نتائج میں گڑ بڑ کرانے میں متعلقہ پولنگ اسٹیشن کا پریزائڈنگ آفیسر کا ہی عمل دخل ہوتا ہے‘ جو فارم XIIمیں تبدیلی کر کے جعل ساز پارلیمنٹ بنوانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ریٹرننگ افسران حتمی رزلٹ مرتب کرتے ہوئے فارم XIVاور فارمXIکی جانچ پڑتال کرنے میں کوتاہی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ 
عمران خان کے مطالبات کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے این اے 68سرگودھا کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔ عمران خان نے 500ووٹروں کی طرف سے 8ہزار جعلی ووٹ ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔ ایک پولنگ اسٹیشن پر 1500ووٹ درج تھے۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی میں ہونے والے انتخابات میں اس حلقے سے وزیر اعظم نواز شریف کامیاب ہوئے تھے۔ اگر اس حلقہ سے مزید بے ضابطگیاں اور جعلی ووٹ ڈالنے کے ثبوت منظر عام پر آ گئے تو ان کی کامیابی مشکوک ہو جائے گی۔ اسی طرح لاہور سے قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کی کامیابی کا کیس بھی الیکشن ٹربیونل میں زیر سماعت ہے۔ ان دو اہم حلقوں سے فیصلہ آنے کے بعد پارلیمنٹ شدید تنقید کی زد میں آ سکتی ہے اور عمران خان اپنے سیاسی مفاد کی جو جنگ لڑ رہے ہیں‘ ممکن ہے ان کے ارکان پارلیمنٹ مستعفی ہو کر مارچ 1977ء کی طرز پر تحریک کا آغاز کر دیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں