"KDC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم آ گے بڑھیں

بدقسمتی سے قائد اعظم محمد علی جناح کا حقیقی پاکستان 16 دسمبر1971ء کو ٹوٹ گیا اور اس کی جگہ مارشل لاء آرڈر 1971ء کے تحت بچا کھچا نیا پاکستان وجود میں آیا۔ اس وقت جنرل یحییٰ خان ملک کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور غیر حلف یافتہ صدرِ مملکت تھے لیکن پاکستان کی نامور سیاسی شخصیتوں کو احساس ہی نہ ہوا کہ انہوں نے 25 مارچ 1969ء کو فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کی حکومت، قومی اسمبلی، مغربی اور مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل اور 1962ء کا آئین منسوخ کرکے 31 مارچ 1969ء کو صدر پاکستان کا عہدہ بغیر حلف اٹھائے ہی سنبھال لیا تھا۔ پاکستان کے ناعاقبت اندیش سیاستدانوں کو احساس ہی نہ ہو سکا کہ ان کے ساتھ کتنا بڑا دھوکہ ہو گیا ہے۔ اگرچہ مشرقی پاکستان کے سانحہ کی ذمہ داری جنرل یحییٰ خان اور ان کی حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن اس المیہ کے وقوع پذیر ہونے کے ذمہ داروں میں اس وقت کے نامور سیاستدان بھی شامل تھے۔ اگر اکثریتی جماعت، عوامی لیگ کو اقتدار منتقل ہو جاتا تو ملک اس تکلیف دہ المیہ سے محفوظ رہ سکتا تھا۔
پاکستان میں فوجی حکومت کی بنیاد بظاہر صدر سکندر مرزا نے رکھی‘ جنہیں کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کی حمایت حاصل تھی۔ ایوب خان کی نظریں خاصے عرصے سے مسند اقتدار پر لگی ہوئی تھیں۔ سیاستدانوں کی باہمی کشمکش اور سیاسی پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے سیاسی معاملات میں ان کی مداخلت شروع ہو چکی تھی۔ جنرل ایوب خان پاکستان کی تاریخ میں وہ واحد وزیر دفاع تھے‘ جو یونیفارم میں گورنر جنرل غلام محمد کی کابینہ میں شامل تھے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں ان کے اپنے ساتھیوں نے بھی شکست دلوانے میں کردار ادا کیا تھا۔ اس امر کا اظہار محترمہ فاطمہ جناح نے پاکستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک وفد سے کیا تھا‘ جس میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ اس وفد میں بیگم اختر سلمان کی صاحبزادی شاہدہ (اب شاہدہ جمیل) خلیل الرحمان (جسٹس(ر) خلیل الرحمان رمدے) مصباح الدین قاضی، فاروق بیدار بخت (سابق ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب) اور چوہدری نذیر احمد (مرحوم) شامل تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے برملا فرمایا تھا کہ مخدوم حسن محمود، ممتاز احمد خان دولتانہ، مولانا بھاشانی، خواجہ خیرالدین اور دوسری نمایاں سیاسی شخصیات نے ان کو صدارتی انتخاب میں شکست دلوانے کے لیے درپردہ سازش کر رکھی تھی۔
7 اکتوبر 1958ء کے مارشل لا سے قبل سیاسی حکومتوں نے کئی ایسے کام کیے جو کسی جمہوری معاشرے میں پسند نہیں کیے جاتے؛ البتہ پاکستان کی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے متفقہ آئین بنانے میں پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹوکا مکمل ساتھ دیا۔ بدقسمتی سے بھٹو صاحب نے بطور صدر مملکت ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرکے بنیادی حقوق معطل کر دیے۔ انہوں نے اپنے مخالفوں اور بعض حوالوں سے اپنے حامیوں کے ساتھ انتہائی سخت رویہ اختیار کیا اور ملک میں ڈیفنس رولز آف پاکستان نافذ کر دیا جو ان کے اقتدار سے محرومی تک ملک میں نافذ رہا۔
کراچی میں ایک صحافی پر حملے کی بعد کی صورت حال میں ملک کے تمام حلقوں کے لیے پیغام موجود ہے۔ سابق صدر زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر کچھ غیر ذمہ دار اینکر پرسنزکو آڑے ہاتھوں لیا تھا تاہم انہوں نے کمال مہارت سے میڈیا کے ساتھ محاذ آرائی سے اجتناب کیا۔ صرف یہی نہیں، وہ بڑی دانش مندی سے میمو گیٹ سکینڈل اور این آر او کیس جیسے بحرانوں سے بھی بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ 
پاکستان کی مسلح افواج اور آئی ایس آئی سمیت دوسرے تمام سکیورٹی ادارے قابلِ احترام ہیں کیونکہ یہ اِدارے پاکستان کی سرحدوں کا دفاع کرتے ہیں اور ملکی سلامتی کے ضامن ہیں۔ میڈیا بھی ایک ادارہ ہے جو پاکستان کے آئینی اداروں اور حکومت کی کارکردگی پر کڑی نگاہ رکھتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس ملک میں میڈیا جتنا آزاد اور طاقتور ہوتا ہے اس ملک کو اتنا ہی مہذب تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری اقوام اور ممالک کی طرح ہمیں بھی مسائل اور بحرانوں کا سامنا رہا اور آئندہ بھی ان سے نبرد آزما ہونا پڑے گا، یہ قوموں کا معمول ہے، لیکن ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک متحد قوم کی طرح ان چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کوئی مسئلہ ایک بار پیدا ہو جائے تو وہ ایک مناسب وقت میں حل نہیں ہو پاتا اور طول پکڑ لیتا ہے۔ دراصل ہمیں قومی معاملات پر یکساں سوچ اور افہام و تفہیم سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اختلافِ رائے کو برداشت کرنے اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں طے شدہ اصولوں کے مطابق اپنی ریاست کو چلانا ہو گا۔ اب پاکستان مزید انتشار، افراتفری اور انارکی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے کہ وہ ایک قومی رہنما کے طور پر آگے بڑھیں، اپنے وزرا کی کارکردگی اور بیانات پر کڑی نگاہ رکھیں، وزارتِ دفاع اور پیمرا کے معاملات میں رولز آف بزنس پر عمل درآمد کو یقینی بنوائیں۔ ایوانِ اقتدار اور اپوزیشن جماعتوں دونوں کو ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا۔ اگر اس وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا تو جمہوریت کو ناقابل معافی نقصان پہنچ سکتا ہے جو کسی کے بھی مفاد میں نہ ہو گا۔ 
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطابات کے بین السطور میں انتخابی نظام کے بارے میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ کم و بیش تمام اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے ممبران سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ بیشتر جماعتیں 11 مئی 2013ء کے انتخابات کو متنازع قرار دیے جانے پر متفق ہیں۔ ادھر پارلیمنٹ میں حکمران جماعت میں بھی گروہ بندی ہونے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم نواز شریف کو دیگر ضروری اقدامات کے علاوہ اپنے وزرا کے ان بیانات کا سخت نوٹس لینا چاہیے جن میں ہمارے ملک کے اہم اداروں پر تنقید کی گئی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں