"KDC" (space) message & send to 7575

پاک بھارت تعلقات: ایوب خان، نہروفارمولہ

پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اور عوامی حلقے پاکستان اور بھارت کے مابین امریکہ اور کینیڈا جیسی ہمسائیگی کے خواہاں ہیں۔ لیاقت نہرو معاہدے، ایوب خان‘ پنڈت نہرو ملاقات سے لے کر جنوری 2004ء کے پرویز مشرف واجپائی مشترکہ بیان تک پاک بھارت جامع مذاکرات کی روح یہی تھی کہ دونوں ممالک کے کلیدی تنازعات کو افہام و تفہیم سے طے کر کے مختلف میدانوں میں تعاون کی راہیں ہموار کی جائیں۔ وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورۂ بھارت میں دئیے گئے دوستی اور مفاہمت کے پیغام کے جواب میں مودی حکومت کی طرف سے پانچ نکاتی چارج شیٹ تھما دینا کسی طور مناسب نہیں تھی۔ ایسے نازک موقع پر ہمارے وزیراعظم بھی پاکستان کے عوام کی حقیقی اور روح پرور نمائندگی سے محروم رہے۔ جولائی 2001ء میں اِسی طرح کے حالات جب صدر پرویز مشرف کو آگرہ کے دورے کے موقع پر پیش آئے تھے تو انہوں نے بھارتی الزامات کے جواب میں جرأت مندانہ موقف اختیار کر کے بھارتی رہنمائوں کو مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے روپ میں بھارت کا مکروہ چہرہ دکھایا تھا۔ 
بھارت کی الزام تراشیوں کے جواب میں پاکستان سمیت سارے پڑوسی ممالک کے پاس ٹھوس شکایات اور ناقابلِ تردید الزامات کی طویل فہرستیں موجود ہیں‘ اس لئے مناسب یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت ماضی کی غلطیوں‘ شکایات اور تلخیوں کو ختم کرنے کے لئے جموں و کشمیر کے تنازعہ کے حوالے سے پنڈت جواہر لال نہرو کی جولائی 1964ء کی کوششوں کو لے کر آگے بڑھیں۔ جب پنڈت نہرو بسترِ مرگ پر تھے‘ تو کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کے لئے ان کا ضمیر جاگ اٹھا تھا اور انہوں نے شیخ عبداللہ کو تہاڑ جیل سے رہا کر کے اپنے خصوصی پیغام کے ساتھ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان سے مل کر اس تنازعہ کے حل کے لئے جامع حکمتِ عملی مرتب کرنے کیلئے بھیجا تھا۔ ہماری موجودہ حکومت کو ایوب خان اور شیخ عبداللہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی روئیداد وزارتِ خارجہ سے منگوا کر پڑھنی چاہیے۔ 17اپریل 1974ء کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے میرے سامنے انکشاف کیا تھا کہ پنڈت جواہر لال نہرو اپنی زندگی کے آخری ایام میں جموں و کشمیر کے تنازعہ کو سنجیدگی سے حل کرنے پر تیار ہو گئے تھے اور انہوں نے شیخ عبداللہ کے ذریعے حکومت پاکستان کو پیغام دیا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی بائونڈری کو نئے سرے سے تشکیل دے کر ایسا فارمولہ تیار کیا جائے جو دونوں ممالک کے لیے قابلِ قبول ہو۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے شیخ عبداللہ کے متعلق کچھ حیرت انگیز انکشافات بھی کئے۔ ان کا کہنا تھا کہ شیخ عبداللہ نے اس ملاقات کے دوران پاکستان کے ذہین وزیرخارجہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس فارمولہ کو سبوتاژ کر دیں گے کیونکہ وہ ایسا تاریخی کارنامہ اپنے کریڈٹ میں لے کر ملک کا آئندہ صدرِ مملکت بننے کے لئے کوشاں ہیں؛ تاہم قدرت کو یہ منظور نہ تھا اور پنڈت جواہر لال نہرو دل کے دورے سے انتقال کر گئے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے یہ بھی بتایا کہ شیخ عبداللہ نے فرمائش کی تھی کہ لاہور میں نیڈو ہوٹل‘ جہاں اب آواری ہوٹل قائم ہے‘ کے حق ملکیت ان کی بیگم صاحبہ کو دے دئیے جائیں کیونکہ بقول شیخ عبداللہ یہ ہوٹل ان کی بیگم کو وراثت میں ملا تھا۔ اس کے علاوہ مری میں سیسل ہوٹل بھی ان کو الاٹ کرنے کی بات بھی کی۔ انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ فاروق‘ جو ان دنوں لندن میں زیر تعلیم تھے‘ کے لئے مالی اِمداد کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا اور یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ رازداری سے ان کی صاحبزادی کی شادی پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے سینئر افسر سے کروا کر اس کی پوسٹنگ کسی مغربی ملک میں کر دی جائے تاکہ وہ مالی آسودگی سے اپنی زندگی گذارسکے۔ صدر ایوب خان نے شیخ عبداللہ کا مطالبہ اسی طرح سفارتی انداز میں نامنظور کر دیا جس طرح پنڈت جواہر لال نہرو نے قائداعظم محمد علی جناح کی اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا کہ بمبئی کا جناح ہائوس ان کو الاٹ کر دیا جائے۔ 
شیخ عبداللہ مرحوم کی صاحبزادی کے رشتے کے بارے میں وزارتِ خارجہ نے اپنے طور پر چھان بین بھی کی اور کوشش بھی۔ لیکن مقبوضہ کشمیر کے حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے کوئی ایسا رشتہ سامنے نہ آیا جس سے مرحوم شیخ عبداللہ کی دلجوئی ہو سکتی۔ اسی دوران میں ملک میں صدارتی انتخابات کا شیڈول جاری ہو گیا اور فیلڈ مارشل ایوب خان اور ماردرِ ملت فاطمہ جناح کی انتخابی مہم شروع ہو گئی۔
وزیراعظم نوازشریف نے دہلی میں پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ بھارت کے ساتھ نئے دور کا آغاز کرنا چاہتے ہیں اور معاملات کو وہیں سے شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں سے فروری1999ء میں نواز واجپائی ملاقات کے بعد ٹوٹے تھے۔ وزیراعظم پاکستان حقائق کا گہری نظروں سے جائزہ لیں ۔ نوازشریف اور واجپائی ملاقات میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے کے بارے میں واجپائی خطرناک چالیں چل رہے تھے۔ لہٰذا وزیراعظم نوازشریف کو اس تنازعہ کے حل کے لئے پنڈت جواہر لال نہرو کی تجویز کو ہی آگے بڑھانا چاہیے جو انہوں نے شیخ عبداللہ کے ذریعے فیلڈ مارشل ایوب خان کو پیش کی تھی۔ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ملاحظہ فرمائیں کہ وزیراعظم نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے معاشی ایجنڈے اور امن کے بارے میں بات کی مگر وزیراعظم کی پریس کانفرنس میں کشمیر، سر کریک، سیاچن اور پانی جیسے اہم قومی ایشوز کا ذکر تک نہ تھا۔
فروری1999ء میں جب بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے تھے‘ تب بھارت کا اصرار تھا کہ دونوں ممالک کو کور ایشو کشمیر کو حل کرنے کے لئے پہلے اعتماد کی فضا بحال کرنا ہو گی۔ اس وقت بھارتی وزیراعظم کا خیال تھا کہ ویزہ کے سہل حصول اور ثقافتی تبادلوں سے دونوں ممالک میں پیچیدہ مسائل حل کرنے کے لئے اعتماد کی فضا پیدا ہوگی‘ مگر پاکستان کا مؤقف تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر دونوں ممالک میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ آج پاکستان 1999ء کے بھارتی مؤقف معاشی ، تجارتی تعاون اور ثقافتی تبادلوں کی بات کر رہا ہے تو بھارت پانچ نکاتی مطالبات کی فہرست لیے کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی پریس کانفرنس اور بھارتی سیکرٹری خارجہ کی پریس بریفنگ کا عمیق نظر سے جائزہ لیا جائے تو بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے انڈیا ڈیسک کے سیکشن افسر کی جانب سے اس دورے کو محض خیر سگالی تک ہی محدود رکھا گیا تھا‘ جب کہ بھارت نے پاکستان کے وزیراعظم کے دورہ بھارت کو غنیمت جان کر مطالبات تیار کر رکھے تھے۔ کاش وزیراعظم پاکستان اپنے بھارت نواز نادان دوستوں کے نرغے سے نکلیں اور پاکستان کے سابق مرد آہن ذوالفقار علی بھٹو کی 15ستمبر1965ء کو اقوامِ متحدہ میں کی گئی تاریخی تقریر کو مدِ نظر رکھیں‘ جس کے جواب میں پاکستان کی غیرت مند قوم نے بھٹو خاندان کو بیس سالہ اقتدار سے نوازا اور اب بھی سندھ حکومت انہی کے پاس ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں