"KDC" (space) message & send to 7575

سیاستدانوں کے غیر ملکی اثاثوں کا مقدمہ

ابن خلدون نے ایک ابدی سچائی بیان کردی ہے کہ قومیں اس دن سے اپنی قبرکھودنے لگتی ہیں جس دن ان کے شعورو اِدراک سے اپنے دشمنوں کی شناخت غائب ہو جاتی ہے۔ ابن خلدون نے لکھا : ''جو قومیں اپنے فطری دشمنوں اور فطری دوستوں کو پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہیں‘ وہ اپنے زوال اور اپنی تباہی کے اسباب خود پیدا کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ اگر آخری عباسی خلفا چنگیزی طوفان کو بغداد کے لئے ایک بڑا خطرہ شروع میں ہی سمجھ لیتے تو نوبت ہلاکوخاں کی یلغار تک نہ آتی۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ بغداد نے خوارزمی طاقت کو اپنے لئے خطرہ سمجھ کر چنگیز خان کے ساتھ امن قائم رکھنے کی کوشش کی‘‘۔ دوسری بڑی سچائی جس پر ابن خلدون نے خاص طور پر زوردیا وہ یہ تھی کہ جس معاشرے اور مملکت میں اقتدار حصول منفعت کو ترجیح دینے والے تاجروں اور امراء کے ہاتھوں میں چلاجایا کرتا ہے اس معاشرے اور اس مملکت کو شکست وریخت کا نشانہ بننے سے نہیں بچایا جاسکتا۔ وسائل، تجارت اور قوت اقتدار کا ایک ہاتھ میں ہونا کسی مملکت کی بربادی کا سب سے زیادہ آزمودہ اور مستند نسخہ ہوتا ہے،اس لئے کہ زیادہ سے زیادہ امارت اور اقتدار کی بھوک رکھنے والے شخص کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔آج اس تاریخی سچائی کے چلتے پھرتے پیکر سیاستدانوں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ان کے دنیا کے ہربڑے شہر میں اپنے گھر ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کے حالیہ دورہ بھارت کے موقع پر صنعت کاروں اور بڑے کاروباری لوگوںسے نجی ملاقاتوں کی خبریں بھارتی میڈیا میں شائع ہوتی رہی ہیں۔
ہمیں قومی مسائل میں سب سے زیادہ ضرورت داخلی استحکام اور یک جہتی کی ہے۔ یہ تاثر ملک کے اندر ہی نہیں ملک سے باہر بھی عام ہے کہ پاکستان کی حکومت کی سمت اور ہے اوراس کی بعض قومی پالیسیوں کی وجہ سے سکیورٹی ادارے کی سمت اور ہے۔ حیرت ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاشی اور امن و امان کے شدید بحران کے باوجود پاکستان کے وزیراعظم کے پاس اتنا وقت کیسے نکل آتا ہے کہ وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اپنی والدہ سے محبت کے جذباتی مناظر دیکھ پاتے ہیں۔ حلف برداری کی تقریب کے دوسرے دن وزیراعظم مودی پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور ملاقات کے دوران ممبئی حملوں کا تذکرہ اور باہمی تجارت پر زور دیتے رہے مگر پاکستانی وزیراعظم مبینہ طور پرکشمیر ، بلوچستان اور وزیرستان میں بھارتی دہشت گردی کا ذکر نہ کر سکے بلکہ تجارت ہی کے گیت گاتے رہے۔
گویا تقریبِ حلف برداری میں بھارتی وزیراعظم مودی بہت کچھ جیت گیا اور مبینہ طور پر پاکستان نے بھارتی بالادستی غیرعلانیہ طور پر قبول کر لی۔ ملاقات میں دریائوں کی بات ہوئی نہ پانی کی تقسیم کے فارمولوں پرگفتگو ہوئی۔بس اجمالاً یہ ذکرہوتا رہاکہ برصغیر کے ڈیڑھ ارب افراد امن اور تجارت چاہتے ہیں۔ تجارت کے نام پر بھارتی بالادستی اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیاں قبول کرلی گئیں ، بلوچستان اورکراچی میں دہشت گردی کو نظر انداز کردیا گیا، دریائوں کے پانی اور کشمیرتک کو فراموش کردیاگیا۔کشمیری قیادت سے ملاقات سے گریزکیاگیا جبکہ بھارتی سٹیل ملزکے بین الاقوامی سرمایہ دار سے ملاقات کر کے وزیراعظم پاکستان نے پاکستانی عوام کی حقیقی ترجمانی کاحق ادانہیںکیا۔
اگر قیامِ پاکستان کے بعد کی ملکی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیاجائے تو ثابت ہوتا ہے کہ ایک مخصوص ذہنیت کی حامل شخصیتوں نے صوبائی نفرتوں اور لسانی و علاقائی عصبیتوں میں دانستہ اضافہ کروایا۔ پاکستان کے ساتھ عوام کی جذباتی وابستگی کو یونی نسٹ پارٹی کے رہنمائوں نے سازش کے تحت کمزورکیا۔ جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کومضبوط کرکے عوام کومحکوم بنایاگیا۔ نئی نسل اس بات سے آگاہ نہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح کی پہلی کابینہ میں شامل وزراء کو 1970ء تک ہر نئی حکومت میں شامل کیاگیا۔ اگرکوئی بااثر وزیر وفات پاگیا تو اس کے خاندانی جانشینوں کو وزارت سے نوازا گیا۔ نواب مشتاق گورمانی، نواب قز لباش، چودھری فضل الٰہی، ڈاکٹر خان، ممتاز محمد خان دولتانہ؛جنوبی پنجاب کے خاکوانی، گیلانی، لغاری، قریشی؛ سندھ، بلوچستان اورخیبر پختون خواکی بھی ایسی شخصیتوں کا سراغ لگانا مشکل نہیں ہے۔
1951ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان کے خلاف فوجی سازش، اگرتلہ سازش کیس، راولپنڈی سازش کیس کے علاوہ حکومتوں کے تختے الٹنے کے ذمہ دار بعض لوگوں کوقید کی سزائیں بھی دی گئیں لیکن بیشترکو وزارتوں اور سفارتوں سے نوازاگیا۔نواب اکبر بگٹی، نواب خیر بخش مری، ولی خان، سردار عطاء اللہ مینگل 1972ء میں لندن پلان کا حصہ رہے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کی دستاویزات دبادی گئیں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی پرحمودالرحمٰن کمیشن کی رپورٹ آج تک سرکاری طور پر جاری نہیں ہوئی، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک کے پیچھے سازش پر پردہ ڈال دیاگیا، 1975ء سے 1977ء تک پنجاب کے گورنر نواب صادق قریشی نے 35نشستوں پردھاندلی کرواکے قومی اتحاد کی تحریک کو جلا بخشی۔ان کا یہ کردار بھٹوصاحب کے لئے سازش تیارکرنے میں بہت اہم رہا۔ 6اگست1990ء اور 5نومبر1996ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کے خاتمے اور نواز شریف کی 18جولائی 1993ء اور 12اکتوبر1999ء کی حکومتوں کا خاتمہ، لندن میں نام نہاد سیاسی پناہ حاصل کرنے والے سیاستدانوں کی محب وطن بن کر واپسی، بحالی جمہوریت سے میثاقِ جمہوریت تک کے تمام حالات کی غیر جانبداری سے 
تحقیق کی جائے تو پاکستان کے مظلوم عوام کو احساس ہو جائے گا کہ انہیں قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت سے آج تک فریب کے سحر میں مبتلا رکھا گیا۔ ان امور پر میری غیر سیاسی تنظیم نیشنل ڈیموکریٹک فائونڈیشن تحقیقی کام کر رہی ہے۔ 
سیاستدانوں کے غیر ملکی اثاثہ جات سے متعلق ہائی کورٹ نے ملک کی 63ممتاز سیاسی شخصیتوں کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ یہ انتہائی سنگین نوعیت کا قومی کیس ہے،اس لئے توقع ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اس کیس کو غیر معمولی طور پر طول نہیں پکڑنے دے گی اور اس نوعیت کے دوسرے اہم مقدمات کے فیصلے بھی جلد کردے گی۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس اہم کیس پر پاکستان کے حساس ادارے کوبھی نظررکھنی چاہئے۔اگراس کیس کا بروقت میرٹ پر فیصلہ آگیا تو بڑے بڑے سیاستدانوں کے محلات کے کنگرے گر جائیں گے۔ غیر ملکی اثاثوں کے بارے میں کیس کے سلسلے میں ملک ایک فیصلہ کن مرحلے پرکھڑا ہے۔ عدالتیں تیزی سے فیصلے کریں اور ان پر عمل درآمد کرنے والی غیر جانبدار فورسزآئین کے آرٹیکل 90کے تحت سخت کارروائی کریں تو شاید ملک کی بقااور باوقار مستقبل کی کوئی صورت نکل آئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو بلاشبہ اسلام اور دین کا ادراک ہے، وہ سیاست اور آئین کو سمجھتے ہیں اور ان کی تنظیمی صلاحیت تو صفِ اول کے قومی سیاستدانوں سے بھی بہتر ہے۔ انہیں چاہیے کہ ملک کے 63 سیاستدانوں کے غیر ملکی اثاثوں کے کیس میں خود آگے بڑھ کر فریق بن جائیں تو احتجاجی تحریک چلانے کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور ملک خود بخودکرپٹ سیاستدانوں سے ہمیشہ کے لئے پاک ہو جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں