"KDC" (space) message & send to 7575

نواب خیر بخش مری: کچھ یادیں

بلوچستان کے قو م پرست رہنما نواب خیر بخش مری کی رحلت سے قوم حقیقی، جمہوری اور روایت پرست رہنما سے محروم ہو گئی جو زندگی بھر اپنے نظریات سے مخلص رہا۔ وقتی سیاسی و ذاتی مفادات کی خاطر جس نے اُصولوں پر سمجھوتہ کرنا کبھی گوارا نہ کیا۔ اس کے نتیجہ میں انہیں کئی بار قید و بند کی تکلیفیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ وہ 1950ء میں مری قبیلے کے سردار منتخب ہوکر بلوچستان کی سیاست میں سرگرم ہوئے۔ ایوب خان کے مارشل لاء کی حکومت میں انہوں نے شدید مزاحمت کی تحریک بھی جاری رکھی۔ انہوں نے صدارتی مہم میں‘ محترمہ فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیا۔ 1970ء میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات میں نواب خیر بخش مری نے بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ 1973ء کے آئین پر انہیں شدید تحفظات تھے۔ وہ بلوچستان اور سرحد کو وسیع حقوق و اختیارات دیئے جانے کے طلب گار تھے۔ آئین ساز کمیٹی کے اَرکان نے ان کے مؤقف کو مسترد کر دیا تھا؛ کیونکہ اس وقت پاکستان انتہائی نازک صورتحال سے گزر رہا تھا۔ افغانستان کی حکومت نے روس اور بھارت کے ایماء پر نوجوانوں کی پختون زیمے کی تحریک کو مالی امداد فراہم کر کے پاکستان کو کمزور کرنے کی تحریک شروع کر رکھی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو ان دنوں قومی رہنما کی حیثیت سے پاکستان کو اس بھنور اور گرداب سے نکالنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے ۔ لہٰذا ایسے موقع پر نواب خیر بخش مری کا صوبوں کے لئے خود مختار انہ حقوق مانگنا پاکستان کے مفاد میں نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سیاسی ترپ کے پتے کھیلتے ہوئے نواب اکبر بگٹی اور پختون رہنما عبدالصمد اچکزئی کو اپنا ہمنواء بنا لیا تھا اور مفتی محمود کی جمعیت علماء اسلام اور غلام غوث ہزاروی کے دھڑے کو بھی اپنے ساتھ ملایا ہوا تھا۔ خان عبدالقیوم خان کی پاکستان مسلم لیگ اور کونسل مسلم لیگ کے ممتاز دولتانہ بھی بھٹو صاحب کے ہم نوا بن چکے تھے۔ ان حالات میں نواب خیر بخش مری نے دس اپریل 1973ء کو آئین کی منظوری کے وقت اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
انتخابات کے بعد بلوچستان میں بننے والی حکومت میں ان کے سیاسی رفقاء سردار عطاء اللہ مینگل اور سردار غوث بخش بزنجو وزیراعلیٰ اور گورنر بنے؛ تاہم دو سال بعد ہی وزیراعظم بھٹو نے یہ حکومت شاہِ ایران کی خواہش اور عراقی سفارت خانہ سے اسلحہ کی برآمدگی کو جواز بنا کر برطرف کر دی۔ اس غیر آئینی اقدام پر احتجاج کرتے ہوئے صوبہ سرحد کی حکومت کے وزیراعلیٰ مولانا مفتی محمود‘ جو نیشنل عوامی پارٹی کے اشتراک سے حکومت کر رہے تھے‘ احتجاجاً مستعفی ہو گئے۔ بھٹو نے ان دونوں صوبوں میں گورنر راج نافذ کرتے ہوئے بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کو گورنر بلوچستان مقرر کر دیا۔ بلوچستان کی حکومت کی برطرفی پر صوبے میں شدید رَد عمل ہوا اور نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی ۔ اس کے دیگر رہنمائوں کے ساتھ نواب خیر بخش مری کی گرفتاری بھی عمل میں آئی اور انہیں حیدر آباد سازش کیس میں ملوث کیا گیا۔ رہائی کے بعد انہوں نے بلوچستان میں مسلح مزاحمتی تحریک چلانے کا اعلان کیا اور افغانستان منتقل ہو گئے۔ افغانستان میں نور محمد ترکئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد آنے والی حکومت نے روس کو افغانستان میں فوجی مداخلت کی دعوت دی۔ روس کی فوجی کاروائی کے بعد جہادی تحریک امریکہ کی ایماء پر شروع ہوئی‘ تو نواب خیر بخش مری‘ جنرل ضیاء الحق کی ذاتی خواہش پر 1981ء کے اوائل میں پاکستان واپس آگئے ۔ واضح رہے کہ صدر جنرل ضیاء الحق نے ان کے لئے محفوظ راستے کے لئے خصوصی ہیلی کاپٹر بھجوائے تھے اور نواب خیر بخش مری اپنی فیملی اور ذاتی محافظین‘ یہاں تک کہ ان کے مرغی خانے بھی ان کے ہمراہ انہی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کوئٹہ واپس آگئے تھے اور کوئٹہ میں اپنے محل نما گھر میں مقیم ہو گئے تھے؛ تاہم اس کے بعد عملی سیاست سے کنارہ کش رہے۔
نواب خیر بخش مری محبِ وطن رہنما تھے۔ میں ان دنوں ایڈیشنل صوبائی الیکشن کمشنر بلوچستان تھا۔ اِسی حوالہ سے میری ان سے کئی بار ملاقات ہوئی۔ انتہائی خوبصورت اور دراز قد تھے‘ ملکی اور بین الاقوامی اُمور پر انہیں بڑی گرفت حاصل تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ جنرل ضیاء الحق ان کے ذاتی دوست اور گورنر بلوچستان لیفٹیننٹ جنرل رحیم الدین ان کی دیکھ بھال بھی کر رہے تھے‘ لیکن اس کے باوجود ان کی سوچ یہی تھی کہ پاکستان کو افغانستان کے اُمور میں ایرانی طرز پر غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنی چاہیے تھی اور پاکستان کو اس بیرونی جنگ میں ملوث نہیں ہونا چاہیے تھا اور اس 
جنگ کے خاتمہ کے ہولناک نتائج برآمد ہونگے۔ اور پاکستان کو اپنی وحدت کو برقرار رکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ افغانستان کے جنگجو اپنی کامیابی کے بعد توپوں کا رُخ پاکستان کی طرف موڑلیں گے اور پاکستان میں موجود 40لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین بلوچستان ، صوبہ سرحد اور کراچی کے اِرد گرد اپنی بستیاں آباد کر کے پاکستان کو اپنے کاروباری مفادات کو فروغ دینے کے لئے ہمیشہ حالتِ جنگ میں رکھیں گے۔ امریکہ پاکستان کو بفر سٹیٹ کے طور پر‘ افغانستان اور روس کے خلاف استعمال کرے گا۔ 
نواب خیر بخش مری‘ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں سے لاتعلق رہے اور 3فروری 1997ء کے قومی انتخابات کے نتیجہ میں ان کے صاحبزدگان چنگیز مری اور گزین مری نے صوبہ بلوچستان کی سیاست میں عملی حصہ لیا اور ان کا جھکائو نوازشریف کی پاکستان مسلم لیگ کی طرف رہا کیونکہ نواب خیر بخش مری کے سردار عطاء اللہ مینگل اور ان کے صاحبزادہ سردار اختر مینگل سے سیاسی تعلقات خوشگوار اس لئے نہیں تھے کہ نواب خیر بخش مری کے نواب محمد اکبر بگٹی سے دیرینہ سیاسی تعلقات تھے اور نواب اکبر بگٹی سردار عطاء اللہ مینگل کے ہمیشہ سیاسی حریف رہے۔ سردار عطاء اللہ مینگل کو نواب اکبر بگٹی سے اس لئے بھی شدید رنجش تھی کہ 1972ء میں بلوچستان میں ان کی حکومت کی برطرفی میں نواب اکبر بگٹی کا ہاتھ تھا اور مسٹر بھٹو نے نواب اکبر بگٹی کی حمایت سے ہی ان کی حکومت برطرف کر دی تھی۔ اس اقدام کے فوراً بعد مسٹر بھٹو نے نواب اکبر 
بگٹی کو گورنر بلوچستان مقرر کر دیا تھا۔ تاہم 3فروری 1997ء کے صوبائی انتخاب میں نواب خیر بخش مری کے سب سے چھوٹے صاحبزادہ نواب حربیار مری کوہلو، بگٹی ایجنسی سے کامیاب ہو گئے۔ 3فروری1997ء کے قومی و صوبائی انتخابات کے دوران راقم بلوچستان کا الیکشن کمشنر تھا اور اِسی حیثیت سے نواب خیر بخش مری میرے رابطے میں رہے۔ وہ اپنے صاحبزادگان کے سیاسی کیریئر کے بارے میں مجھ سے مشورہ کرتے رہتے تھے۔ نواب حربیار مری نے اپنی ابتدائی تعلیم روس میں حاصل کی تھی۔ وہ انگریزی اور اُردو زبان سے نابلد تھے۔ ان کو صوبائی اسمبلی کے اُمیدوار کی حیثیت سے کاغذاتِ نامزدگی کے فارم کو بھرنے میں بھی دقت محسوس ہو رہی تھی۔ قارئین حیران ہوں گے کہ نواب حربیار مری کو میں نے ہی اُردو پڑھنی سکھائی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ جب صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے تو ان کی اُردو اس قدر کمزور تھی کہ انہوں نے صوبائی اسمبلی کا حلف روسی زبان میں پڑھا اور اس کے لئے اس وقت کے صوبائی اسمبلی کے سپیکر میر عبدالجبار نے ان کو خصوصی اجازت نواب اکبر بگٹی کے ایماء پر دی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اَرکان نے اس رولنگ پر شدید احتجاج بھی کیا تھا۔
12اکتوبر1999ء کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جسٹس (ر) امیر الملک مینگل کو بلوچستان کا گورنر مقرر کر دیا تھا۔ امیرالملک مینگل کے نواب اکبر بگٹی اور نواب خیر بخش مری سے تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی تھی۔ چونکہ بطور الیکشن کمشنر بلوچستان‘ میرے‘ صوبے کے صف اول کے قبائلی اور سیاسی رہنمائوں سے ذاتی تعلقات تھے اور میں نے پاکستان کے اس اہم جغرافیائی خطے کی سیاست کو قریب سے دیکھا۔ 
(باقی صفحہ 13پر) 
نواب خیر بخش مری سے میری ملاقات بھی رہی۔ میں نے نواب اکبر بگٹی اور نواب خیر بخش مری کو قومی دھارے میں شریک ہونے پر آمادہ کر لیا تھا۔ لیکن بد قسمتی سے بلوچستان کی صوبائی حکومت میں ایسی طاقتور لابی موجود تھی جو نواب خیر بخش مری کو قومی سطح پر لانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی تھی۔ ان ہی دنوں بلوچستان ہائی کورٹ کے نامزد چیف جسٹس نواز مری کو غالباً جنوری 2000ء کے آخری ہفتہ میں بلوچستان ہائی کورٹ کے گیٹ کے قریب قتل کر دیا گیا۔ چونکہ جسٹس نواز مری کے قبیلے اور نواب خیر بخش مری کے درمیان کوھلو میں دیرینہ دشمنی چلی آرہی تھی لہٰذا بلوچستان کے گورنر کے حکم پر جسٹس نواز مری کے قتل کے شبہ میں نواب خیر بخش مری اور ان کے صاحبزدگان کو گرفتار کر لیا۔ اس گرفتاری کے نتیجہ میں نواب اکبر بگٹی اور وفاقی حکومت کے درمیان جو دوستانہ مراسم آگے بڑھ رہے تھے وہ عارضی طور پر معطل ہو گئے۔ اب بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو نواب خیر بخش مری کی بلاوجہ گرفتاری کی تحقیق کرنی چاہیے کہ نواب خیر بخش مری کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کرنے کا کیا جواز تھا اور نواب صاحب کو صوبائی حکومت کی کس مقتدر شخصیت نے گرفتار کر کے اپنی ذاتی انا کی تسکین کی تھی۔ 
یہ حقیقت ہے کہ نواب اکبر بگٹی کے قتل نے انہیں شدید صدمہ پہنچایا۔ بلوچستان میں اس واقع کے ردِ عمل میں جو مزاحمتی تحریک ابھری ، نواب خیر بخش مری کے ہونہار بیٹے نواب حربیار مری کا حصہ اس میں بہت نمایاں ہے۔ تاہم ان کے صاحبزادے چنگیز مری پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن ہیں اور بلوچستان کی موجودہ حکومت میں شامل ہیں۔ بحیثیت مجموعی نواب خیر بخش مری اپنی 86سالہ زندگی میں منافقانہ سیاسی رویوں سے ہمیشہ دور رہے۔ ان کے نظریات سے اختلافات کیا جاسکتا ہے۔ مگر ان کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے ذاتی مفادات کی خاطر اُصولوں کو قربان کیا اور یہی کسی قومی رہنماکی عظمت کی اصل شناخت ہے۔ نواب خیر بخش مری پاکستان کے صف اول کے قومی رہنما تھے۔ لہٰذا اسلام آباد کی کوئی بڑی شاہراہ ان کے نام سے منسوب کی جائے۔ وفاقی دارالحکومت میں بعض سڑکیں درمیانے درجے کے شاعروں کے نام سے منسوب ہیں‘ اس پر نظر ثانی کی جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں