"KDC" (space) message & send to 7575

صدارتی طرز حکومت رائج کیا جائے!

پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی فرینڈلی اپوزیشن اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کے صبر و تحمل اور قناعت سے اپنی آئینی مدت تو مکمل کر لی لیکن وفاق نے ان پانچ سالوں میں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہونے دیا۔ اَربوں اور کھربوں کی کرپشن کی داستانیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنتی رہیں۔ اس کے برعکس نوازشریف کی حکومت کو ابھی سال ہی گزرا ہے کہ ان کے زوال پذیر ہونے کی خبریں سنائی دینے لگی ہیں‘ جو کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ملک کے ممتاز سیاستدانوں نے حکومت کو وارننگ دینا شروع کر دی ہے کہ ان کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کی وجہ سے وفاقی حکومت پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ طرز حکومت کے حوالہ سے پاکستان چند سالوں سے عدم استحکام کا شکار چلا آ رہا ہے اور اس میں حکومتوں کی نااہلی اور کرپشن کے ساتھ ساتھ ماضی کی عدلیہ اور میڈیا کے ایک حصے کا بھی بڑا دخل رہا ہے۔ 1956ء میں آئین ساز اسمبلی نے 9سال کی سست روی سے وحدانی طرزِ حکومت پر مبنی آئین بنایا تو صدر سکندر مرزا نے اپنی صدارت کے تحفظ کی خاطر اسے منسوخ کر کے کمزور ترین جمہوریت کی بساط لپیٹ دی۔ بھارت نے 26جنوری 1951ء کو آئین نافذ کر دیا۔ جو کہ بڑی حد تک ایکٹ 1935ء پر مبنی تھا؛ تاہم اس میں ضروری ترامیم کر کے اسے اصل جمہوری شکل دے کر مضبوط پارلیمنٹ کی بنیاد رکھی۔ درست ہے کہ جمہوریت سمیت دنیا میں اس وقت رائج کوئی بھی نظام مثالی یا مکمل نہیں۔ مگر عوام کے مزاج سے ہم آہنگ ہونے کی بنا پر جمہوریت ہی کو سب سے بہتر اور قابلِ عمل نظام قرار دیا جاسکتا ہے اور مخصوص، سیاسی، جغرافیائی حقیقتوں کی موجودگی میں پاکستان کے لئے بھی یہی نظام موزوں ترین ہے۔
پاکستان اس وقت کئی طرح کی مشکلات سے گزر رہا ہے۔ فیڈریشن میں شامل چاروں صوبوں میں سے ایک میں علیحدگی کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ جنگ افغانستان کے تباہ کن نتائج، بدترین دہشت گردی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ مغربی سرحد پرامن کے حوالہ سے افغانستان میں آنے والی حکومت سے بھی زیادہ خیرخواہی کی توقع نہیں۔ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت پاکستان میں اپنے کارندوں کے ذریعے افراتفری پھیلانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ آزاد کشمیر اور مشرقی سرحدیں خطرے کی زد میں آنے کا امکان ہے۔ بے شک وزیراعظم نوازشریف جتنی کوششیں کر لیں‘ بھارتی حکمت عملی پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز ہو چکا ہے۔ اُصولی طور پر قومی اہمیت کے حامل اس فیصلہ کی پارلیمنٹ سے بھی منظوری لینا چاہیے تھی۔ اس سے پارلیمنٹ کے وقار پر گہرا اثرپڑتا۔
پاکستان میں جاگیردارانہ جمہوریت 66سال سے رائج ہے۔ اب جبکہ وزیراعظم نے ملک کے وسیع تر مفاد میں نیا انتخابی نظام وضع کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی مشترکہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کی تشکیل کرنے کے احکامات جاری کر دئیے ہیں۔ میں اس موقع کی مناسبت سے ملک کے انتخابی نظام میں انقلابی و ترقی پسندانہ تبدیلیوں کے لئے چند تجاویز پیش کر رہا ہوں۔ 
ملک کو مضبوط و مستحکم جمہوریت کی راہ پر چلانے کیلئے ملک میں صدارتی نظام جمہوریت لانے کے لئے پارلیمانی کمیٹی کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنا ہوگاتاکہ صرف صدرِ مملکت بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب ہو۔ ملک کی پارلیمنٹ جمہوری طریقہ سے وزیراعظم منتخب کرے اور ملک میں مخلوط نظامِ حکومت رائج کیا جائے۔ چیک اور بیلنس کے اصولوں پر صدر اور وزیراعظم کسی سیاسی، پارلیمان دبائو سے بالاتر ہو کر ملک کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر دیں۔ فیڈریشن کو مضبوط کرنے کے لئے بھارت کی طرز پر سٹیٹ یونین میں اضافہ کرے اور پاکستان میں مزید صوبے قائم کئے جائیں اور ملکی مفاد میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ صدر کا تعلق کسی بھی پارٹی سے نہ ہو، غیر جماعتی طرز پر صدر کا انتخاب کیا جائے۔ مجوزہ صدارتی نظام میں صدرِ مملکت اور وزیراعظم کو اپنی کیبنٹ کی تشکیل کا اختیار ہو گا۔ جن کا پارلیمنٹ کا رکن ہونا ضروری نہ ہو۔ جو صرف اور صرف قابلیت اور ذہانت کے بل بوتے پر اس عہدے کے اہل ہوں۔ یہ وزراء اپنے شعبوں میں ماہر ہوں اور بین الاقوامی شہرت رکھتے ہوں۔ ان میں سے ہر وزارت کے ساتھ اس شعبے سے متعلق بہترین ماہرین کی مضبوط ٹیم قائم ہو۔ جس کی حمایت و معاونت سے وہ اپنا اپنا کام انجام دیں۔ اس وقت فیڈریشن پسپا ہوتی جارہی ہے اور چاروں صوبوں کی سمتیں مختلف راہیں اختیار کرتی جارہی ہیں۔ صوبہ پنجاب عملی طور پر فیڈریشن سے لاتعلق نظر آرہا ہے۔ وہ براہِ راست ترکی اور چین سے اربوں ڈالر کے معاہدے کر رہا ہے۔ جب کہ صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خوا ملکی وسائل سے کام کرتے نظر آرہے ہیں۔ صدارتی نظام میں اراکین پارلیمنٹ کا کام محض قانون سازی اور ملکی معاملات کی دیکھ بھال تک محدود ہوگا۔ وہ وفاقی اور صوبائی وزراء کی حیثیت سے مقرر ہونے کے اہل نہیں ہوں گے۔ 1962ء کے دستور میں یہ آرٹیکل ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا تھا کہ مرکزی وزراء کو اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونا پڑے گا۔ جس کے نتیجہ میںمسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی لاڑکانہ کی نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا اور وزیرخارجہ کے عہدے پر فائز رہے۔اِسی طرح مغربی پاکستان اسمبلی کی نشستوں سے بھی صوبائی وزراء کو اپنے اپنے حلقوں کی صوبائی نشستیں چھوڑنا پڑی تھیں جس میں سندھ کے طاقتور وزیر داخلہ قاضی فضل اللہ بھی شامل تھے ۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی مشرقی پاکستان میں بھی یہی عمل دہرایا گیا تھا۔ 
ملک کو درپیش چیلنج کا سامنا کرنے اور اس کے حل کے لئے ریفرنڈم کے بارے میں آرٹیکل مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے 7مارچ1977ء کے انتخابات کے بعد ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کرایا تھا۔ اس ترمیم کے تحت اہم قومی مسائل کے حل کے لئے عوام سے براہِ راست رائے لینے کے لئے ریفرنڈم کرایا جاسکتا ہے۔ اِسی طرح اگر انتخابی اصلاحات کمیٹی اپنے دائرہ ریفرنس کے ذریعے ملک کے انتخابی نظام میں تبدیلی لانے کی سفارش کرتی ہے تو ملک کے انتخابی سسٹم میں ترقی پسندانہ سوچ کو آگے بڑھانا ہو گا تاکہ اقتدار کے بھوکے بدعنوان پارلیمانی ارکان کا مکمل صفایا ہو جائے جو سیاست میں آتے ہی اس لئے ہیں کہ ملکی وسائل پر قبضہ کیا جائے۔ 
صدارتی امیدواروں، وزراء ، گورنروں کی تقرری سے پہلے ان کے کاغذاتِ نامزدگی واسناد کی ماہر افراد پر مبنی سپریم کورٹ کی کمیٹی سے جانچ پڑتال ہونا ضروری قرار دیا جائے۔ ہمارے پڑوسی ملکوں افغانستان اور ایران میں صدارتی امیدواروں کے تعلیمی ریکارڈ اور ان کے تجربے کو دیکھا جائے تو پاکستان میں ان کا کوئی بھی ہم پلہ نہیں ہے۔ اِسی طرح ایران کے صدارتی اُمیدواروں کو بھی کڑی جانچ پڑتال کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔
 
وزیراعظم کی مقرر کردہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کو آئین میں ترمیم کرتے ہوئے ارکان پارلیمنٹ کے لئے تعلیمی معیار پر بھی اپنی رائے دینی ہو گی۔ جیسا کہ ہمارے ہمسایہ ملک ایران میںہے تاکہ وہ اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی قانون سازی احسن طریقے سے پوری کر سکے۔ ارکان پارلیمنٹ کی تعلیمی شرط بی اے رکھنے کی سفارش جنرل تنویر نقوی چیئرمین نیشنل کنسٹرکشن بیورو نے کی تھی جسے مسٹر آصف علی زرداری‘ اس وقت کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے ذریعے ختم کر کے صدارتی اُمیدوار کی حیثیت سے قوم کے سامنے آئے۔
گہری سوچ بچار اور باریک بینی سے جائزے کے بعد انتخابی اصلاحات کمیٹی کی تشکیل کی جائے۔ جیسا کہ موجودہ حالات میں ہو رہا ہے۔ جہاں پانچ میں سے چار ارکان الیکشن کمیشن کو پارلیمنٹ کی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے لیا جاتا ہے۔ جس میں تقریباً تمام پارلیمانی ارکان کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ موجودہ الیکشن سیٹ اپ میں یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ صاف شفاف انتخابات کرائے جاسکتے ہیں۔ پاکستان میں رواں دواں سیاسی کشمکش کے اثرات سے کوئی ادارہ بھی مبرا نہیں۔ ان حالات میں عوام سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے سپریم کورٹ کا وقار اِسی طرز پر بحال کیا۔ جس طرح جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ذہانت، فراست اور دور بینی سے پاکستان کی افواج کی عزت و احترام اور تکریم میں اضافہ ہوا۔ جناب چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی 6جولائی کو ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس ناصر الملک پاکستان کے چیف جسٹس ہوں گے۔ میں ان کو ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ اپنے نام کی نسبت سے سپریم کورٹ کے محافظ ہوں گے۔ لہٰذا آئین کے آرٹیکل 213میں ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر کی ذمہ داری چیف جسٹس اور چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل کمیٹی کے سپرد کر دی جائے اور یہی کمیٹی چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرے۔ جو ایماندرانہ، غیر جانبدارانہ حیثیت سے پہچانے جاتے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی عمر کا تعین کرنے کے لئے انڈین الیکشن کمیشن کے قوانین سے بھی استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ریٹرننگ آفیسران انتظامیہ سے لئے جائیں اور ان کے تقرر سے پہلے انڈین الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے اور ریٹرننگ آفیسران کے تقرر سے پہلے ان کے دس سالہ سروسز ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی جائے اور ان کی خدمات انتخابات سے 6ماہ قبل‘ الیکشن کمیشن کے حوالے کی جائیں۔ جس حلقہ میں انتخابی دھاندلی، انتخابی لوٹ مار، بد انتظامی دیکھنے میں آئے۔ اس کی سالانہ رپورٹ میں اس کا اندراج کرنے کے اختیارات الیکشن کمیشن کو تفویض کئے جائیں۔ علاوہ ازیں عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء کی دفعہ 56-52میں ترمیم کر کے الیکشن عذرداری داخل کرتے ہوئے مدعی کو ریٹرننگ آفیسر کو فریق اول بنانے کے لئے اجازت دی جائے۔ موجودہ قوانین میں بد نیتی کے تحت ریٹرنگ آفیسران کو انتخابی عذرداریوں سے باہر رکھا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ریٹرننگ آفیسران انتخابات میں بدعنوانی کے مرتکب ہوتے نظر آتے ہیں۔ اگر ریٹرننگ آفیسران کو مدعی کی جانب سے الیکشن ٹربیونل میں فریق بنانے کی اجازت مل جائے تو پاکستان میں انتخابی عمل انتہائی شفاف ہو جائے گا کیونکہ ریٹرننگ آفیسران کو اپنا مستقبل بچانے کے لئے اپنے حلقے میں ہر قسم کی دھاندلی کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے اور وہ پولنگ کا عملہ تعینات کرتے ہوئے سیاسی اور سرکاری دبائو میں نہیں آئے گا۔
انتخابات کے دوران ہر پولنگ سٹیشن کے اندر فوجی عملہ تعینات کیا جائے جو ووٹر کے عمل پر نظر رکھے تاکہ دھاندلی اور جعلی ووٹوں سے بیلٹ بکس نہ بھرنے پائیں۔ جیسا کہ ہر انتخابات کے موقع پر دیکھنے میں آتا ہے۔ واضح رہے کہ 11مئی2013ء کے انتخابات کے موقع پر نگران حکومت کی بدنیتی کی بنیاد پر اور چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کی بزرگی، بیماری اور یادداشت کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوجی عملہ کو پولنگ سٹیشن کے باہر کھڑا رکھا گیا۔ فوجیوں کو الیکشن میں دھاندلی کرنے والے مجرمانہ کردار کے حامل ایجنٹوں کی کاروائی روکنے کے اختیارات بھی تفویض نہیں کئے گئے تھے۔
سیاسی پارٹیاں اپنے منشور کی بجائے برادری سسٹم اور جاگیردارانہ حوالوں کے بل بوتے پر الیکشن میں کامیابیاں حاصل کرتی ہیں۔ لہٰذا لوکل گورنمنٹ سسٹم کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر کے پاکستان میں تقریباً سات ہزار سے زائد یونین کونسلوں کی سطح تک 90ہزار لوکل کونسلروں کے ذریعے نئی قیادت کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کے لئے تمام مالی، انتظامی اختیارات صوبائی حکومتوں سے واپس لے کر ضلعی سطح کو دئیے جائیں اور آئین کے آرٹیکل 141-Aپر من و عن عمل کرایا جائے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ امریکہ جیسے جمہوری ملک میں صرف ایک عہدہ ایسا ہوتا ہے جو انتخابی عمل میں برتری کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے‘ یعنی صدر کا عہدہ، امریکی حکومت میں کوئی دوسرا عہدہ ایسا نہیں ہوتا جسے کسی منتخب عوامی نمائندے نے پُر کیا ہو۔ اگر پاکستان کو شاہراہ جمہوریت پر ڈالنا ہے تو اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ حکومتی عمل میں جو ہر قابل‘ بالا دست ہو۔
 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں