"KDC" (space) message & send to 7575

سانحہ ماڈل ٹائون : مجرم بے نقاب کیے جائیں

16جون 2014ء تک گلو بٹ کے نام سے پاکستان کے عوام بے خبر تھے۔اس کی مجرمانہ صلاحیتوں اورذمہ داریوں سے آگہی صرف لاہور پولیس یا مسلم لیگ (ن) کی قیادت رکھتی تھی، لیکن 17جون کو اس سنسنی خیز انکشاف نے پورے ملک کو چونکا دیا کہ پنجاب پر اصل حکومت گلوبٹ کی ہے۔ وہ پولیس کا مخبرہی نہیں مبینہ طورپر وہ بڑے افسر، رکن اسمبلی حتیٰ کہ وزیرتک کے فرائض بھی انجام دیتارہا ہے ۔گلو بٹ درجنوں ٹیلی ویژن چینلزکے سامنے لاہور پولیس کے ہمراہ ماڈل ٹائون میں منہاج القرآن مرکز کے سیکرٹریٹ کے آس پاس کھڑی گاڑیوں کی توڑ پھوڑکرتا نظرآیا۔گلو بٹ کے بارے میں ایک اینکر پرسن نے یہ خوفناک انکشاف کیا کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے صاحبزادے ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور عمران خان کے قتل کے مشن پر مامور تھا۔ 3 فروری 1997ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد حلقہ این اے 95 سے مجرمانہ سوچ کے حامل سینکڑوں نوجوانوں کو پولیس میں بھرتی کیاگیا۔اسی نرسری کے پودے پروان چڑھ کر آج درمیانے درجے کے درخت بن چکے ہیں اورگلو بٹ جیسی ذہنیت رکھنے والوں کی بہت بڑی کھیپ تیار ہو چکی ہے جوشریف برادران کے مخالفین پر بے رحم تشددکرتے ہیں۔ 
موجودہ نظام میںگلو بٹ ایک شخص کا نہیں بلکہ ایک رویے اورسوچ کا نام ہے۔آنے والے دور میںگلوبٹ کو یاد رکھا جائے گا جو ہر مرکزی عہدے پرفائزرہا۔ پاکستان میں صورت حال لمحہ بہ لمحہ بدتر ہوتی جارہی ہے۔ حکومت کی نااہلی،کرپشن اورخاندانی طرزِ حکومت سے تنائو پیدا ہورہا ہے۔انسانی تہذیب و تمدن کوارتقاء دینے کے بجائے اقتدارکی جنگ لڑی جارہی ہے۔ اس جنگ کی جھلکیاں لاہور میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں پر بدترین حکومتی تشددکی صورت میں نظر آئیں۔ 
منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے باہرعدالت عالیہ کی اجازت سے لگائی گئی رکاوٹیں ہٹانے کی آڑ میں پولیس نے دوخواتین سمیت چودہ افرادکوہلاک اور 97 کوگولیاں مارکر زخمی کردیا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا دعویٰ رہا ہے کہ ملک میں جمہوریت مضبوط ہوتی جارہی ہے اور انتقامی سیاست کا دور ختم ہو چکا لیکن منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے باہر پولیس نے جو کارروائی کی اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں انتقامی سیاست کا دورکس حد تک ختم ہو چکا ہے اور سیاسی حریف کو زیر کرنے کے لئے کس درجے کے تشدد کوجائز سمجھا جاتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انتقامی سیاست کا پھر سے آغاز ہو گیا ہے جس کا انجام یقیناً اچھا نہیں ہوگا۔ پنجاب کی حکومت نے لاہور میں جس ظالمانہ بربریت کا مظاہرہ کیا وہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکلز 38,19,16,14,9,4,2-Aاور65کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ادارہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر حفاظتی رکاوٹوں کو ہٹانے کی نہیں بلکہ ان میں اضافہ کرنے کی ضرورت تھی۔ وزیراعلیٰ پنجاب قوم کو بتائیںکہ مشتاق سکھیراجسے انہوں نے انسپکٹر جنرل پولیس جیسے عہدے کا 
اہل سمجھا وہ کیونکر کئی گھنٹے جاری رہنے والی خون ریز جنگ کے دوران اپنی تقرری کا جشن مناتا رہا۔
وزیراعلیٰ پنجاب جو خادمِ اعلیٰ کا لقب اختیارکئے ہوئے ہیں،نے 17جون کے دلدوزاور شرمناک سانحے پر اپنے دلی ،رنج و غم کا اظہارکیا اور یہ بھی کہا کہ ان کے تمام تر ہمدردانہ جذبات ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے ساتھ ہیں ۔ بہت سارے ذہنوں میں یہ سوال ابھرا کہ کیا کوئی حکمران ایک طرف اتناعالی ظرف اور دوسری جانب اس قدر بے خبرکیسے ہوسکتاہے کہ اس کے ماتحت کام کرنے والی انتظامیہ گھنٹوں خوفناک کھیل کھیلتی رہی مگر انہیں اس کا علم ہی نہ ہو پایا۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ میاں شہباز شریف گزشتہ چھ برس پنجاب پولیس کو اپنے مقاصدپورے کرنے کے لئے دودھ پلاتے رہے اور عوام کی نظر وں میں دھول جھونکتے ہوئے ان کومعطل کیا گیا مگر عملی طور پرانہیںکبھی سزانہیں دی گئی۔ خادمِ اعلیٰ کی اس روش پر میں نے اپریل 2010ء میں انہیں خط لکھا تھا کہ آپ کے اس مصنوعی فیصلوں سے پولیس پر آپ کی گرفت ڈھیلی ہوجائے گی۔
ان سوالوںکا ذہنوں میں اٹھنا فطری تھا۔ بالآخر عوام پر یہ سنسنی خیز انکشاف ہوگیاکہ پولیس آپریشن کی قیادت بستہ الف کے ایک بدمعاش نے کی۔ ایسے لوگوں کو میاں نوازشریف کی صوبائی اور وفاقی حکومت کے ادوارمیں پولیس میں بھرتی کیاگیاتھا ۔جو ہر الیکشن کے موقع پر پولنگ سٹیشنوں پر قبضہ جماکراپنی مرضی کے نتائج حاصل کرتے رہے ہیں۔ ان کے عزائم کواکتوبر1993ء میں افواجِ پاکستان نے براہِ راست اپنی نگرانی میں انتخابات منعقد کراکے ناکام بنایا تھا۔ اب قوم کے منہ پراس طرح طمانچہ مارا گیا کہ بے گناہ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کوگولیاں مارنے والی پولیس نے ایف آئی آر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے پیروکاروں کے خلاف کاٹ دی ۔ میری رائے میں یہ طمانچہ خود حکومت کے منہ پر ہے جس نے قتل کی اس واردات پر دلی رنج و غم کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ہمدردی کا اظہارکیا تھا۔
حکومت کو اپنے تمام اِداروں میں تقرری کے معیارکوتبدیل کرنا ہوگا۔ الیکٹرانک میڈیا کے بعض اینکر پرسنزپر بھی نظررکھنا ہوگی جن کی ذہنیت ذاتی مفادات کے حصول کے لئے گلوبٹ جیسی ہے۔ بعض ٹیلی ویژن چینلزکے گلوبٹ طرزکی ذہنیت رکھنے والے اینکرزلاہورکے سانحہ پر بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آئے۔
عوامی اور حساس اِداروں کے دبائو پر میاں شہباز شریف نے رانا ثناء اللہ کو برطرف اوراپنے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا مگر حتمی ذمہ داری وزیراعلیٰ پنجاب پر ہی عائد ہوگی،ان کے گردگھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا ہے اور ان کے قریبی ساتھی ڈاکٹر توقیر شاہ مستقبل کے مسعود محمود بنتے نظر آرہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سانحہ لاہور میں بے گناہ لوگوں کا قتلِ عام طے شدہ طریقہ کار کے مطابق تھا۔ کیونکہ یہ سانحہ بادی النظر میں ڈاکٹر توقیر شاہ اور رانا ثناء اللہ کی پلاننگ، احکامات اور اقدامات کے ذریعے بپا ہوا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی دوبار پریس کانفرنس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رانا ثناء اللہ وفاق کی سطح پرکسی سے احکامات وصول کرتے رہے ۔ ڈاکٹر توقیر شاہ کا کردار انتہائی متنازع رہا۔ پنجاب میں اس طاقتور خفیہ سیل کا بھی کھوج لگانا چاہیے جو پنجاب میں ایسی وارداتیں کرنے کاماہر ہے اور جس نے 11مئی 2013ء کے انتخابات میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس خفیہ سیل کے سربراہ زرداری فیم پولیس کے ایک سابق افسر کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر توقیر شاہ کو چندگھنٹوں کے لئے حساس اِداروں کے حوالے کر دیا جائے تو وہ اس خفیہ سیل کی خفیہ کارروائیوں کا پردہ چاک کر دیں گے۔
بہتر یہ ہوگا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں سپریم کورٹ پانچ رکنی بنچ تشکیل دے اور شعیب سڈل کی سربراہی میں انکوائری کمیشن مقررکرے جو دو ہفتے میں اس بنچ کو رپورٹ پیش کرے۔ اس تحقیقاتی عمل سے پنجاب پولیس کو علیحدہ رکھنا ہوگا۔ کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ دار سیاسی رہنمائوں، بیوروکریٹس اورگلو بٹ جیسے بدمعاشوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ڈاکٹر توقیر شاہ بہت مضبوط ہیں اور انہوں نے ہی سابق چیف جسٹس خواجہ شریف کے قتل کا خفیہ منصوبہ گورنر پنجاب کے کھاتے میں ڈالنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ سانحہ لاہور میں بھی وہی بادی النظر میں آرڈر دیتے نظر آرہے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں